’’اسلام کا اخلاقی نظام‘‘ اور ’’اسلام کا روحانی نظام‘‘ کے ضمن میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ ایک ہی مضمون کی دو سطحیں (levels) ہیں. مؤخر الذکر کوچاہے بلند ترکہہ لیں چاہے عمیق تر کہہ لیں‘ یہ دونوں باتیں لازم وملزوم ہیں. جو عمارت جتنی بلند آپ کو اٹھانی ہے اس کی بنیاد اتنی ہی گہری کرنی ہوگی. ایک ہی منزل کی عمارت ہے تو اتنی گہرائی کی ضرورت نہیں‘ دو منزلیں اٹھانی ہیں تو بنیاد اور گہری کرنی ہوگی اور کثیر المنزلہ عمارت اٹھانی ہے تو اس کے لیے اور گہری بنیاد لے جانی ہوگی. یوں سمجھیے کہ اخلاق کا معاملہ ایک ابتدائی درجہ ہے لیکن روحانیت ‘ روحانی تعلیمات اور اس کی فکری اساسات ایک عمیق تر درجہ کی غمازی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بلندی بھی لیے ہوئے ہیں. یہ اس دور کی بہت بڑی محرومی ہے کہ بعض اسباب کی بنا پر یہ موضوع بہت بدنام ہوچکا ہے‘ لوگوں کے ذہنوں میں اس سے بہت بُعدپیدا ہوچکا ہے اور حجابات طاری ہوچکے ہیں. لفظ ِتصوف بعض حلقوں میں تو گالی بن کررہ گیا ہے. بعض اچھے بھلے دینی حلقے بھی اس سے مناسبت نہیں رکھتے. زیادہ قابل ِافسوس بات یہ ہے کہ جو لوگ مذہبی اعتبار سے فعّال ہیں‘ کچھ کام کر رہے ہیں‘ اپنی سمجھ اور اپنی سوچ کے مطابق دینی خدمتوں میں لگے ہوئے ہیں‘ بعض اسباب سے ان کے ہاںتصوف پر مغائرت کا پردہ حائل ہوچکا ہے اور نہ صرف اہمیت کی نفی ہے بلکہ شدت سے انکار ہے. اور بعض حضرات تو تصوف کو دین کی تعلیمات کے منافی قرار دے رہے ہیں. اس کے دواسباب ہیں.
پہلا سبب جو وسیع تر ہے اس کی جہتیں (dimensions) آفاقی (Universal) ہیں اور اس نے پورے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے. ایک مادی فکر (materialistic thought) ہے جو اس وقت چھا گیا ہے. یوں سمجھیے جیسے فضا میں معلق گرد و غبار (dust suspension) ہو تو پھر ہر شخص مجبور ہوتا ہے کہ وہ اسے inhale کرے. جب وہ سانس لے گا تو گرد لامحالہ اس کے پھیپھڑوں میں جائے گی. اسی طرح ہماری فضا کے اندر مادہ پرستی ‘ مادی اخلاق‘ مادی سوچ‘ مادی اقدار ماحول کے اندر اس طرح موجود ہیں کہ ہمارے وجود میں‘ کسی کے کم کسی کے زیادہ ‘سرایت کرگئے ہیں. نتیجہ یہ ہے کہ روح کے کسی جداگانہ تشخص کا سرے سے انکار ہے اور عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ روح اور جان (life and spirit) گویا دو ہم معنی الفاظ ہیں. روح کا کوئی جداگانہ اور آزادانہ (independent) تشخص بھی ہے اس کا بہت کم لوگ اقرار کرتے ہیں.
مغربی فکر کے غلبہ اور استیلاء کے ساتھ ساتھ تصوف سے بُعد کادوسرا سبب یہ بھی ہے کہ روحانیت اور روحانی تعلیمات کے لیے جو لفظ بطور عنوان اختیار کرلیا گیا یعنی ’’تصوف‘‘ یہ درحقیقت ایسا ہی ہے جیسے کبھی مشرقی پاکستان میں ’’باہری‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا‘ یعنی باہر سے آئے ہوئے لوگ. تصوف باہری اصطلاح ہے‘ یہ قرآن کی اصطلاح نہیں ہے. پھر ایک اعتبار سے مجہول النسب ہے‘ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا مادہ کیا ہے.بعض حضرات نے کہا ہے کہ چوں کہ صوفیہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کے لیے اُون کے کپڑے پہنتے تھے‘ لہٰذا یہ لفظ ’صوف ‘سے بنا ہے. بعض نے اسے ’صفا‘ سے مشتق قرار دینے کی کوشش کی ہے‘ لیکن کوئی محقق یقینی بات نہیں کہہ سکا. زیادہ تر اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ یونانی اصطلاح Theosophy سے بنا ہے. یونانی فلسفے کے زیر اثر یہ لفظ وہاں سے آیا ہے جس نے تصوف کی شکل اختیار کرلی واللہ اعلم. پھر رفتہ رفتہ یہ لفظ ِتصوف نہ صرف دین کی اصل اصطلاح ’’احسان‘‘ کا قائم مقام بن گیا‘ بلکہ اس نے ’’احسان‘‘ کو بالکل ناک آؤٹ کر دیا. قرآن و حدیث کی اصل اصطلاح احسان ہے‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ’’اور اللہ احسان کی روش اختیار کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے.‘‘