غزوۂ بدر سے پہلے حضورﷺ نے ایک مجلسِ مشاورت منعقد کی تھی کہ قریش کاایک قافلہ شمال سے مالِ تجارت سے لدا پھندا آ رہا ہے جس کے ساتھ صرف چالیس یا پچاس محافظ ہیں‘ جبکہ کیل کانٹے سے لیس ایک مسلح لشکر جنوب سے آ رہا ہے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان دو میں سے ایک پر تمہیں ضرور فتح عطا فرما دے گا. بتاؤ‘ کدھر چلیں؟ کچھ ہم جیسے کمزور لوگ بھی موجود تھے‘ انہوں نے کہا کہ حضور! قافلے کی طرف چلیں‘ تھوڑے سے آدمی ہیں‘ ان پر ہم آسانی سے قابو پا لیں گے‘ مالِ غنیمت بہت ہاتھ آ جائے گا‘ اور ہتھیار بھی ملیں گے‘جن کی ہمیں اشد ضرورت ہے. لیکن حضورﷺمزید مشورہ طلب فرماتے رہے. تب صحابہ کرام ؓ نے اندازہ کیا کہ حضورﷺ کا اپنا رجحانِ طبع کچھ اور ہے. چنانچہ اس مرحلے پرپہلے مہاجرین نے تقریریں کیں کہ حضورؐ ! آپؐ ہم سے کیا پوچھتے ہیں‘ جو آپؐ کا حکم ہو ہم حاضر ہیں. حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے تقریریں کیں ‘ لیکن حضورﷺ نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے حضورﷺ کسی خاص بات کے منتظر ہیں. مہاجرین میں سے ہی حضرت مقداد بن اسود ؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ’’حضورؐ جو آپ کا ارادہ ہو بسم اللہ کیجئے‘ ہمیں حضرت موسٰی ؑ کے ساتھیوں پر قیاس نہ کیجئے جنہوں نے اپنے نبی ؑ سے یہ کہہ دیاتھا کہ ’’اے موسٰی ؑ آپ اور آپ کا رب دونوں جائیں اور جاکر جنگ کریں‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپؐ ‘ کو ہمارے‘ذریعے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما دے. لیکن حضورﷺ اب بھی انتظار کی کیفیت میں تھے.
اب حضرت سعدؓ بن معاذ کو خیال آیا کہ رسول اللہﷺ کا روئے سخن دراصل انصار کی جانب ہے. بیعت عقبہ ثانیہ میں طے یہ ہوا تھا کہ اگر قریش آپﷺ کا پیچھا کرتے ہوئے مدینے پر حملہ آور ہوئے تو ہم آپؐ کی اس طرح حفاظت کریں گے جیسے اپنے اہل و عیال کی کرتے ہیں. لیکن صورتِ واقعہ یہ تھی کہ قریش نے مدینے پر حملہ نہیں کیا تھا اور حضورﷺ خود باہر نکل کر تصادم کا آغاز کر چکے تھے ‘ لہذا انصار اس معاہدے کی رو سے مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کے پابند نہیں تھے. حضرت سعدؓ ‘کو فوراً خیال آ گیا کہ ہو نہ ہو حضورﷺ ہماری تائید کے منتظر ہیں. چنانچہ حضرت سعدؓنے کھڑے ہو کر عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ !معلوم ہوتا ہے آپؐ ‘کا روئے سخن ہماری جانب ہے. ا ب دیکھئے کس قدر عمدہ جملہ کہا : فَاِنَّا آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ یعنی حضور! ہم آپؐ پر ایما ن لا چکے ہیں اور ہم نے آپؐ ‘کی تصدیق کی ہے. ہم نے آپؐ ‘کو اللہ کا نبی اور رسول مانا ہے. اب ہمارا اختیار کہاں رہا؟ آپؐ جوبھی حکم دیں گے ‘سر آنکھوں پر! آپؐ ‘ ہمیں جہاں بھی لے جانا ہو لے چلئے. خدا کی قسم‘ اگر آپؐ ‘ ہمیں اپنی سواریاں سمندر میں ڈالنے کا حکم دیں گے تو ہم ڈال دیں گے…!
توحضورﷺ کوکسی کی بیعت کی ضرورت نہیں تھی‘ آپﷺ تو اللہ کے نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے مطاع تھے لیکن اس کے باوجود آپؐ نےبیعت کیوں لی؟ اس لیے کہ آئندہ کوئی مسلمان جماعت بنانے کے لیے انگریزوں سے‘ روسیوں سے یا جرمنوں سے کوئی طریقہ مستعار نہ لیتا پھرے‘ بلکہ جماعت بنانے کے لیے وہ بنیاد اختیار کرے جو میں چھوڑ کر جارہاہوں.