’’شرک فی الاطاعت‘‘ کی اجتماعی صورتیں


اب ذرا اجتماعی سطح پر دیکھئے! اجتماعیاتِ انسانیہ کی بلند ترین سطح ریاست کا تصور ہے‘ اور یہ تصور حال ہی میں سامنے آیا ہے.اس سے پہلے ہمارے ہاں حکومت کا تصور تھا ‘ ریاست کا نہیں تھا. ریاست توایک فرضی‘ 
(hypothetical) ادارہ تھی‘ ایک مجرد سی اس کی حیثیت تھی. جبکہ حالیہ تصور یہ ہے کہ حکومت اور چیز ہے ریاست اور چیز ہے‘اور حکومت کی حیثیت ریاست کو چلانے والی مشینری کی ہے. ریاست میں سب سے پہلی چیز جو طے ہوتی ہے وہ حاکمیت کا اصول ہے کہ اس ریاست میں حاکمیت کس کی تسلیم کی جارہی ہے‘ آخری اختیار کس کے پاس ہے‘ قانون سازی کا آخری حق کس کے ہاتھ میں ہے؟ اب اس اجتماعی سطح پر توحید یہ ہے کہ : اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ’’حکم صرف اللہ کے لیے ہے‘‘. حاکمیت کا اختیار سوائے اللہ کے کسی کے لیے نہیں. اس نظریے کی جہاں بھی نفی ہو گی وہ شرک ہے. آپ نے حاکمیت کسی اور کے لیے تسلیم کی تو شرک ہوگیا.بقول اقبال : ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بُتانِ آزری 

حقائقِ قرآنی کی ترجمانی میں ایک وقت میں جو مقام و مرتبہ مولانا روم کا تھا اِس زمانے میں وہی مقام و مرتبہ علامہ محمد اقبال کا ہے. اگرچہ علامہ اقبال کو مولانا روم سے کوئی شخصی نسبت نہیں ہے ‘ اس لیے کہ وہ نہ صرف اپنے فکر میں بہت بلند تھے ‘ بلکہ اپنے عمل میں بھی بہت بلند تھے ‘جبکہ علامہ اقبال کا عمل کا پہلو بہت کمزور ہے. اللہ تعالیٰ اُن کو معاف فرمائے‘ ان کی فروگزاشتوں سے درگزر فرمائے! لیکن فکر کے اعتبار سے واقعتا دونوں میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے .فکر کی جس سطح پر مولانا روم تھے اسی سطح پر اِس دَور میں علامہ اقبال ہیں. اور انہوں نے کس خوبصورتی سے حاکمیت کے تصور کو بیان کیا ہے! اقبال بار بار کہتے ہیں کہ میں شاعر ہوں ہی نہیں‘ میں تو شاعری کو صرف ایک ذریعے کے طور پر استعمال کررہا ہوں . ؎ 

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را

آپ دیکھئے یہ کوئی شاعری تو نہیں ہے. شاعری تو گل و بلبل کی شاعری ہوتی ہے‘ کاکل و رخسار اور زلفِ پیچاں کی شاعری ہوتی ہے. جبکہ یہاں شاعری ہورہی ہے : ؎ 

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بُتانِ آزری 

تو حاکمیت ِاعلیٰ کے اس اصول کو آپ جہاں توڑ دیں گے وہاں شرک ہو جائے گا. انسانی حاکمیت (human sovereignty) ‘ہر حال میں شرک ہے‘ چاہے وہ بادشاہت اورملوکیت (monarchy) ہو ‘ چاہے جمہوریت democracy ہو اور چاہے مذہبی حکومت (theocracy) ہو. اگر کوئی فردِ واحد بیٹھا ہے کہ حاکم میں ہوں‘ میرے ہاتھ میں قانون سازی کا اختیار ہے‘ میری زبان سے نکلا ہوا لفظ قانون ہے‘ تو یہ بدترین شرک ہے. یہ تو اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ کی نفی ہو گئی! اسی طرح عوامی حاکمیت (popular sovereignty) بھی بدترین شرک ہے کہ جمہور اختیار کے مدعی بن کر سامنے آ جائیں کہ حاکمیت ہماری ہے.اس دَور کا سب سے بڑا اور سب سے عام شرک یہی ہے . بُت پرستی والے شرک کا دَور گزر گیا ہے. اب ہندوستان میں بھی شاید ایک دو فیصد لوگ ہی ہوں جو بُتوں کی ڈنڈوَت کرتے ہوں‘ اب جو شرک ہیں وہ بالکل دوسرے ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر دَور میں شرک جو بھی نیا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے اس کو انسان سمجھے. بقولِ اقبال : ؎ 

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

جب آدمی کو ذراشعور حاصل ہوا تو اُس نے فردِ واحد کی حکومت کو ماننے سے انکارکر دیا اور عوامی حاکمیت کو تسلیم کر لیا. حالانکہ دینی اعتبار سے بات وہی ہے ‘وہ بھی شرک ہے اور یہ بھی شرک ہے. 

اسی طرح مذہبی حکومت یا پاپائیت 
(theocracy) کا نظریہ بھی شرک ہے‘ جس میں کوئی مذہبی طبقہ اپنے ہاتھ میں اختیار لے کر بیٹھ جاتا ہے کہ وہ جو چاہے قانون بنا دے. یورپ میں جوپاپائیت کا نظام رائج رہا ہے وہ بدترین شرک ہے.قرآن مجید نے اس پر بہت بڑی فردِ جرم عائد کی ہے کہ : اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ (التوبۃ:۳۱’’انہوں نے اپنے علماء اور صوفیوں کو اللہ کے علاوہ اَرباب بنا لیا اسی طرح مذہبی حکومت یا پاپائیت (theocracy) کا نظریہ بھی شرک ہے‘ جس میں کوئی مذہبی طبقہ اپنے ہاتھ میں اختیار لے کر بیٹھ جاتا ہے کہ وہ جو چاہے قانون بنا دے. یورپ میں جوپاپائیت کا نظام رائج رہا ہے وہ بدترین شرک ہے.قرآن مجید نے اس پر بہت بڑی فردِ جرم عائد کی ہے کہ : اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ (التوبۃ:۳۱’’انہوں نے اپنے علماء اور صوفیوں کو اللہ کے علاوہ اَرباب بنا لیا ہے‘‘. یعنی ان کو معبود بنائے بیٹھے ہیں. حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ عیسائیت سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے‘ اس آیت کے بارے میں انہوں نے بڑے ادب سے نبی اکرم سے عرض کی کہ حضور ! یہ بات سمجھ میں نہیں آئی‘ میں عیسائی رہا ہوں اورہم نے اپنے احبار اور رُہبان کو خدا نہیں بنایا. یہ ایک بہت بڑا اشتباہ تھا کہ قرآن مجید عیسائیت پر اتنا بڑا چارج لگا رہا ہے .اس پر نبی اکرم نے فرمایا:

اَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰــکِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا اَحَلُّوْا لَـھُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ (۱)

’’کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ (عیسائی) ان (اَحبار و رُہبان) کی بندگی تو نہیں کرتے تھے مگر وہ ان کے لیے جب کوئی چیز حلال ٹھہراتے تو وہ اسے حلال سمجھ بیٹھتے تھے اور وہ ان پر جب کوئی چیز حرام قرار دیتے تو وہ اُسے حرام سمجھ بیٹھتے تھے؟‘‘

اس لیے کہ شریعتِ موسوی تو ختم ہو گئی تھی‘ اب قانون کا حق پوپ کے ہاتھ میں اور اس کے نمائندوں کے ہاتھ میں تھا کہ وہ جس چیز کو چاہیں حلال ٹھہرا دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا دیں. تو جس کے ہاتھ میں یہ اختیار آ گیا وہی تو خدا ہے. لہذا بادشاہت وملوکیت‘ مذہبی حاکمیت اور جمہوریت تینوں ہی شرک کی شکلیں ہیں. 

آج جمہوریت اور عوام کی حاکمیت کا دَور ہے .اور جیسے بادشاہ کی حاکمیت اور 
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ومن سورۃ التوبۃ. مذہبی راہنما یا مذہبی طبقہ کی حاکمیت شرک ہے اسی طرح یہ بھی اجتماعی سطح پر شرک ہے. ہاں اگر بادشاہ خود بھی اللہ کے قانون کا پابند ہو‘ اور اللہ ہی کے قانون کو نافذکر رہا ہو تو یہ شرک نہیں ہے. حضراتِ داؤد اور سلیمان علیہما السلام یقیناشرک کرنے والے نہیں تھے‘جبکہ نمرود اور فرعون شرک کرنے والے تھے. اسی طرح مذہبی طبقہ اگر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ قرآن مجید (یا اپنے اپنے دَور میں تورات‘ انجیل‘ زبور) کے مطابق حکم دے رہا ہو اور اس کے ہاتھ میں انتظامی اختیارات ہوں تو یہ شرک نہیں ہو گا. یہ خدائی حاکمیت کے تصور کے تحت ایک مذہبی حکومت ہو جائے گی کہ اختیارِ مطلق اللہ کا ہے ‘لیکن انتظامی امور مذہبی طبقے کے ہاتھ میں ہیں. حضرت طالوت سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نظام رہا ہے وہ اسی نوعیت کانظام تھا. حدیثِ مبارکہ ہے کہ : 

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ (۱
’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے‘‘. 
چنانچہ ایک جمہوریت اگریہ طے کرلے کہ اصل تشریع کا حق اللہ کا ہے اور جو بھی پارلیمنٹ یا کانگریس ہے اس کے اختیارات کتاب و سنت کے دائرے کے اندر اندر محدود ہیں تو وہ جمہوریت اب شرک نہیں ہو گی‘ لیکن مطلق جمہوریت‘ مطلق بادشاہت و ملوکیت‘ مطلق تھیوکریسی شرک ہے. تو ابتدا سے لے کر انتہا تک اصول یہی ہے کہ مطلق اطاعت صرف اللہ کا حق ہے‘ باقی سب کی اطاعت مشروط ہو گی اللہ کی اطاعت سے . یہ ہے ’’توحید فی الاطاعت‘‘ اور اس کو جہاں بھی مجروح کر دیا جائے گا وہ شرک کی کوئی شکل بن جائے گی‘ چاہے وہ خالص انفرادی سطح پر نفس پرستی ہو یا اجتماعی سطح پر حاکمیتِ غیر اللہ کا کوئی بھی تصور ہو . اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت کا تصور بہرطورشرک ہو جائے گا.