اس دور میں جو احیائی تحریکیں پے درپے ناکامیوں سے دوچار ہورہی ہیں‘ میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ایمان کی وہ منزل یا ایمان کا وہ درجہ جس میں ایمان یقین کو پہنچ جائے ‘وہ ایک burning faith اور ایک living faith کی شکل اختیار کرلے اور اس کی حرارت انسان کو اپنے باطن میں محسوس ہو‘ یہ کیفیت نہیں ہے.بلکہ کچھ قیل و قال‘ کچھ فلسفیانہ ومتکلمانہ گفتگو اور کچھ دلیل واستدلال سے کوئی بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں کچھ آگے چلتے بھی ہیں تو تھوڑی دیر میں ہمت جواب دے جاتی ہے. وہ استقامت جو محبت ِخداوندی سے پیدا ہوتی ہے‘ غیر موجود ہے. اگر پائوں وہاںجمے ہوئے نہیں ہیں تو استقامت ممکن نہیں. ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾ (حٰم السجدۃ)
’’ بلاشبہ جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے‘ پھر اس پر جم گئے ایسے لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں(اس بشارت کے ساتھ) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمگین ہو اور جنت کی بشارت پائو جس کا کہ تم سے وعدہ کیا گیاہے.‘‘
اگر یہ استقامت نہ ہوگی تو دائیں بائیں سے کسی راہِ یسیر (short cut ) کی تلاش ہوگی اور فوری نتیجہ برآمد کرنے کی کوشش کی جائے گی. یہ جو احیائی تحریکیں پے بہ پے ناکامیوں سے دوچار ہورہی ہیں اس کا جب آپ گہرائی میں تجزیہ کریں گے تو معلوم ہوگاکہ مسئلہ وہی ہے جو میں عرض کرچکا ہوں. انسان کی حقیقت کو اگر نہیں سمجھا جیساکہ قرآن میں بیان ہوئی ہے تو اسلام کے روحانی نظام کو سمجھنا ممکن نہیں. اگرچہ وہ بطرزِ جلی بیان نہیں ہوئی‘ لیکن وہ لوگ جو اشارات سمجھنے کی استعداد رکھتے ہیں انہوں نے اسے سمجھا ہے اور بیان کیا ہے. انسان کا وجود مرکب وجود ہے‘ ایک اس کا حیوانی وجود ہے جو اس کے جسد خاکی اور اس کی جان کا مجموعہ ہے‘ جبکہ ایک اس کا روحانی وجود ہے جو اس کی روح پر مشتمل ہے. دونوں کا علاحدہ آزاد (independent) تشخص ہے‘ دونوں اپنے اپنے تقاضے رکھتے ہیں اور یہ تقاضے بہت حد تک ایک دوسرے سے متصادم اور متضاد ہیں. دونوں کے رجحانات میں بُعد المشرقین ہے‘ ایک اِدھر کھینچتا ہے تو دوسرا اُدھر کھینچتا ہے. ایک کا رُخ پستی کی طرف ہے تو دوسرے کا رُخ بلندی کی طرف ہے. ایک کا مبدأ (origin) ہی بلندی ہے اور دوسرا وہ ہے جس کا وجود خاک سے قائم ہوا ہے. اس اعتبار سے اگر اس حقیقت کو نہیں جانا جائے گا تو روحانی تعلیمات اور روحانی نظام کا سمجھنا قطعاً محال اور ناممکن ہے.
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ صرف نبی کی تعلیمات کامل ہوتی ہیں‘ باقی جو بھی دین کے مصلحین‘ مفکرین اور اصحاب ِعلم ہیں ان کا علم وفکر درجہ بہ درجہ ترقی کرتا ہے. جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے: لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾ (الانشقاق) ’’تم لازماً سیڑھی بہ سیڑھی چڑھو گے‘‘. چنانچہ ہمارے ہاں بھی اسلامی مفکرین سے ایک خطا ہوئی. یہ بات تو واضح رہی کہ ایک اسلامی ریاست ایک ٹھیٹھ اسلامی تحریک کے نتیجے میں قائم ہوسکتی ہے‘ لیکن اس بات کا شعور کہ اس اسلامی تحریک کے افرادِ کار کے اندر ایمان کی ایک خاص گہرائی اور گیرائی درکار ہے‘ اس نقطہ کے حوالے سے کوتاہی محسوس ہوتی ہے. آج ہمارے معاشرے میں اسلام ایک موروثی عقیدہ ہے‘ ہم پیدائشی طور پر مسلمان ہیں مگر ایمانِ حقیقی کی وہ صورت کہ ہر شے میں اللہ ہی فاعل حقیقی نظر آئے‘ شاذ ہے. اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا ؎
تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت بنے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر تعمیر نہ کر بنیاد نہ رکھ!
چناںچہ ایمان کی بنیادیں مستحکم کیجیے. ایک زندہ یقین جو تحریک اسلامی کے کارکنوں کے وجود میں سرایت کیے ہوئے ہوایسا ایمان درکار ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کی شدت (intensity) ایمان بالشہود کی مانند تھی‘ جیسا کہ حدیث میں ایک صحابی کا قول آتا ہے: وَلَکَاَنِّی اَنْظُرُ اِلَی اَہْلِ الْجَنَّۃِ … وَلَـکَاَنِّی اَسْمَعُ عُوَائَ اَھْلِ النَّارِ (۱) ’’گویا میں اہل جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ‘اور گویا میں جہنمیوں کی چیخ وپکار سن رہا ہوں‘‘.جب تک یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور اسلامی تحریک کے کارکنوں کی معتدبہ تعداد کی تربیت اس انداز میں نہیں ہوتی بظاہر احوال کامیابی کا کوئی تصور ممکن نہیں.
یہاں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے چند جملے نقل کررہا ہوں جو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ریڈیوپاکستان پر نشر ہونے والی تقاریر سے ماخوذ ہیں:
’’فلسفہ ومذہب کی دنیا میں عام طور پر جوتخیل کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ دونوں کا عالم جدا ہے‘ دونوں کے تقاضے الگ ہیں بلکہ باہم مخالف (۱) الایمان لابن ابی شیبۃ‘کیف اصبحت یا حارث بن مالک؟ ‘ قال : اصبحت مؤمنا… ہیں… اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے…‘‘
ان جملوں کے بعد مولانامرحوم نے اس نقطہ ٔ‘نظر کی پرزور نفی کی ہے اور اس ثنویت کا انکار کیا ہے. میرے نزدیک یہی وہ فکر کی کوتاہی ہے جس کی بنا پر اسلام کی روحانی تعلیمات اور اس کے روحانی نظام سے نگاہیں بالکل محجوب ہوکر رہ جاتی ہیں. تاہم واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف مولانا مودودیؒ کا جملہ نہیں ہے بلکہ ایک خاص دور کے طرزفکرکا عکاس ہے. مولانا اصلاحی صاحب تو تصوف کے شدید مخالف ہیں. ان کے الفاظ تو یہ ہیں کہ ’’میں تصوف کو سراسر ضلالت سمجھتا ہوں‘‘. اس سے آگے کی بات آپ کو سرسید احمد خان ‘ان کے متبعین‘ پھرغلام احمد پرویزاور علامہ مشرقی کے ہاں مل جائے گی. یہ تمام وہ مکاتب ِفکر ہیں جنہوں نے دین پر بطور ’’نظامِ زندگی‘‘ غوروفکر کیا ہے اور غلطیوں اور کوتاہیوں سے دوچار ہوئے ہیں. میںکم ازکم مولانا مودودیؒ کے بارے میںیہ عرض کرسکتا ہوں کہ بحیثیت ِمجموعی ان کا مطالعہ بہت درست ہے‘ خصوصیت کے ساتھ اسلام کے کامل نظام حیات ہونے کے حوالے سے میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ انہوں نے سیاسی اور معاشرتی نظام میں بہت صحیح تعبیر کی ہے اور اس کی بہت عمدہ تشریح وتوضیح کی ہے. لیکن اصل کمی رہ گئی ہے دین کے باطنی پہلو کے حوالے سے جو دین کے ثمرات ہیں‘ جس کے لیے ہم ’’روحانی نظام‘‘ کا لفظ استعمال کررہے ہیں. اس سے بُعد ہے ‘ دوری ہے اور بعض حالات میں اس کا انکار ہے.