بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت میں یہ نسبت وتناسب بڑی عمدگی سے بیان ہوا ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اِنَّ اللّٰہَ تَـعَالٰی قَالَ : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ‘ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُ عَلَـیْہِ ‘ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَـیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّـہٗ ‘ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ‘ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ‘ وَیَدَہُ الَّـتِیْ یَبْطِشُ بِھَا‘ وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا‘ وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ‘ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ (۱)
’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: جس کسی نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی تو اُس کے خلاف میری جانب سے اعلانِ جنگ ہے .اور جن اعمال سے میرا بندہ میرا قرب اختیار کرتا ہے اُن میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ اعمال ہیں جو میں نے اُس پر فرض ٹھہرائے ہیں. اور بندہ نوافل کے ذریعے سے میرے قریب ہوتارہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں. پس جب میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے. اور اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو ضرور اُسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تو ضرور پناہ دیتا ہوں.‘‘
یہ جو میں نے عرض کیا تھا کہ التزامِ فرائض ضروری ہے‘ اس ضمن میں یہ واضح رہے کہ فرائض میں عبادات یعنی نماز روزہ ‘زکوٰۃ اور حج بھی ہیں‘ فریضہ ٔاقامت دین بھی ہے اور فریضہ ٔ (۲۲) صحیح البخاری‘کتاب الرقاق‘ باب التواضع. دعوت و تبلیغ بھی ہے. اجتماعی فرائض میں اپنی امکانی حد تک ہر شخص مکلف ہے کہ اس میں حصہ لے. اس کے بعد تقرب بالنوافل کا مقام ہے. اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرب کا مقدم درجہ تقرب بالفرائض ہے اور محبوب تر تقرب بالنوافل ہے. اگر عدل وانصاف کا ماحول قائم ہوچکا ہو‘ دین کا بول بالا ہوچکاہو‘ وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ ( الاسرائ) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا ‘بے شک باطل تو ہے ہی مٹ جانے کے لیے‘‘ کی شان ظاہر ہوچکی ہو تو پھر توپوری قوت کا ارتکاز تقرب بالنوافل ہی پر ہو گا. اس طرح کا قرب احادیث ِنبویaسے ثابت ہے ‘ان الفاظ کے اندر کوئی ابہام نہیں. اس حدیث کی شرح میں ابن عربی ؒ نے جو بعض حضرات کے نزدیک بہت ہی مبغوض ہیں‘ بہت ہی عجیب بات کہی ہے. ان کا کہنا ہے کہ تقرب بالنوافل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ انسان کا ہاتھ بن جائے‘ اللہ انسان کا کان بن جائے‘ اللہ انسان کی آنکھ بن جائے. لیکن تقرب بالفرائض کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے‘ کیوں کہ اب وہ انسان دین حق کا بول بالا کرنے میں لگا ہوا ہے‘ یہ اللہ کا مدد گار بن گیا ہے‘ اُس کا ناصر بن گیا ہے. اس لیے کہ اللہ کی شان یہ ہے: شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ ( آل عمران:۱۸) ’’ اللہ نے گواہی دی ہے کہ کوئی معبود نہیں اُس کے سوا ‘اور فرشتوں نے‘ اور علم والوں نے بھی‘ وہی عدل کا قائم کرنے والا ہے‘‘.تو جو بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کررہا ہے‘ محنت و کوشش کررہا ہے‘ گویا وہ اللہ کا ہاتھ بن گیا ہے‘ اس کا دست وبازو بن گیا ہے. وہ اُس کام میں لگا ہوا ہے جو اللہ کو پسند اور محبوب ہے .اس کی بہترین تعبیر علامہ اقبال نے فرمائی ہے ؏ ’’ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ!‘‘یعنی دین حق کی اقامت و اشاعت کی جدوجہد کرنے والا ایک گروہ جو ’’حزب اللہ‘‘ کی شکل اختیار کرلے‘ یہ لوگ اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں. اقبال ہی نے ایسے افراد کے بارے میں کہا ہے ؏ ’’صورتِ شمشیر ہے دست ِقضا میں وہ قوم!‘‘ سورۃ الانبیاء کے الفاظ یاد آرہے ہیں ‘فرمایا: بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ (الانبیائ:۱۸) ’’ہم ضرب لگاتے ہیں باطل پر حق کے ساتھ‘‘ . یہ اللہ کی سنت ہے. ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!
یہ قوت بننا درحقیقت سلوکِ اسلامی اور سلوکِ روحانی کی معراج ہے. اگر کتاب وسنت اور سیرتِ صحابہؓ سے سلوک کی منازل کو سمجھا جائے تو یہی ہے جو کچھ سامنے آتا ہے. چناںچہ تقرب الی اللہ کے لیے دو کام کرنے ہوں گے. ایمان میں گہرائی‘ پختگی اور یقین پیدا کرنا ہو گا ‘ معرفت ِربّ پیدا کرنا ہوگی. پھر فرائض کے ذریعے اللہ کے قرب کا راستہ طے کریں‘ اُس وقت تک جب تک کہ حق کا بول بالا نہیں ہوجاتا‘ ظلم کا استیصال نہیں ہوجاتا. اگر وہ وقت آجائے تو تقرب بالنوافل کا راستہ کھلا ہو گا.
آخری بات یہ کہ اس سلوک میں قوتِ ارادی درکار ہے. جس شخص کے اندر یہ عزم اور ارادہ پیدا ہوجائے‘ اگر وہ خود قوی الارادہ ہے تو ’’قرآن وسنت‘‘ اور’’ سیرت النبی وسیرت صحابہؓ ‘‘‘ ایسی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ راستے خود طے کرلے گا. لیکن اگر قوتِ ارادی کمزور ہو‘ جیسے کہ اکثر لوگوں کی ہوتی ہے ‘تو کسی قوی الہمّت‘ صاحب ِ عزیمت شخص کی صحبت اور اس کا قرب درکار ہے ‘اس کے نزدیک رہ کر اس کی مصاحبت کے ذریعے انسان راستہ طے کرسکتا ہے. جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے: کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾ (التوبۃ) ’’سچوں ّکے ساتھ ُجڑ جاؤ‘‘.
دراصل یہ ہے وہ سلسلۂ ارشاد جو چلا آرہا ہے کہ کسی قوی الہمّت ‘ قوی العزم شخص کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا جائے جس پر دل ٹُھک جائے کہ یہ اللہ کا بندہ ہے ‘ بہروپیا نہیں ہے‘ یہ واقف ِراہ ہے‘ راستے کے نشیب وفراز کو جانتا ہے‘ جانتا ہے کہاں کہاں غلط موڑ آتے ہیں‘ ایسے شخص کے ساتھ رشتہ استوار کیا جائے. اسی کا نام پیری مریدی ہے. مرید کہتے ہیں ارادہ کرنے والے کو. اگر اللہ تعالیٰ اِسے کسی ایسے شخص تک پہنچا دے جس پر انشراح ہوجائے‘ دل گواہی دے کہ یہ اللہ کا بندہ ہے‘ اس کے اندر خلوص و اخلاص ہے‘ یہ مجھے واقعتا صحیح راہ پر چلائے گا‘ واقف ِراہ ہے‘ دین کا جاننے والا ہے‘ پھریہ کہ اس دور کے تقاضوں کو بھی جانتا ہے‘ اس دور کی مشکلات سے بھی واقف ہے تو ایسے شخص کے ساتھ تعلق قائم کرلینا یقینا بہت مفید اور بہت ممد ہے. اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے عام مشاہدے کے مطابق ہے. ہم کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے. اسی طرح صحبت اورمعیت سے بھی شخصیت پر اثر پڑتا ہے‘ اگرچہ اس کی شرائط کڑی ہیں .محض رسماً تعلق قائم کرنا یا خانہ ُپری کرنا میرے نزدیک کسی درجے میں مفید نہیں .اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنی سچی معرفت اور تعلق عطا فرمائے. آمین!
اقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات