اس سب کا لُبّ ِ لباب اور حاصل کیا ہے؟ یہ آخری بات "last but not the least" کے درجے میں فرما دی گئی: وَ لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہ بنا لینا‘‘. یہ وہی بات ہے جو ہمارے کلمۂ طیبہ کا جزوِ اوّل ہے: ’’لَا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘. پس اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ ٹھہرا لینا‘ اللہ کے سوا کسی اور کو الوہیت کا حامل نہ مان بیٹھنا. اللہ ہی الٰہ واحد ہے‘ وہی ُمطاعِ مطلق ہے‘ وہی محبوبِ حقیقی ہے.
’’اِلٰہ‘‘ کے لفظ کی تفصیل ہمارے اس منتخب نصاب میں پہلے کہیں نہیں آئی. یہ عجیب لفظ ہے. اس کے حروفِ اصلی میں‘ جو اس کا مادہ ہیں‘ اور پھر اس کے بنیادی لغوی مفاہیم کے اندر جامعیت کاعجیب رنگ ہے. ’’الٰـہ‘‘ کا مادہ عربی زبان میں کئی معنوں میں آتا ہے. مثلا ً کہا جاتا ہے: ’’اَلَــہَ الفصیلُ اِلٰی اُمِّہٖ‘‘. یعنی اونٹنی کا وہ بچہ جو ماں سے دور کہیں باندھ دیا گیا ہو‘ جب اسے موقع ملتا ہے تو وہ اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے. اس مفہوم سے یہ لفظ ’’الٰہ‘‘ اخذ کیا گیا ہے. اسی طرح اس مادے کا ایک مفہوم تحیّر ہے. یعنی جس کی اصل حقیقت اور کنہ تک کوئی نہ پہنچ پائے. ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ’’ولہ‘‘ سے ہے جس کا مفہوم والہانہ محبت ہے. گویا الٰہ وہ ہستی ہے جس کی طرف کوئی لپکتا ہے اپنی حاجت روائی کے لیے‘ اپنی مشکل کشائی کے لیے‘اپنے مصائب کو دور کرنے کی درخواست لے کر‘ اپنی ضروریات کی بہم رسانی کی توقع کے ساتھ اور تمہارا مشکل کشا‘ تمہارا حاجت روا‘ تمہارا روزی رساں اور تمہاری تکالیف کا دور فرمانے والا سوائے اللہ کے کوئی نہیں. یہ ہے بنیادی تصورِ الٰہ. اس کے بعد یہی لفظ آئے گا اُس ذات کے لیے جو محبت کے قابل ہو‘ جس سے والہانہ عشق ہو ‘اور وہ ذات بھی اللہ ہی کی ذات ہے. وہ محبوبِ حقیقی اور مطلوبِ اصلی ہے. اور پھر فلسفیانہ انداز میں بات کی جائے تو وہ ہستی کہ جس کی کنہ کو سمجھنا انسان کے لیے ناممکن ہو‘ جس کی ذات وراء الوراء‘ ثم وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہو‘ جہاں انسان کے لیے سوائے تحیر کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا‘ تو وہ بھی اللہ ہی کی ذات ہو سکتی ہے. چنانچہ یوں سمجھئے کہ یہ جامہ ہر اعتبار سے راست آتا ہے صرف باری تعالیٰ کی ذات پر.
مختلف مزاج‘ مختلف شعور کی سطحوں پر فائز‘ مختلف افتادِ طبع کے لوگ اپنی ذہنی سطح کے مطابق الٰہ کا تصور رکھتے ہیں. عوام الناس کے نزدیک الٰہ کا تصور یہی ہے کہ وہ روزی رساں ہے‘ تکالیف کا دور کرنے والا ہے‘ دعائیں سننے والا ہے‘ تمنائیں بر لانے والا ہے. ان کی ذہنی سطح پر معبود کا مفہوم یہی ہو گا : ’’لَا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ یعنی روزی رساں اُس کے سوا کوئی نہیں‘ مشکل کشا اس کے سوا کوئی نہیں. حاجت روا اُس کے سوا کوئی نہیں‘ تکلیفیں دور کرنے والا اُس کے سوا کوئی نہیں اور اُس کے سوا کوئی نہیں جو لوگوں کی دعائیں سنتا ہو‘ ان کو قبول کرتا ہو اور ان کی مصیبتوں کو دور فرماتا ہو. لیکن فلسفیانہ ذہن اور ہے. فلسفیانہ افتاد اور مزاج کا حامل شخص الٰہ کو وہ ہستی مانتا ہے کہ ؏ ’’اے بروں از وہم و قیل و قالِ من‘‘کے مصداق جہاں انسان کا فکر تھک ہار کر رہ جائے‘ جس کی ہستی کا تصور ممکن نہ ہو‘ جس کی صفات کا تصور ممکن نہ ہو‘ وہ قادرہے تو کتنا قادر ہے‘ وہ سمیع ہے تو کتنا سمیع ہے‘ وہ علیم ہے تو کتنا علیم ہے. وہ ذات کہ جہاں پر سوائے تحیر کے انسان کے پاس اور کوئی چارۂ کار نہیں‘ وہ ہستی الٰہ ہے. اور وہ شخص کہ جو عبادت کی اصل روح سے آشنا ہوچکا ہو‘ وہ شخص کہ جس کا دل بیدار ہو‘ اُس کی روح زندہ ہو‘ اس کے لیے الٰہ محبوبِ حقیقی ہے‘ مطلوبِ اصلی ہے‘ یعنی: ’’لاَ مَعْبُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَا مَحْبُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ!‘‘
اگرچہ اس کلمہ ٔ طیبہ کے پہلے جزو کی اس سے بلند تر سطح بھی ہے‘ لیکن اس کا ذکر یہاں شاید اختصار کے ساتھ مناسب نہ رہے گا‘ تاہم صرف اشارہ کر دیا جاتا ہے. اس پر اگرچہ کچھ بحث حقیقت شرک کے ضمن میں ہو چکی ہے کہ ایک مقام وہ بھی ہے جہاں اللہ کے سوا کسی الٰہ کی نفی کا معاملہ اس صورت میں سامنے آتا ہے کہ ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ یعنی وجودِ حقیقی صرف اللہ کا ہے. حقیقتاً موجود صرف وہ ہے. ؎
کلُّ مَا فِی الکَوْنِ وَھمٌ اَو خَیالٌ
او عُکوسٌ فی المَرایا او ظِلالٌ
باقی جو کچھ نظر آ رہا ہے یا تووہ سائے ہیں ‘یا عکس ہیں یا وہ ایک قوتِ واہمہ کی کارفرمائی ہے‘ جبکہ وجودِ حقیقی صرف اللہ کا ہے.
انسان کا فکری ارتقاء ہو‘ انسان کی روحانی ترقی ہو‘ ان سب کی معراج یہ ہے کہ انسان اس ’’لَا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کی حقیقت کو پا لے. لہذا یہ ساری بحث و تمحیص اور یہ سارے اوامر و نواہی آخر میں آ کر جس نقطے پر مرتکز ہوتے ہیں وہ نقطہ پھر وہی ہے جہاں سے آغاز ہوا تھا.آغاز شرک فی العبادت کی نفی سے ہوا تھا : وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ اور اختتام ہوتا ہے شرک فی الالوہیت کی نفی پر : وَ لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتُلۡقٰی فِیۡ جَہَنَّمَ مَلُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۳۹﴾ ’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنا لینا‘ ورنہ تم جہنم میں ڈال دیے جاؤ گے ملامت زدہ (اور) دھتکارے ہوئے (ہر بھلائی سے محروم ہو کر)‘‘.یعنی شرک کا تو ایک ہی نتیجہ نکلے گا. اگر تم اس جرم کے مرتکب ہوئے تو پھر تمہاری حیثیت اُس خس و خاشاک اور اس کوڑے کرکٹ کی ہو گی جس کو دیا سلائی دکھا دی جائے‘ جس کو آگ لگا دی جائے.چنانچہ تم مَلُوْم اور مَدْحُور ہو کر ‘ یعنی ملامت زدہ (condemned) اور دھتکارے ہوئے جہنم میں جھونک دیے جاؤ گے.اس لیے کہ تم شرفِ انسانیت سے تہی ہو گئے ہو. اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تم اس منصب اور اس مقام و مرتبے سے اپنے آپ کو محروم کر چکے ہو. اگر تم نے توحید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا تو اب تمہارا مصرف اورمقام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تمہیں جلایا جائے اور ابدالآباد تک نارِ جہنم میں جھونک دیاجائے.
اَفَاَصۡفٰىکُمۡ رَبُّکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنَاثًا ؕ ’’کیا تمہارے ربّ نے تمہیں تو چُن لیا ہے بیٹوں کے لیے اور خود فرشتوں کی صورت ہیں بیٹیاں اختیار کر لی ہیں!‘‘جیسا کہ عرض کیا جا چکا‘ شرک کی ایک شکل‘ جو اُس معاشرے میں موجود تھی‘ یہ تھی کہ بنی اسماعیل‘ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ تو مزاح کے انداز میں بھی تنقید کی گئی اور کچھ زجر‘ جھڑکی اور ڈانٹ کے انداز میں اظہارِ ناراضگی بھی فرمایا گیا کہ کیا تمہارے ربّ نے تمہیں تو چُن لیا ہے بیٹوں کے لیے؟ اگر بیٹی ہو جائے تو تم شرمائے رہتے ہو‘ منہ چھپائے پھرتے ہو اور تم اس فکر میں ہوتے ہو کہ اسے کہیں گڑھے میں دفن کر آؤ اور جلد سے جلد اس عار اور بدنامی سے کسی نہ کسی طرح رستگاری اور چھٹکارا حاصل کر لو. اور خدا کے لیے تم نے بیٹیاں ٹھہرائی ہیں؟ تمہاری یہ تقسیم بڑی بھونڈی تقسیم ہے. جیسا کہ سورۃ النجم میں آیا ہے : اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۱﴾تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۲﴾ ’’کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں؟ یہ تقسیم تو بڑی ہی نامنصفانہ ہے!‘‘ یہ تو بڑی ہی عجیب تقسیم ہے جو تم نے کی ہے. لیکن اب مزاح کا معاملہ ختم ہوا ‘ اور اس کے بعد فرمایا: اِنَّکُمۡ لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ ’’یقینایہ بہت بڑی بات ہے جو تم کہہ رہے ہو‘‘. یہی انداز اگلی سورت یعنی سورۃ الکہف میں نصاریٰ کے ذکر میں آتا ہے : .....وَّ یُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ٭﴿۴﴾مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمۡ ؕ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا ﴿۵﴾ ’’… اور اُن کو ڈرائے جو کہتے ہیں اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے. اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو. بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے. وہ محض جھوٹ بولتے ہیں‘‘. یعنی بہت بڑی بات ہے جو اُن کے منہ سے نکل رہی ہے . وہ جھوٹ بول رہے ہیں . ان کے اس قول کے اندر کوئی صداقت نہیں ہے. اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے. یہ سرتاسر جھوٹ‘ تہمت اور بہتان ہے. اس پر یہ آیاتِ مبارکہ ختم ہو رہی ہیں.
واقعہ یہ ہے کہ ان اٹھارہ آیات میں ایک صالح تمدن‘ نیک اور صحت مند معاشرہ یا یوں کہہ لیجیے کہ اسلامی معاشرہ‘ اسلامی سوسائٹی اور اسلامی رہن سہن کا بڑا جامع نقشہ سامنے آ گیا ہے. تاہم اجتماعیت کی وہ سطح جبکہ ملی و ملکی اور سیاسی مسائل سامنے آئیں‘ ذرا بلند تر سطح ہے‘ ان سے بحث اِن شاءَ اللہ اگلے درس میں ہو گی. اس سطح پر سورۃ الحجرات اجتماعیت کے ضمن میں قرآن مجید کی ہدایت کا ایک بڑا جامع مرقع ہے اور اسی پر ہمارا آئندہ درس مشتمل ہو گا. یہاں اس سے کم تر یعنی سماج‘ معاشرے‘ سوسائٹی کی سطح پر اسلام کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا‘ کن چیزوں کو پروان چڑھانا چاہتا ہے اور کن چیزوں کا استیصال اسے منظور ہے‘ اس کا ایک بڑا جامع نقشہ سامنے آ گیا ہے.
وآخر دعوانا ان الحَمد للہِ ربّ العالمینoo