(۳) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان اطلاق اسم الکفر علـٰی من ترک الصلاۃ. اخلاص ہی کی وجہ سے حدسے تجاوز کر جاتے ہیں. اس ضمن میں ضرورت اس بات کی ہے کہ شرک کو شرک ضرور کہا جائے‘ لیکن جو مسلمان ہیں اُن کے اُوپر شرک کے فتوے لگا کر اُن کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا حکمتِ دین ‘ حکمتِ اصلاح و دعوت اور حکمتِ تبلیغ کے خلاف ہے.
مذکورہ بالا بحث کی وضاحت کے لیے میں ایک اور مثال دیتا ہوں. دیکھئے چوری ایک پیسہ کی بھی چوری ہے. مسجد سے کوئی تھوڑا سا سامان چرا لیا جائے تو وہ بھی چوری ہے‘ لیکن قطعِ ید کی سزا ہر چوری پر نہیں ہے. ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی نے ایک روپیہ کسی کا چرا لیا تو اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے. معاذ اللہ‘ اسلام میں ایسا ظلم نہیں ہے .ایسے ہی مشترک مال میں سے ایک فریق کچھ مال چرا لے تو اُس پر بھی قطعِ ید کی سزا لاگو نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ وہ مال چرانے والا خود اس کی ملکیت میں شریک ہے. اسی طرح غیرمحفوظ مال کی چوری پر بھی چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا.چنانچہ جس چوری پر قطعِ ید کی سزا ہے فقہاءِ کرام نے اس کی پوری وضاحت سے تعریف (definition) کی ہے. باقی چوریوں پر تعزیر ہے کہ قانون کے تحت کسی کو قید کی سزا دے دی جائے یا کچھ کوڑے مارے جائیں. تو جس طرح ایک پیسہ کی چوری بھی چوری ہے ‘ لیکن جس چوری پر شرعی چوری کا اطلاق ہو گا اور ہاتھ کٹے گاوہ کچھ اور شے ہے. اسی طرح اگر تجزیہ کریں گے تو ہر گناہ شرک ہے‘اس میں کوئی شک نہیں ہے‘ لیکن شرک کا اطلاق ہر گناہ پر نہیں ہو گا. بلکہ اگر وہ کسب میں داخل ہے‘ بڑا گناہ ہے اور مستقل ہو گیا ہے تو وہ یقینا شرک کے درجے کو پہنچ جائے گا .لہذا اس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے! ہر گناہ کا ارتکاب کرنے والا مشرک نہیں ہو جائے گا.
اور اگر کسی مسلمان کا کوئی گناہ شرک کی تمام شرائط پوری کر رہا ہے تو پھر بھی اس پر مشرک کا فتویٰ لگانے کی کیا ضرورت ہے ! اللہ تبارک و تعالیٰ حساب لینے والا موجود ہے. بلکہ اسلامی ریاست کے اندر بھی کسی مسلمان پر مشرک کا فتویٰ نہیں لگے گا. اس میں بھی ’’مسلم‘‘ اور ’’کافر‘‘ دو ہی کیٹیگریز ہیں‘ تیسری کوئی کیٹیگری معین نہیں ہے.یہ تقسیم توہو سکتی ہے کہ فلاں شخص کافر ہے اور فلاں مسلم ہے‘ لیکن کسی کو مشرک قرار دے دینا‘ اس کا فتویٰ کسی قانونِ شرعی کے اندر موجود نہیں ہے.ایسے ہی کسی کو منافق قرار دینا‘ اس کا بھی کوئی فتویٰ قانونِ شریعت میں موجود نہیں ہے.اس دنیا میں کسی کو ہم یہ سند بھی نہیں دے سکتے کہ وہ مؤمن ہے . یہ اللہ ہی جانتاہے کہ کس کے دل میں کتنا ایمان ہے. ہم اس کو زیرِبحث نہیں لا سکتے‘ ہم تو زیر بحث لائیں گے اسلام اور کفر کو. اور تکفیر بھی جان لیجیے کہ انفرادی معاملہ (individual act) نہیں ہے کہ جو شخص چاہے کھڑا ہو کر فتویٰ دے دے کہ فلاں کافر ہے ‘بلکہ یہ اسلامی ریاست کا کام ہے کہ وہ تکفیر کا فیصلہ کرے.اس کو بھی ہمارے ہاں بازیچۂ اطفال بنا لیا گیا ہے. لہذا کسی شخص کے اندر ذرا سا بھی شرک کا شائبہ نظر آ جائے تو اس کو مشرک قرار دے دینا اور اُس کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرنا جو مشرکین کے ساتھ ہے‘یہ سراسر غلو ہے. اس غلو نے ایسی کھینچ تان پیدا کر دی ہے کہ اب فریقین کے مابین میل جول (communication) نہیں رہا. طبقات بالکل جدا ہو گئے ہیں‘ ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں. دیکھئے اگر ہم نے کسی معاملے میں اپنے نفس کی خواہش کو اللہ کے حکم پر مقدم رکھا تو ہم ہرگز پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہمیں مشرک قرار دے. اسی طرح ہمیں چاہیے کہ اس طرح کی نرمی اور رعایت (concession) دوسروں کو بھی دیں‘ بلکہ اپنے سے زیادہ دیں.
مختصر یہ کہ شرک کی مذمت لازماً کی جائے‘ اس میں مداہنت ہرگز نہ ہو ‘ لیکن کسی کو مشرک قرار دے کر اُس سے قطع تعلق کر لینا‘ یہ بہت بڑا فتنہ ہے. اس سے کسی بھلائی کی کوئی امید نہیں‘ بلکہ نقصان ہی کا اندیشہ ہے.
اقول قولی ھذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات