اقبال اور قرآن

سید نذیر نیاز


انجمن خدام القرآن کے مؤسس جناب ڈاکٹر اسرار احمد کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں پر قرآن مجید کے کچھ حقوق ہیں. ایک اسے ماننا ، دوسرا پڑھنا، تیسرا سمجھنا ، چوتھا عمل کرنا، پانچواں دوسروں تک پہنچانا ، پھر ان پانچوں حقوق کو بعنواناتِ ذیل یوں ترتیب دیا ہے تاکہ ہم سمجھ لیں کہ یہ حقوق فی الواقع ہیں کیا اور باعتبار ان کے ہم کیا فرائض عاید ہوتے ہیں. عنوانات یہ ہیں:
۱: ایمان اور تعظیم
۲: تلاوت اور ترتیل
۳: تذکر اور تدبر
۴: حکم اور اقامت
۸: تبلیغ اور تبیین

ایمان اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو صدقِ دل سے مانیں. ہر حالت میں اس کے ادب اور احترام کا خیال رکھیں. نہ کوئی ہستی اللہ تعالیٰ سے زیادہ واجب التعظیم ہے نہ اس کے کلام سے بڑھ کر کوئی اور کلام واجب تعظیم و تکریم.

تلاوت و ترتیل سے مراد ہے قرآن مجید کو جملہ آداب ظاہری و باطنی اور لوازمِ تجدید کے ساتھ خوش دلی اور خوش الحانی سے رک رک کر اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تاکہ اس کی تعلیمات ذہن نشین ہوتی جائیں. ہم خلوص نیت سے ان کے اتباع اور پیروی پر آمادہ رہیں.

تذکر کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کا ہر ارشاد بطور ایک حقیقت ذہن میں مستحضر رہے. ہم اسے کبھی نہ بھولیں. ہر حالت میں اس سے ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتے رہیں. تدبر کے معنی ہیں غور اور فکر 
اور اس سے مقصود یہ کہ ہم ان حقائق کا فہم اور ادراک پیدا کریں جن کی طرف قرآن مجید نے بکمالِ فصاحت و بلاغت جا بجا اشارہ کیا. بالفاظ دیگر آیات الہیہ کا مطالعہ و مشاہدہ جو انفس و آفاق میں بکھری پڑی ہیں. جن کا تعلق جہاں انسان اور کائنات سے ہے وہاں زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں سے بھی ہے تاکہ ہم سمجھیں کہ قرآن مجید کی دعوت کیا ہے. ہماری غایتِ حیات کیا عالمِ انسانی ہو یا عالم فطرت مشیتِ الہیہ اس میں کس طرح کار فرما ہے. ہم اپنی کنہِ ذات تک پہنچیں. یہ جان لیں اسے کائنات اور خالق کائنات سے کیا تعلق ہے. اس طریق زندگی میں جو ہمارے لیے تجویز ہوا کیا مصلحت ہے. یہ بنیادی سوالات ہیں جن پر انسان ہمیشہ سے غور کرتا چلا آیا اور غور کرتا رہے گا. لہٰذا قران مجید میں تدبر اور تفکر بھی ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی انتہا ہے نہ اختتام. 

حکم اور اقامت ہے قرآن مجید کے احکام کی منصفانہ پابندی اور ان سب فرائض کی جو اس طرح عائد ہوتے ہیں ہر حالت میں بجا آوری. اقامت وہ جدوجہد ہے جو اس نظام اجتماع یا معاشرت کے قیام و استحکام میں لازم ٹھہرتی ہے جو قرآن مجید کا مقصد ہے اور جس کی ابتداء نبی اکرم  نے اصولا اور عملا! ہر پہلو اور ہر جہت سے واضح اور مکمل طور پر کردی.

تبلیغ عبارت ہے تعلیماتِ قرآنی کی ہمہ گیر اشاعت سے کہ ان سے دنیا کا کوئی انسان اور کوئی قوم بے خبر نہ رہے اور تبیین یعنی جیسا بھی موقعہ اور جیسے بھی حالات کا تقاضہ ہے آیاتِ قرآنی کی توضیح و تشریح.

آئیے اب ڈاکٹر صاحب کے ان ارشادات کے پیش نظر یہ دیکھیں کہ اقبال نے ان حقوق کو کس طرح اور کہاں تک پورا کیا. 

سب سے پہلا فریضہ ایمان اور تعلیم ہے اور اسی سے ایک مسلمان کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے. اقبال نے قرآن مجید کو ویسے ہی مانا جیسے ہر سچے مسلمان کا فرض ہے وہ صدق دل سے اس پر ایمان لائے. قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے. قرآن مجید اللہ کا کلام ہے. لفظاً اور معناً حضور رسالت ماب پر نازل ہوا اور بعینہ آج ہمارے سامنے موجود ہے. اس کی تعلیمات عالمگیر ہیں. دوامی اور ابدی، جن میں سرِ مو کمی بیشی کی گنجائش نہیں. تعظیم کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن مجید کا ذکر آیا ان کا سر فرطِ ادب سے جھک گیا. چہرہ متغیر ہوگیا. بفحوائے 
لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕقرآن مجید کی عظمت کا احساس بڑھتا جاتا. کسی گہری فکر میں ڈوب جاتے اس عالم میں ان کی دلی کیفیت کا اندازہ انہیں کے اس شعر سے کیجیے جس میں گویا اسی ارشاد باری تعالی. لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ… کی ترجمانی نہایت خوبی سے ہوگئی ہے. 

؎ آنکہ دوشِ کوہ بارش برنتافت
سطوت او زہرۂ گردوں شگافت

تلاوت کا فریضہ تو اس وقت تک جاری رہا جب تک علالت نے انہیں بے بس نہیں کردیا. ان کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اور قرآن مجید ہی پر اس کا خاتمہ ہوگیا.بچپن ہی سے نماز فجر کے بعد علی الصبح قرآن مجید کی تلاوت کرتے . بہ ادب بیٹھ جاتے. خوش الحان تھے. ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت پر غور کرتے. ٹھہر ٹھہر کر آگے بڑھتے تاکہ ہر لفظ اور ہر آیت کے معنی ذہن نشین ہوجائیں. قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ ہی ان کا محبوب ترین اور دل و دماغ کا سرمایہ تھا. ان کی غذائے روح ان کے لیے سردرد و ابتہاج کا لازوال سرچشمہ. علالت کےہاتھوں دم کشی اور حبس صورت کے باعث جب تلاوت سے معذور ہوگئے تو افسوس فرمایا ؏ 

لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند
قرآن مجید سے ان کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، کیسا بھی انہماک، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا. دورانِ مطالعہ ہی اکثر رقت طاری ہوجاتی. بآواز بلند تلاوت کر رہے ہیں تو آواز گلوگیر ہے آنکھیں پرنم. 

تذکر کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ کوئی گفتگو ہو، تحریر یا تقریر جہاں کوئی بات کہنے کی ہوتی، ان کا ذہن بے اختیار ارشادات قرآنی کی طرف منتقل ہوگیا. جہاں کوئی حقیقت سامنے آئی، کوئی فکر ذہن میں ابھرا قرآن مجید کے حوالے سے اس کی وضاحت کردی. مثالین بہت ہیں. میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا. ۱۹۳۰ء میں الہ آباد میں آل انڈیامسلم لیگ کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، ارض پاک و ہند میں ایک آزاد اسلامی قومیت کی تشکیل کا اولین اعلان تھا. اسلامی قومیت کی تشکیل اور وہ بھی صدیوں کے زوال و انحطاط، فرقہ آرائیوں اور فرقہ بندیوں کے بعد معمولی نصب العین نہیں تھا. اسلامی قومیت کے احیاء اور اسلامی قومیت کے قیام میں خطرے ہی خطرے تھے. اندرونی اور بیرونی بھی، اس کے لیے شدید جدوجہد، بڑے صبر و استقامت، ایمانِ کامل اور 
یقین محکم کی ضرورت تھی. یہ ایک آزمائش تھی جس میں قرآن مجید ہی سے تمسک اور قرآن مجید ہی کی رہنمائی سے پورے اترسکتے تھے. لہذا اقبال جب سب کچھ کرچکے تو سلسلہ کلام اس ارشاد قرآنی پر ختم کیا. عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ؕ . اور ظاہر ہے کہ اس موقعہ پر اس سے زیادہ مناسب تنبیہ اور کیا ہوسکتی تھی کہ اگر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا حساس ہے، ہم راہ ہدایت پر گامزن ہیں تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے. بعینہٖ ۱۹۲۲ء میں جب عالمِ اسلام کا سیاسی اجتماعی زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب کوئی سرزمین نہیں تھی جہاں مسلمان آزادی کا سانس لے سکے. جب ان حالات میں اقبال نے خضرِ راہ کے عنوان سے وہ مشہور نظم جو گویا شمع و شاعر کا تتمہ ہے پڑھی تو اس کا خاتمہ بھی اس ارشادِ باری تعالیٰ پر ہوا. 

مسلم استی سینہ راز آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لا تخلف المیعاد دار

کون مسلمان ہے جو نہیں جانتا کہ یاس کفر ہے. قرآن مجید نے اہل یاس کا شمار اصحاب قبور میں کیا ہے اس دور ابتلا میں جب ہر طرف مایوسی ہی مایوسی چھا رہی تھی، لا تخلف المیعاد سے بڑھ کر امید و اعتماد کا پیغام اور کیا ہوسکتا تھا. 

رہا تدبر سو اس باب میں کیا عرض کیا جائے. محمد اقبال نے جو کچھ کہا جو کچھ سوچا، جو کچھ لکھا، شعر ہو یا فلسفہ قرآن مجید ہی میں تدبر اور تفکر کی بدولت. اس تدبر اور تفکر کی مثالیں پیش کرنا اس کی اہمیت کو کم کرنا ہے. یہ تو ایک مستقل موضوع ہے. مختصراً یہ کہ اقبال کا سرمایہ فکر قرآن مجید ہی کی تعلیمات تھیں اور کچھ نہیں تھا. ان کی شاعری اور افکار کا بغور مطالعہ کیجیے اس میں قرآن مجید ہی کی روح کارفرما ہے اور قرآن مجید ہی کی ترجمانی مقصود. اسرار و رموز اور خطبات کے علاوہ کتنی تحریریں ہیں جن کی اساس قرآن مجید ہی کی تعلیمات تھیں اور کچھ نہیں تھا. ان کی شاعری اور افکار کا بغور مطالعہ کیجیے اس میں قرآن مجید ہی کی روح کارفرما ہے اور قرآن مجید ہی میں ان کا تدبر اور تفکر ہے. پھر یہی تدبر اور تفکر بانگ درا سے لے کر بالِ جبریل، ضرب کلیم، پیام مشرق، زبور عجم، پس چہ باید کرد، مسافر اور ارمغان حجاز میں ہر کہیں نمایاں ہے . بلکہ ان کی متفرق تحریریں ، بیانات، تقریریں اور خطوط بھی اس سے خالی نہیں. گفتگوؤں میں بات ہر پھر کر قرآن مجید ہی کے معارف اور حکم پر آجاتی... زمانہ طالب علمی ہی میں جب انہیں قرآن مجید میں تدبر اور تفکر کا سبق دیا جارہا تھا ان کے والد محترم بھی انہیں یہی نصیحت کرتے. ایک روز کہنے 
لگے قرآن مجید پڑھتے تو ہو اسے سمجھتے بھی ہو. یاد رکھو قران مجید پڑھنے ہی سے نہیں دل کے راستے سے بھی سمجھ میں آجاتا ہے. اسے پڑھو تو یوں سمجھو جیسے قرآن مجید تمہارے دل پر نازل ہورہا ہے. 

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

اس تدبر اور تفکر اور دل کے راستے سے قرآن مجید کو سمجھنے کی داستان بڑی طویل ہے. اس کے لیے ایک دفتر چاہیے. میں پھر دو ایک مثالوں پر اکتفا کروں گا. ایک روز کہنے لگے فلسفہ ہو یا سائنس، زندگی اور اس کے مسائل، کوئی عقدہ ہو، حل ہوتا نظر نہ آئے تو قرآن مجید سے رجوع کرتا ہوں. آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت شائع ہوا اور اس کے ماتحت یہ ماننا لازم ٹھہرا کہ کائنات اضافہ پذیر ہے تو میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی. کئی دن سوچتا رہا بالآخر ایک روز اس پریشانی میں دفعۃً خیال آیا. کیوں نہ قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کروں. میں نے علی بخش کو پکارا، علی بخش قرآن مجید لے آؤ، علی بخش قرآن مجید لایا اور میں نے اسے کھولا تو میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب پہلی آیت جس پر میری نگاہ پڑی یہ تھی واللہ یزید فی الخلق ما یشاء میں سمجھ گیا. میری مشکل حل ہوگئی. ایسے نیٹشے کا فوق البشر زیر بحث آیا تو میں نے درخواست کی کہ اس باب میں دانستہ یا نا دانستہ جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں یا کردی گئیں ان کا ازالہ ضروری ہے. ناقدین نے فوق البشر کا سلسلہ خواہ مخواہ نائبِ حق سے جوڑ رکھا ہے. فرمایا میں تو ان کا کب سے ازالہ کرچکا. میں نے جو کچھ کہا ہے میرے ناقدین اسے غورسے کیوں نہیں پڑھتے. میں نے عرض کیا میں انہیں کے خیال سے کچھ ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ان غلط فہمیوں کے پیش نظر چند ایک باتوں کی ایک حد تک وضاحت ہوجائے اور وہ بھی آپ کی طرف سے تو اچھا ہوگا. فرمایا اگر تمہارا ایسا ہی خیال ہے تو کل سہ پہر کا وقت مناسب رہے گا. ذرا جلدی چلے آنا. دوسرے روز حاضر خدمت ہوا. اور کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا تو فرمایا یہ سامنے کی الماری میں قرآن مجید رکھا ہے. قرآن مجید اٹھا لاؤ. میں اپنے دل میں سمجھ رہا تھا کہ مجھ سے شاید فلسفہ کی بعض کتابوں کی ورق گردانی کرنے کے لیے کہا جائے گا. میں قرآن مجید لے آیا تو ارشاد ہوا. سورۃ الحشر کا آخری رکوع نقل کرلو. رکوع نقل کرچکا تو پھر چند ایک عنوانات کے ماتحت یکے بعد دیگرے مختصراً کچھ شذرات لکھواتے گئے . یہ دن تھا جب میں پورے طور سے سمجھا کہ اقبال نے نائبِ حق کا جو تصور قائم کیا اس کی اساس فی الحقیقت کیا ہے. بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں تدبر و تفکر کے معنی ہی یہ ہیں کہ علم و حکمت اور فکر و فرہنگ کی ساری دنیا ہمارے سامنے ہو بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ دنیا بتمام و کمال ہمارے سامنے آئے گی تو قرآن مجید ہی کی بدولت. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کا رشتہ علم و حکمت سے جس طرح قائم ہے اور علم و حکمت کا قرآن مجید سے اس کا سمجھنا بہت بڑی بات ہے. ایک روز گفتگو تھی کہ اس عہد نے جسے سائنس کا عہد کہا جاتا ہے، مذہب کے بارے میں بڑی بدگمٍانیاں پیدا کردیں بلکہ اس کے خلاف ایک معاندانہ روش اختیار کر رکھی ہے. فرمایا یہ اس لیے کہ لوگ علم و حکمت کی صحیح روح سے واقف ہیں نہ قرآن مجید سے کہ اس کی تعلیمات کیا ہیں. ارشاد ہوا اور انگریزی میں اسلام خلاصۂ کائنات ہے (EPITOME OF THE UNIVERSE) اور یہی رائے ہمارے علماء کی تھی. مگر یہ حقیقت جب ہی منکشف ہوگی جب ہم قرآن مجید میں تدبر اور تفکر سے کام لیں. قرآن مجید میں تدبر اور تفکر کیجیے تو علم و حکمت ہو یا کوئی اور صداقت ہمارا رشتہ آپ ہی آپ اس سے قائم ہوجائے گا. یہ جو اقبال کے اشعار میں تعلیماتِ قرآنی کی برجستہ اور بے ساختہ ترجمانی ہوتی رہتی تھی تو اسی تدبر اور تفکر کی بدولت. ان کا کہنا تھا کہ قرآنِ مجید ہمیشہ کے لیے ہے. اس میں تدبر اور تفکر کا عمل بھی ہمیشہ جاری رہنا چاہیے.

حکم کو لیجیے تو اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ اقبال کے نزدیک انسان کے لیے کوئی اساسِ فکر اور اساسِ عمل ہے تو قرآن مجید اور صرف قرآن مجید. حکم کے معنی بہت وسیع ہیں. یہ ایک بڑی جامع اصطلاح ہے جس سے مراد ہے ان سب اوامر و نواہی کی غیر مشروط پابندی جو ازروئےمعروف و منکر اور حرام و حلال شریعت نے ہم پر عائد کیے اور جن کی بجا آوری سے فرد کی سیرت اور جماعت کا کردار اسلام کے سانچے میں ڈھلتا ہے جو ہماری تعلیم و تربیت کا سرچشمہ اور اس عمارت کی اساس ہیں جسے اسلامی نظامِ حیات یا اسلامی طریق زندگی یا اصطلاحاً جو جی چاہے کہہ لیجیے اور جو ساری نوعِ انسانی کو ایک اصول اور قانون پر جمع کرتے ہوئے اس راستے کی طرف لے جاتا ہے جسے اس کی فطرت کہیے جسے خالقِ فطرت نے خود اس کے لیے تجویز کیا. مختصراً یہ کہ حکم کا تقاضا ہے اقامتِ دین. بالفاظِ دیگر اسلام کی ہر پہلو سے عملاً اور واقعۃً ترجمانی. لہٰذا اس معاشرے کی تعمیر جو وحدتِ بشری کی تمہید ہے اور جس کے لیے ایک آزاد اور با اقتدار، مخصوص و متمیز اور جداگانہ سیاسی 
اجتماعی گروہ بندی ناگزیر ٹھہرتی ہے، جس کے بغیر ناممکن ہے فرد یا جماعت کی زندگی اسلام کے معیار پر پوری اترے. یہی وہ جدوجہد ہے جس میں چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری میں ہمارے ایمان اور صبر و استقامت کا امتحان ہوتا ہے اور جس کا، جب ارض پاک و ہند کی سیاست ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گئی، وقت آیا اور اقبال نے قوم کو یاد دلایا کہ ہم نہ بھولیں بحیثیت قوم ہمارا فریضہ کیا ہے، ہماری حیاتِ اجتماعیہ اور قومی تشخص کا راز کیا. لہٰذا اس مرحلے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے تو ان کی مخالفت میں غیروں کی طرف سے جو آواز اٹھی اس میں ایک حد تک اپنوں نے بھی حصہ لیا.حالانکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر اسلام محض ایک عقیدہ نہیں کہ ہم نے اسے مانا اور اپنی ذاتی اور نجی زندگی سے باہر اس پر عمل سے کنارہ کش ہوگئے بلکہ ایک دستورِ حیات جس کے افہام و تفہیم کے لیے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے جو حضور رحمۃ اللعالمین کی بعثت کے ساتھ بطور ایک دین کامل افراد و اقوام کی زندگی لہٰذا امور انسانی میں ہمیشہ کار فرما تھا آج بھی ہے اور رہے گا اگر اس دستورِ حیات کی ترجمانی ایک نظام مدنیت کی شکل نہیں ہوتی. اگر اس کی بنا پر ایک ایسی قوم وجود میں نہیں آتی جس کا ضمیر خالص انسانی اور نقطہ نظر لسانی، جغرافی، نسلی عصبیتوں سے بالاتر محض انسانیت پر مرکوز ہے تو کوئی بھی جدوجہد ہو سیاسی یا اجتماعی ذہنی یا اخلاقی اس سے کیا حاصل! یہ ایک سیدھی سادی سی بات تھی جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں تھا مگر جسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں تھا کہ اگر اسلام ایک عالمگیر دعوت ہے، اگر اس کا خطاب ساری دنیائے انسانی اقوام اور امم سے اور عالم تاریخ سے ہے لہذا کسی ایسے نصب العین پر جس سے بحیثیت ایک نوع ہماری تقدیر اور مستقبل وابستہ ہے اور یہی فی الحقیقت تہذیب و تمدن کی اساس. اگر مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کردار سے کوئی فریضہ ہے جو عالم بشری کی ہدایت اور خیر و سعادت کے لیے ان پر عائد ہوتا ہے. اگر یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے تو ہم اسے آزادی و اقتدار ایک قوم کی حیثیت ہی سے جیسا کہ زبان سیاست میں اس کا مفہوم ہے اور جس کے لیے ”خیرِ امت” کی تشکیل ہوئی ادا کرسکتے ہیں. نہ اسلامی قومیت کسی دوسری قومیت میں ضم ہوسکتی ہے نہ اس کے دستور حیات میں کسی دوسرے دستورِ حیات کا پیوند لگ سکتا ہے. ہمارا فرض ہے ہم اپنا ملی تشخص قائم رکھیں. پھر جب اس ملی تشخص کے شعور ہی سے ہماری تعلیم وتربیت میں کچھ معنی پیدا ہوتے اور ہمارا قومی وجود قائم ہے تو حق و باطل میں شرکت کے کیا معنی:

باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

یہ فریضہ ہے جس کی انہوں نے عمر بھر تلقین کی. جس کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کردی. شعر ہو یا فلسفہ، ادب اور فن یا سیاسی اور ملی زندگی کا کوئی گوشہ وہ جہاں کہیں بھی اور جس حال میں تھے، اسی نصب العین پر قائم رہے اور یہی اول و آخر ان کی آرزو رہی کہ امت اپنے اصل الاصول پر آجائے. عصر حاضر کا انسان اپنی سعی و محنت، اپنی عقل و فکر کی تازگی اور علم و ہنر کی نادرہ کاری سے جو دنیا پیدا کر رہا ہے، زندگی نے جو انقلاب انگیز کروٹ لی ہے، ارباب نظر جس نئے اور تابناک مستقبل کا جو خواب دیکھ رہے ہیں مسلمان اس سے غافل نہ رہیں. اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک موقع دیا ہے اسی میں ان کا امتحان ہے. وہ اٹھیں، اپنے ایمان و یقین کی تجدید کریں اور اس دنیا کی تعمیر میں مصروف ہوجائیں جو اسلام کا مقصود ہے. لہٰذا جیسے جیسے دن گزرتے گئے ان کی گفتگو کا کوئی موضوع تھا تو یہی اور یہی ہر ایک سے ان کا کہنا حتی کہ علالت کے آخری ایام میں جب ان کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا . انہیں کوئی خیال تھا تو یہی، کوئی پریشانی تھی تو یہی. چنانچہ یہ انہیں کا ایمان و یقین بصیرت اور فراست تھی کہ ارض پاک و ہند کی بساطِ سیاست دیکھتے دیکھتے بدل گئی. ؏ 

جہانے را دگرگوں کردیک مردے خود آگاہے
مسلمانوں نے جان لیا ان کے مستقبل کا راز کیا ہے، ان کے لیے صحیح راہ عمل کیا. 

بات طویل ہورہی ہے کہنا یہ ہے کہ اقبال کا کوئی پیغام تھا تو یہی کہ مسلمان سمجھ لیں ان کی زندگی قرآن مجید سے ہے. قرآن مجید میں فکر و نظر سے کام لیں. اس کی تعلیمات پر عمل کریں. قرآن مجید ہی ان کا ایک سرمایہ ہے. یہی ان کا پیغام تھا جسے انہوں نے طرح طرح سے پیش کیا. شعر میں، فکر میں تحریر و تقریر میں، گفتگوؤں میں، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کوئی معاملہ ہو، کوئی مسئلہ، علم و حکمت کی بحث ہو، تہذیب و تمدن یا ادب اور فن، سیاست اور معاش، فرد کی زندگی، جماعت کے مفاد، انسان، اس کے ضمیر اور باطن، احوال و واردات، امور عالم کی غرضیکہ کوئی موضوع ہو بالآخر قرآن مجید ہی پر ختم ہوتا. قرآن مجید ہی نے ان کے فکر کو جلا دی. قرآن مجید نے ہی ان کی شاعری 
میں وہ کیفیت، وہ درد و سوز اور ذوق و شوق پیدا کیا جس کا سرچشمہ ایمان میں نے عرض کیا تھا. ان کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اور اگر ہم نے اقبال کو سمجھ لیا ہے تو جیسا کہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اس تعلیم کا خاتمہ بھی قرآن مجید ہی پر ہوا. آخری عمر میں بھی ان کی کوئی خواہش تھی تو یہی کہ قرآن مجید کے معارف اور حِکَم پر قلم اٹھائیں. زندگی کے آخری لمحے آئے تو یہی آرزو کہ قرآن مجید سنیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا. جب زندگی ہو یا آخرت اس کا رشتہ قرآن مجید ہی سے وابستہ ہے انہوں نے کہا ہے اور خوب کہا. 

گر تو می خواہی مسلماں زیستن.
نیست ممکن جز بقرآن زیستن

لیکن اس ”بقرآن زیستن” کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں جو نوع انسانی کو ازل سے در پیش ہے، جس میں تاریخ کی حیثیت ایک لمحے کی ہے، جس میں اقوام و امم یکے بعد دیگرے ایسے ابھرتی ہیں جیسے کسی بہتی ہوئی ندی میں پانی کے بلبلے، جس میں تہذیب و تمدن نے کئی رنگ بدلے، چشم فلک نے کئی انقلاب دیکھے اور جس کا سلسلہ اس لیے جاری ہے اور جاری رہے گا کہ انسان اپنے مدعا و منتہا کو پالے، ہم اس جدوجہد میں مردانہ وار حصہ لیں. اسے اسلام کے قالب میں ڈھال دیں. یہ مقصد وعظ و نصیحت اور تحریر و تقریر سے حاصل نہیں ہوگا. قرآن مجید پر عمل کرنے سے. 

اے کہ می نازی بقرآنِ عظیم
تا کجا در حجرہ ہا باشی مقیم 
در جہاں اسرارِ دیں را فاش کن 
نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن 

یہ اس لیے کہ زندگی کو ثبات ہے. اس کی تقویم کا کوئی نسخہ، اس کے امکانات کے حصول کا کوئی راستہ، اس کی غایت اور کنہ میں ادراک کا کوئی ذریعہ ہم سمجھ لیں اس کا رخ فی الحقیقت کس طرف ہے تو قرآن مجید ہی کی بدولت. یہی ہماری تعمیر ذات اور یہی ایک ایسی زندہ و پائندہ شخصیت کی اساس ہے جسے موت کا ہاتھ بھی فنا نہیں کرسکتا، قرآن مجید ہی اس حکم اور ترقی پذیر نظامِ تمدن کا صورت گر ہے جس کی ساری نوعِ انسانی کو ضرورت ہے. وہ ایک عالمگیر اور ابدی پیامِ ہدایت ہے جو ہمارے لیے مژدۂ حیات لے کر آیا جس میں ہمارا ہی ذکر ہے، جسے یاد رکھنے کے لیے آسان کردیا. وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿٪۲۲﴾ جو عین صداقت ہے، عین علم و حکمت، سرتا سر دستور و قانون، سرتاسر موعظت اور رحمت! 
آں کتابِ زندہ قرآن حکیم حکمتِ او لا یزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرفِ او را ریب نے تبدیل نے آیہ اش شرمندۂ تاویل نے
نوعِ انساں را پیامِ آخرین حاملِ او رحمۃ للعالمین! 

اب اگر ہمیں زندگی کی نعمت ملی ہے، ہمارے نزدیک اس کے کچھ معنی ہیں، ہم اس کی تب و تاب محسوس کرتے، اس کے ذوق و شوق اور سوز و ساز کے لذت آشنا ہیں، ہمارے سینوں میں بھی وہی آرزوئیں اور تمنائیں پرورش پا رہی ہیں، وہی عزائم اور مقاصد ابھر رہے ہیں جن کا تعلق جہاں داری اور جہاں بانی سے ہے، عالمِ محسوس کی تسخیر اور ایک برتر تہذیب و تمدن کے نشوونما سے، ایک ایسی دنیا کا تصور ہیں جو عمل پر اکسا رہا ہے جس میں انسانیت کا جوہر کھلے، جس میں زندگی کو اس کے سارے جمال و جلال کے ساتھ عالم خارج میں مشہور دیکھیں، جس میں نت نئے حقائق اور نت نئے مدارجِ ذات سے لطف اندوز ہوں تو اس میں کامیابی کارشتہ قرآن مجید ہی سے جوڑنا پڑے گا. پھر اس بابت میں اقبال کا خطاب اگرچہ ساری نوع انسانی سے تھا لیکن اس شخص سے بالخصوص جو مسلمان ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کہ سب سے زیادہ اسی کا فرض ہے کہ اس جدوجہد میں حصہ لے.

چوں مسلمانانِ اگر داری جگر در ضمیرِ خویش و در قرآن نگر
صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست عمرہا پیچیدہ در آناتِ اوست
یک جہانش عصرِ حاضر را بس است گیر اگر در سینہ دل معنی رس است
بندۂ مومن ز آیاتِ خدا است ہر جہاں اندر برِ او چوں قبا است
چوں کہف گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود جان چوں دیگر شد جہاں دیگر شود 

ہم بھول گئے قرآن مجید ہی سے ہمارا قومی وجود قائم ہے. قرآن مجید ہی ہمارے ملی تشخص کا راز، ہمارا آئین، ہمارے لیے اصول و قوانین کا سرچشمہ. مگر ہم ذلیل و خوار ہوگئے.

خوار از مہجورئ قرآں شدی شکوۂ سنجِ گردشِ دوراں شدی

اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ 
در بغل داری کتابِ زندۂ

پھر جس طرح اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوسکتے خواہ دنیا بھر کے درخت قلم اور سمندر روشنائی بن جائیں، بعینہ ان کی تشریح و تفسیر تبلیغ و تبیین کا بھی کوئی اختتام ہے نہ انتہا، عقل طرح طرح سے ان کی طرف بڑھے گی. فکر ایک کے بعد دوسرا تصور قائم کرے گا. علم پر نئے نئے حقائق منکشف ہوں گے عمل سے کئی ایک عقدوں کی گرہ کھلتی رہے گی. لہٰذا ایک بات ہے جس کا اس ضمن میں سمجھ لینا ضروری ہے جس کی طرف اگرچہ اقبال نے اشارہ بھی کردیا تھامگر جس پر بہت کم توجہ کی گئی اور وہ یہ کہ زندگی چونکہ سرتاسر خلاقی اور تازہ کاری ہے اس لیے تجربے اور مشاہدے کی طرح علم و حکمت اور فکر و وجدان کی دنیا بھی ایک تغیر پذیر دنیا ہے. اسی سے اس کی ہستی اور وجود قائم یہی اس کی حرکت اور یہی اس کی طلب اور جستجو کا راز. وہ ایک لامتناہی سفر ہے جس میں اگرچہ کوئی مرحلہ اور کوئی ساعت آخری نہیں لیکن جس میں ہم لازماً کسی مقام پر ہوں گے اور اسی مقام سے ماضی و حال کا جائزہ لیتے ہوئے ایک خاص موقف قائم کرتے ہوئے ایک نئی امید اور نئے اعتماد کے ساتھ منتظر رہیں گے کہ ہماری طلب و جستجو سے جو حقائق و اشگاف ہوئے مستقبل میں وہ کس انداز میں ہمارے سامنے آئیں گے. بعینہٖ جیسے ایک کوہ پیما ایک بلندی سے دوسری بلندی کی طرف بڑھتا ہے تو اگر وہی مناظر بار بار اس کے سامنے آتے ہیں جن کو وہ اس سے پہلے دیکھ آیا تھا مگر اب ہر لحظہ ایک نئے رنگ میں. کچھ ایسا ہی معاملہ عقل اور فکر کا ہے. کہ ہمارے وہ تصورات بھی جن کو ہم آخری اور قطعی سمجھتے ہیں، آخری اور قطعی نہیں ہوتے. حقیقت ایک ہے اور لامتناہی. جیسے جیسے ہم عقل اور فکر کے سہارے اس کی طرف بڑھیں گے ہمارے وہ تصورات بھی جو قطعی اور یقینی لہٰذا خالی از صداقت نہیں تھے، ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آئیں گے. نئے نئے تصورات قائم ہوتے چلے جائیں گے. لیکن ایک خاص وقت میں جب حقیقت کا کوئی پہلو اجاگر ہوا اور اس مؤقف کی رعایت سے جو ایک خاص عمر میں عقل اور فکر نے قائم کیا کیونکہ بغیر اس کے کوئی دوسرا موقف ممکن ہی نہیں تھا تو ہم جو کچھ کہیں گے اس مؤقف کا لحاظ رکھتے ہوئے تاکہ اسے دوسروں تک پہنچا سکیں، مگر جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوگا کہ ہم نے حقیقت کو موقف یا اس طرح جو تصورات قائم ہوئے ان کے تابع کردیا. جس ذہنی فضا میں سانس لے رہے ہیں اس کی برتری تسلیم کرلی. حالانکہ ہم نے جو کچھ کہا محض سہولتِ افہام و تفہیم کے لیے . یہاں پھر ایک مثال سے کام لینا بہتر ہوگا جس سے اس امر کی مزید وضاحت ہوجائے گی کہ اقبال کے فکر کی نوعیت فی الحقیقت کیا ہے. انہوں نے آیتِ نور ”اللہ نور السموات والارض” کے بارے میں جب ایک مغربی مصنف کے خیال کی، جس نے اسے ایک خاص دعوے کی تائید میں پیش کیا تھا تردید کی اور کہا اس آیت کا اشارہ اس حقیقت کی طرف نہیں ہے جو مصنف کے ذہن میں ہے بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں ایک دوسری حقیقت کی طرف تو اعتراض ہوا کہ اقبال نے اس آیت کی جو تاویل کی ہے صحیح نہیں. صحیح تاویل کچھ اور ہے جسے میں نے ان کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اپنے ایک عنایت نامے میں لکھاکہ تاویل تو معترض کر رہا ہے. میں نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ مصنف مذکور کے نزدیک اس آیت کا اشارہ جس حقیقت کی طرف ہے صحیح نہیں. میں تاویل کا قائل نہیں ہوں میرا مذہب اس معاملے میں وہی ہے جو ابن حزم کا اور جسے مولانا روم نے اپنے اس ارشاد میں کس خوبی سے ادا کردیا.

کردۂ تاویل حرفِ بکر را
خویش را تاویل کن نے ذکر را
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حرفِ بکر کے معنوں کی ازروئے فکر و تحقیق فلسفہ کی نفی نہیں ہوتی. نہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اپنے خیالات کے جواز میں کوئی عقلی حیلہ تراش رہے ہیں. مگر بات پھر طول کھینچتی رہی ہے. مجھے چاہیے سلسلہ کلام ختم کردوں. بیان ہے ان حقوق کا جو قرآن مجید کی طرف سے مسلمانوں پر عاید ہوتے اور اقبال کے قرآن مجید میں ایمان و یقین کا . ؏ 

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے

بہتر ہوگا میں آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ آپ نے میری معروضات توجہ سے سنیں، سلسلہ کلام اقبال ہی کے اس قطعے پر ختم کردوں.

زِ قرآن پیش خود آئینہ آویز
دگر گوں گشتۂ از خویش بگریز 
ترازوئے بنہ کردار خود را 
قیامت ہائے پیشین را بر انگیز 
(ماخوذ از میثاق جنوری فروری ۱۹۷۴ء)