موجودہ دور میں احیائے خلافت کا طریق کار

خلافت کا نظام کیا تھا اور اب کیسا ہو گا؟ میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظام اب قائم کیسے ہو؟ ایک قول مولانا ابوالکلام آزاد نے ہمیں یاد دلایا تھا جسے عموماً امام مالکؒ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے لیکن بعض محققین کے مطابق یہ قول حضرت ابوبکرؓ کا ہے. ’’لاَ یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ کہ اس امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی اسی طریق سے ہو سکتی ہے جس پر اس کے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی. اس قول میں اوّل و آخر کا لفظ بڑا عجیب ہے. اوّل دَور خود حضور اور خلفائے راشدین ؓکا دور ہے، جسے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے آخری دَور میں پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہو گا. اس قول سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ حضور نے اسلام کا نظامِ عدل اجتماعی جس طریقے سے قائم فرمایا تھا صرف اسی طریقے سے اب یہ نظام قائم ہو سکتا ہے. وہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہر شخص اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بنے، پھر اپنے گھر اور دائرہ اختیار میں خلافت کا حق ادا کرے، اس کا تقاضا پورا کرے اور جو لوگ یہ دو مرحلے طے کر لیں انہیں بنیانِ مرصوص بنا کر ایک نظم میں پرو دیا جائے اور پھر یہی باطل کے ساتھ ٹکرا جائیں، میدان میں آ کر منکرات کو چیلنج کریں اور اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں کہ ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصود مؤمن 
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

ہم نہ تو توڑ پھوڑ کے قائل ہیں اور نہ ہی دنگا فساد کو صحیح سمجھتے ہیں، کسی کی املاک کو نقصان پہنچانا بھی ہمارا کام نہ ہو گا، ہم کسی پر گولی نہیں چلائیں گے بلکہ اپنے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کروانے کے لیے کھول دیں گے کہ یا ہم نہیں یا کفر کایہ نظام نہیں! لیکن یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب ہمارے پاس طاقت ہو گی. مکہ مکرمہ میں رسول اللہ بارہ برس تک بُتوں کے بارے میں کہتے رہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن بُتوں کو توڑا نہیں، بلکہ آپؐ صحابہؓ کی تربیت فرماتے رہے اور اپنی جمعیت کو بڑھاتے رہے، ان کا تزکیہ کرتے رہے. تب کہیں جا کر جہاد و قتال اور فتح و نصرت کے مراحل آئے. اور فتح مکہ کے دن حضور نے پہلا کام ہی 
بتوں کو توڑنے کا کیا کہ جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلَ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا شریعت میں نہی عن المنکر کا اصول موجود ہے کہ جب تک طاقت حاصل نہیں ہے زبان سے منکرات اور حرام باتوں پر نکیر کی جائے، جیسے ہم اس وقت کر رہے ہیں. سود حرام ہے، جو اء حرام ہے، بے پردگی اور فحاشی حرام ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں کو ڈنکے کی چوٹ کہنے کی توفیق عطا فرمائے. اگر ہم حق بات نہیں کہیں گے تو حدیث کے مطابق ہماری حیثیت ’’گونگے شیطان‘‘ جیسی ہو گی. ہم اللہ کی توفیق سے حق بات کو بیان کرتے رہیں گے اور جب طاقت حاصل ہوجائے گی تو باطل نظام کو چیلنج کیا جائے گا کہ اب یہ سب کچھ ہم نہیں ہونے دیں گے. ایرانی انقلاب میں یہ طریقہ آزمایا جا چکا ہے. الیکشن میں ووٹوں کی بھیک مانگ کر آیت اللہ خمینی قیامت تک برسراقتدار نہیں آسکتے تھے، وہاں انقلاب نہیں آسکتا تھا. یہی طریقہ کار پاکستان میں اہل تشیع نے ضیاء الحق کے زکوٰۃ آرڈیننس کو منسوخ کرانے کے لیے استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی. چنانچہ اہل تشیع کو زکوٰۃ کی ادائیگی سے مستثنیٰ کر دیا گیا اور یوں اہل سنت کو شیعہ بنانے کا راستہ کھول دیا گیا.