آگے بڑھنے سے پہلے میں 
’’شرک فی الصفات‘‘ کے ذیل میں ’’مسئلہ شفاعت‘‘ کی قدرے وضاحت کردینا چاہتا ہوں. اللہ تعالیٰ کے اِذن کے ساتھ شفاعت قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے. اس کا انکار کرنے والا قرآن مجید اور حدیث دونوں کی نصوص کا منکر ہو جائے گا . آیت الکرسی میں ارشاد الٰہی ہے : مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ (البقرۃ:۲۵۵’’کون ہے جو اُس(اللہ تعالیٰ) کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے؟‘‘سورۂ طٰہٰ میں فرمایا گیا : یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا ﴿۱۰۹﴾ ’’اُس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی‘ اِلاّ یہ کہ کسی کو رحمان اِس کی اجازت دے اور اُس کی بات سننا پسند کرے.‘‘البتہ اگر کسی کے ذہن میں شفاعت کا تصور یہ ہے کہ کوئی ہستی اتنی زور آور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عدل کے راستے میں (معاذ اللہ) رکاوٹ بن سکتی ہے‘ اور اللہ سے اس کی مرضی کے خلاف کچھ کروا سکتی ہے تو یہ یقینا شرک ہے. اس لیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ شانِ یکتائی کہ وہ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ہے‘ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ ہے‘ یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ہے‘ مجروح ہو کر رہ جاتی ہے. پھر تو وہ (معاذ اللہ) کسی اور کی مرضی کا پابند اور کسی اور سے اِذن کا خواہاں بن کر رہ جائے گا. پھر تو وہ اللہ نہ رہا‘ اس لیے کہ اس کا اختیار اور اس کی قوت محدود ہو گئی! جبکہ اللہ تو وہی ہے جس کی قوت اور اختیارات لامحدود ہیں. 

درحقیقت مشیتِ مطلقہ اور ارادۂ مطلق صرف اللہ کے لیے ہے‘ کسی اور کے لیے نہیں ہے. البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِذن پا کر شفاعت کرنا یہ یقینا قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے. اور یہ شفاعت صرف قیامت کے دن ہی نہیں ہو گی‘ اب بھی ہورہی ہے . کوئی بھی شخص جب کسی دوسرے کے لیے کوئی دعا کرتا ہے تو وہ شفاعت ہے. 
’’شفع‘‘ دراصل دو (۲)کو کہتے ہیں. جیسے سورۃ الفجر میں فرمایا گیا : وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾ ’’اور قسم ہے جفت اور طاق کی‘‘.تو شفاعت یہ ہے کہ آپ نے اپنی ایک درخواست کہیں پیش کی اور کسی نے آپ کے لیے سفارش بھی کی. تو یہ سفارش دراصل شفاعت ہے کہ اُس نے اپنی بات بھی آپ کی بات کے ساتھ جوڑ دی تو بات دوہری ہوگئی. یعنی ایک سائل ہے جو اپنا سوال پیش کر رہا ہے اور ایک اور ہے جو اُس کی سفارش کر رہا ہے . نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کے دوران بھی یہ ہوتا تھا کہ کسی مسلمان سے کسی خطا یا غلطی کا صدور ہو جاتا تو وہ خود بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا تھا اور نبی اکرم کی خدمت میں بھی حاضر ہوتا تھا کہ آپؐ بھی اللہ تعالیٰ سے میرے لیے سفارش کریں.یہ نبی اکرم کی طرف سے اللہ کی بارگاہ میں اُس مسلمان کے لیے شفاعت تھی. اسی طرح قرآن مجید سے ثابت ہے کہ فرشتے بھی انسانوں کے لیے شفاعت کرتے رہتے ہیں. ازروئے الفاظِ قرآنی : یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ (الشورٰی:۵’’وہ زمین والوں کے لیے (اپنے پروردگار سے) استغفار کرتے رہتے ہیں.‘‘اسی طرح کا معاملہ میدانِ حشر میں ہو گا. 

انبیاء‘ صدیقین‘شہداء‘ صالحین اور اولیاء اللہ کو اپنے اپنے مراتب کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملے گی کہ وہ بھی گنہگاروں کے حق میں شفاعت کریں. البتہ اللہ تعالیٰ کے اِذن کے بغیر کوئی ہستی بھی کسی کے لیے شفاعت نہیں کر سکے گی. ارشادِ الٰہی ہے : لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا (النبا) ’’(اُس روز) کوئی نہ بولے گا (کسی کو کلام کرنے کا یارا نہ ہو گا) سوائے اُس کے جسے رحمن اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے .‘‘تو شفاعت کا مطلق انکار قرآن مجید اور احادیثِ نبویہؐ کی نصوص کا انکار ہے. البتہ شفاعت کا جو ایک عوامی اور جاہلانہ تصور ہے کہ ؎ 

خدا جنھوں پکڑے چھڑا لے محمدؐ 
محمدؐ دے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا 

یہ شرک کی بدترین صورت ہے. اس میں ‘نعوذ باللہ ‘اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ایک اور مشیت غالب آ رہی ہے اور اس کے ارادے پر ایک اور ارادہ مُستَولی ہو رہا ہے.