آج کے زمانے میں ایک اور محبت ’’ نظریے کی محبت‘‘ ہے. اگر کسی تصور یا نظریے کی محبت‘ چاہے وہ اشتراکیت کا نظریہ ہو یا کوئی اور انقلابی نظریہ ہو‘ انسان کے ذہن پر اس طرح غالب اور مستولی ہو جائے کہ اُس کا جینا اور مرنا اللہ تعالیٰ کے بجائے اُس نظریے کے لیے ہو جائے تو ‘معاذ اللہ‘ یہ اُس نظریے کی پرستش ہے. گویا ایک نظریے اور ایک نظام کو پوجا جا رہا ہے. کسی نے بڑا پیارا شعر کہا ہے : ؎
اِک تصور کے حسنِ مبہم پر ساری ہستی لٹائی جاتی ہے
زندگی ترکِ آرزو کے بعد کیسے سانسوں میں ڈھالی جاتی ہے!
انسان کے اندر جب تک کوئی آرزو نہ ہو ‘ کوئی آدرش نہ ہو‘ کوئی نصب العین نہ ہو تو جینے کا مزا ہی کیا ہے! پھر تو وہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہے‘ اُس کی زندگی محض سانسوں میں ڈھالی ہوئی زندگی ہے ‘ وہ محض human vegetable ہے. لیکن نصب العین صرف ایک ہی صحیح ہے‘ اور وہ ’’اللہ کی محبت‘‘کا نصب العین ہے. جب کوئی اورنصب العین اس جگہ پر آ کر منطبق ہو گیا تو یہی تو شرک ہے. جیسے ارشادِ الٰہی ہے :
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵)
’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا کچھ ہستیوں کو (اُس کے) مدّمقابل بنا لیتے ہیں‘ وہ اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیے .او رجو لوگ واقعتا ایمان والے ہیں وہ سب سے زیادہ سخت ہیں اللہ کی محبت میں‘‘.
مَیں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ’’وطنیت کا نظریہ‘‘ اس دَور کے بہت بڑے شرک کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آیا ہے ‘لیکن ہمارا کوئی بھی عالمِ دین اس کو نہیں سمجھ سکا . اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے علماء نے بدقسمتی سے مغرب کے فلسفے کا مطالعہ نہیں کیا. یہ اپنے تصورات کے پیشِ نظر ‘یہ سمجھتے رہے کہ وطنیت (nationalism) شاید حبّ الوطنی ہے! لیکن اس دَور میں علامہ اقبال نے اس کو خوب سمجھا ہے. ان کا بڑا پیاراشعرہے : ؎
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں اِس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل!
یعنی میں جدید تہذیب و تمدن اور جدید عمرانی نظریات کی آگ میں ڈالا گیا ہوں‘ جیسے ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈالا گیا تھا. میں جانتا ہوں کہ مغرب کے اِن نظریات اور فلسفے کے پس پردہ کیا کچھ ہے جو اِس اجتماعی زندگی کی بنیاد بنے ہیں ‘اور مسلمان اُمت کو اِس سے آگاہ کرنا اور ان کا ردّ کرنا میرا امتحان ہے. علامہ اقبال کو اس چیز کا براہِ راست مشاہدہ تھا‘ جبکہ ہمارے علماء اس کو نہیں سمجھ سکے .یہ کتاب و سنت کے علم سے خوب واقف ہیں. میں کہا کرتا ہوں کہ علم دین کے اعتبار سے ہمارے علماء کی شخصیتیں منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم جیسی ہیں‘ لیکن جب تک یہ علم اِس دَور کی زمین تک نہ پہنچے تو وہ ڈیم میں کھڑے اُس پانی کی مانند ہے جو تب ہی فائدہ مند ہوتا ہے جب وہ زمین تک پہنچے. اس اہم کام کے لیے تقسیم کے ذرائع (distribution channels) درکار ہیں جو اِس علم کو آگے پہنچائیں.لیکن بدقسمتی سے وہ چینلز آج نہیں رہے. رابطے کا ایک خلاء (gap of communication) بیچ میں حائل ہے کہ بات آگے پہنچ نہیں پا رہی. لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اِس دَور کے نظریات کو سمجھا جائے. اس لیے کہ اِس دَور کا شرک تب ہی سمجھ میں آئے گا جب گہرائی میں اُتر کراس دَور کے نظریات کو سمجھا جائے. یہ بات اگرچہ چھوٹی اور غیر اہم محسوس ہوتی ہے لیکن بعض بظاہر چھوٹی باتیں تِل کے اوٹ میں پہاڑ کی مانند ہوتی ہیں.
ایک صاحب نے جھنڈے کی عظمت اور اس کے وقار کو بچانے کی بات کی ہے. یہ بات اپنی حد تک درست بلکہ ضروری ہے‘ لیکن جھنڈے کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا‘ اسے سلامی دینا‘ یہ ثابت کیجیے محمدٌ رسول اللہﷺ سے! یہ تو قنوت للعَلَم ہے کہ آپ جھنڈے کے آگے ہاتھ باندھ کر باادب کھڑے ہو جائیں. یہ میرے نزدیک شرک ہے‘ ورنہ جھنڈے کی عظمت اور وقار کو بچانا اپنی جگہ مسلّم ہے. جیسے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے غزوۂ اُحد میں اپنی جان کی قربانی دے دی لیکن جھنڈے کو نہیں گرنے دیا. ایسے ہی حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہمانے کیا. لیکن جھنڈے کو سلامی دینا اور اس کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہو جانا قطعاً جائز نہیں ہے.حضرت محمدٌ رسول اللہﷺ نے تو اپنے لیے کھڑا ہونے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا تھا.حضرت ابواُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرمﷺ کے تشریف لانے پر آپؐ کے لیے احتراماً کھڑے ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا:
لَا تَقُوْمُوْا کَمَا تَقُوْمُ الْاَعَاجِمُ یُعَظِّمُ بَعْضُھَا بَعْضًا (۱)
’’تم لوگ (میرے تشریف لانے پر) کھڑے نہ ہو جایا کرو جیسے کہ عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.‘‘
تو ’’حبّ الوطنی‘‘ اور چیز ہے اور ’’وطن پرستی‘‘ اور چیز ہے. اِن دونوں چیزوں میں جب تک فرق نہیں کریں گے اور ان کو علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے مقام پر نہیں رکھیں گے تو ذہنوں میں لازماً اشکا ل پیدا ہو جائیں گے.