خطبۂ مسنونہ اور دعا کے بعد:
صدر گرامی قدر، مہمانان گرامی، محترم پرنسپل صاحب، اساتذۂ کرام اور عزیز طلبہ!
اگرچہ پاکستان کی اس مشہور درس گاہ میں اس سے قبل متعدّد بار خطاب کا موقع مل چکا ہے تاہم مجھے شدید احساس ہے کہ آج کے اس اجلاس سے جو بیاد علّامہ اقبال مرحوم منعقد ہورہا ہے، میرا خطاب کرنا ایک غیر معمولی جرأت ہی نہیں کسی قدر نامناسب جسارت بھی ہے.
اس کا سبب بالکل واضح ہے یعنی یہ کہ میں نہ زبان و ادب کے میدان کا آدمی ہوں نہ فکر و فلسفے کا، بلکہ میری بنیادی تعلیم سائنس کی ہے اور ثانوی تربیت طبّ و علاج کی. جبکہ علاّامہ اقبال کی دو سب سے زیادہ معروف حیثیتیں یہی ہیں کہ وہ ایک بہت بڑے شاعر بھی ہیں اور ایک عظیم فلسفی اور مفکر بھی. لہٰذا علامہ مرحوم کے بارے میں میری تقریر کچھ انمل بے جوڑ سی بات ہے. بایں ہمہ، جب مجھے اس تقریب میں حاضر ہوکر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تو میں نے بغیر کسی پس و پیش یا ردّ و قدح کے فورًا آمادگی ظاہر کردی.
وجہ اس کی یہ ہے کہ میرے نزدیک پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان، قطع نظر اس سے کہ وہ عوام میں سے ہو یا خواص میں سے اور بالکل ان پڑھ اور جاہل ہو یا عالم و فاضل، علامہ مرحوم کے ساتھ سہ گانہ و سہ گونہ رشتوں میں منسلک ہے:
ایک یہ کہ یہ مملکتِ خداداد سرزمینِ پاکستان جس میں ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اقامت گزیں ہیں، اس کا وجودو قیام علامہ مرحوم ہی کے تخیل و تصور کا رہینِ منت ہے.
دوسرے یہ کہ وہ عالمی ملت اسلامی اور امت مرحومہ جس سے ہم سب منسلک ہیں، اس دور میں اس کی عظمت و سطوتِ پارینہ کا سب سے بڑا مرثیہ خواں بھی اقبال ہے اور اس کے اِحیاء و نشاۃ ثانیہ کا سب سے بڑا حدی خواں بھی اقبالؔ ہی ہے. تیسرے یہ وہ دینِ حق جس کے ہم سب نام لیوا ہیں اور جس کے بارے میں کچھ ہی پہلے حالی مرحوم نے کہا تھا:
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے!
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
اس دور میں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اس کے اسرار و رموز کا سب سے بڑا راز دان بھی اقبالؔ ہی ہے اور اس کی روحِ باطنی اور جسدِ ظاہری دونوں کے تجدید و احیاء کے عظیم ترین نقیب کی حیثیّت بھی اقبالؔ ہی کو حاصل ہے!
یہ سہ گانہ تعلق تو علّامہ مرحوم کے ساتھ ہر پاکستانی مسلمان کو حاصل ہے. مجھے ذاتی طور پر ایک چوتھی خصوصی نسبت روحِ اقبالؔ سے یہ ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے یہ حقیقت مجھ پر شدّت کے ساتھ منکشف ہوچکی ہے کہ احیائے اسلام کی شرطِ لازم تجدید ایمان ہے اور ایمان کا اصل منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے. گویا ملت اسلامی کی نشاۃ ثانیہ اور تشکیل جدید کی کوشش ہو یا احیائے اسلام اور غلبۂ دینِ حق کی جدو جہد، دونوں کا اصل مبنیٰ و مداراس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں کا قرآن حکیم کے ساتھ صحیح تعلق دوبارہ استوار کیا جائے اور اس حقیقی نسبت کی تجدید کی کوشش کی جائے جو ایک مسلمان اور قرآن کے مابین ہونی چاہیے اور میں دیکھتا ہوں کہ ملت اسلامی اور دینِ حق دونوں کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کے اس طرح قرآن حکیم کے ساتھ وابستہ ہونے کا احساس اسی قدر بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدّت کے ساتھ علامہ مرحوم کو تھا. "یغفر اللہ لہ و یرحمہ"
خلاصۂ کلام یہ کہ ... میں نہ علامہ مرحوم کی شاعری اور ان کی فصاحت و بلاغت یا قدرتِ کلام کے بارے میں کسی ماہر فن ناقد کی حیثیت سے کچھ عرض کرنے کا مجاز ہوں... نہ ان کے فکر و فلسفے پر خالص فلسفیانہ انداز میں کوئی تبصرہ کرسکتا ہوں... بلکہ میں مذکورہ بالا چار نسبتوں ہی کے بارے میں کچھ مختصراً عرض کروں گا.