مال سے انسان کو بہت محبت ہے.نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے.اسے آپؐ کی بددعا بھی کہا جا سکتا ہے اور خبریہ کلام بھی قرار دیا جا سکتا ہے. آپؐ نے فرمایا:
تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ (۱)
’’ہلاک ہو جائے (یا ہلاک ہوا) درہم و دینار کا بندہ.‘‘
دیکھئے نبی اکرمﷺ نے یہاں ’’عبد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ جیسے سورۃ الفرقان کی آیت ۴۳ اور الجاثیہ کی آیت ۲۳ میں ’’الٰہ‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے ‘ تاکہ کوئی اشکال اور اشتباہ باقی نہ رہے‘ اِدھر اُدھر سے بچ نکلنے کا کوئی موقع نہ رہے. جسے مال بہت محبوب ہے اسے آپؐ نے عبدالدرہم اور عبدالدینار کہا ہے. اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ بس مال آنا چاہیے‘ چاہے حلال سے آئے یا حرام سے آئے. اب اگر آپ کے دل میں مال کی محبت اِس قدر ہے تو آپ کا محبوب اور معبود مال ہوا. اس لیے کہ جوچیز محبوب ہے وہی معبود (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ. ہے. اب آپ کے معبود دو ہو گئے. آپ اللہ کے لیے بھی سجدے کرتے ہیں اور مال بھی آپ کا معبود ہے ‘اگرچہ آپ لکشمی دیوی کو نہیں پوجتے ‘ خود اس کے پجاری بھی اس لکشمی کو نہیں پوجتے ‘ بلکہ دولت کو پوجتے ہیں‘ لکشمی تو درحقیقت اُن کے ہاں ایک علامت ہے ‘ پجاری تو اصل میں وہ دولت کے ہیں. اسی طرح ہم نے بھی اگرچہ لکشمی کودیوی قرار دے کر اس کی مورتی نہیں بنائی لیکن اس کی پوجا کا جو اصل مقصود ہے وہ تو ہم کر رہے ہیں. لہذا نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ہلاک ہو گیا (یا ہلاک ہو جائے) درہم و دینار کا بندہ‘‘. اب چاہے اس نے اپنا نام عبداللہ یا عبدالرحمن رکھا ہو لیکن اس کی اصل اور معنوی شخصیت عبدالدینار اور عبدالدرہم کی ہے. یہ خالص انفرادی سطح کی بات ہے اور محمدٌرسول اللہﷺ یہ بات فرما رہے ہیں.