’’اگر بیعت جہاد کے لیے آپ کسی کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں ‘تو دین کے وہ تقاضے اور فرائض‘جو میں نے قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے آپ کے سامنے قدرے تفصیل سے بیان کیے ہیں‘ وہ پورے نہیں ہوسکتے.‘‘
البتہ یہ ضرور ہے کہ اب چونکہ کوئی نبی نہیں‘کوئی معصوم نہیں‘لہذا آپ کو خود تلاش کرنا پڑے گا کہ ہے کوئی اﷲ کا بندہ جو ’’ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ؟‘‘ کی صدا لگارہا ہو اور ان فرائض کی انجام دہی کے لیے کوشاں ہو اور آگے بڑھ رہا ہو!اور اگر آپ کا دل اس پر مطمئن ہوجائے‘اس کے فہم اور اس کے خلوص و اخلاص پر آپ کو اعتماد پیدا ہو تو اس کے ساتھ وابستہ اور منسلک ہوجائیے!… میں کہا کرتا ہوں کہ اس طرح اگر ہزار قافلےبھی بن جائیں تو کوئی حرج نہیں‘بشرطیکہ منزل ایک ہو. اگر دینی فرائض کا تصور صحیح ہو‘اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ بیک وقت کئی قافلے اس تصور کو لے کر رواں دواں ہوجائیں.
منزل تو سب کی ایک ہی ہوگی. میرے نزدیک سب کا ایک ہونا اب لازم نہیں ہے. سب کا ایک ہونا صرف رسول کے ساتھ ہونا لازم ہوتا ہے. میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ ایامِ حج میں جب منیٰ سے وقوفِ عرفات کے لیے سفر ہوتا ہے تو بیک وقت ہزاروں قافلے چلتے ہیں‘جن میں سے ہر ایک کا جھنڈا الگ ہوتا ہے. لیکن سب کا رُخ کس طرف ہے؟ عرفات کی طرف! منزل تو سب کی ایک ہی ہے. چنانچہ اگر ہزاروں قافلے بھی ہوگئے تو کوئی حرج نہیں. تاہم اگر کوئی شریک ِ سفر یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے قافلے والوں میں فرائض دینی کا صحیح اور مکمل تصور ہی مفقود ہے‘یا یہ کہ جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے اس کا رُخ منزل کی طرف صحیح طور پر نہیں ہے‘بلکہ شاہراہ کو چھوڑ کر کوئی شارٹ کٹ اختیار کرلیا گیا ہے‘جس کی بدولت منزلِ مقصود تک جلد پہنچنے کی بجائے یہ قافلہ اس شارٹ کٹ کی بھول بھلیوں اور راستے کے جھاڑ جھنکاڑ میں ایسا الجھ کر رہ گیا ہے کہ منزل کو جانے والی اصل شاہراہ سے تعلق ہی منقطع ہوگیا ہے ‘یا کسی قائد پر دل مطمئن نہیں ہو رہا ہے اور اندیشہ ہے کہ یہ صحیح شخص نہیں ہے‘یا مخلص نہیں ہے‘محض دکاندار ہے تو ایسی صورت میں وہ کسی اور کو تلاش کرے‘ یا پھر خود کھڑے ہوکر پکارے کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ . خود قافلہ بنانے کی سعی کرے یہاں کسی کی اجارہ داری نہیں ہے‘تمام حقوق کسی کے نام محفوظ نہیں ہیں کہ کوئی دوسرا قافلہ نہیں بنا سکتا.
میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے. اگر نیت صاف ہو‘دل میں خلوص ہو‘دوسروں سے الجھنے سے اجتناب ہو‘سامنے منزل اقامتِ دین کی ہو تو خواہ سینکڑوں قافلے ہوں یا ہزاروں‘کوئی مضائقہ نہیں. خلوص و اخلاص ہوگا تو وقت آنے پر وہ باہم جڑتے چلے جائیں گے .اور اگر چلنا ہی نہیں ہے تو تم بھی کھڑے ہو‘ہم بھی کھڑے ہیں ؏ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمدیہ ہے طرزِ عمل جو ہمارا آج ہے. اور بعض لوگوں کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ نہ چلیں گے نہ چلنے دیں گے‘نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے. تو ہر طرزِ عمل آپ کو مل جائے گا. لیکن جسے بھی چلنا ہے اور اس کی چلنے کی نیت ہے تو وہ کوئی قافلہ تلاش کرے اور جس پر بھی دل مطمئن ہوجائے اس میں شامل ہوجائے. اس کے بعد آنکھیں کھلی رکھے‘کان کھلے رکھے‘ دائیں بائیں دیکھتا رہے‘اس سے بہتر قافلہ ملے تو اس کی طرف لبیک کہے. آخر دُنیوی معاملات میں بھی ہمارا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے نا کہ ؏ ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!‘‘
یہ تو نہیں ہوتا کہ آپ کہیں کہ اب میں ایک کاروبار شروع کرچکا ہوں کیا کروں؟ اس میں تو منافع نہیں ہے‘ہے تو بہت قلیل‘اصل میں مجھے فلاں کاروبار کرنا چاہیے تھا. بلکہ آپ اپنے کاروبار کی بساط لپیٹیں گے اور کوئی دوسرا کام شروع کردیں گے.