پیش نظر کتاب میں میری تین تقریریں جمع کر دی گئی‘جو ابتداء کیسٹ کے ٹیپ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر کے جوں کی توں ’’میثاق‘‘ کی مختلف اشاعتوں میں شائع کر دی گئی تھیں.
ان میں سے پہلی تقریر ۱۷ مارچ ۱۹۹۵ ء کو جامع مسجد دارالسلام‘باغ جناح لاہور میں کی گئی تھی اور پھر پہلے تو ٹیپ سے اتار کر ’’میثاق‘‘ بابت اپریل ۹۵ ء میں شائع کر دی گئی تھی‘اور بعدازاں وسیع پیمانے پر اشاعت اور بلاقیمت تقسیم کے لیے تنظیم اسلامی نے ’’پاکستان میں شیعہ سنی مفاہمت کی اہمیت اور اس کے لیے مؤثر اور ٹھوس اساس‘‘ کے نام سے کتاچے کی صورت شائع کی تھی.
دوسری تقریر میں نے یکم نومبر ۹۶ء کو اسی مقام پر‘اپنے اواخر اکتوبر میں سفر ایران سے واپسی پر کی تھی جو دسمبر ۹۶ ء کے ’’میثاق‘‘ میں طبع ہوئی تھی.
اب ان تینوں کو مضمون کے اشتراک کی بنا پر یکجا شائع کیا جا رہا ہے.
مارچ ۹۵ء اور نومبر ۹۶ء کے دوران دو اہم واقعات ظہور پذیر ہوئے جن کا ان تقریروں سے براہ راست تعلق ہے.
ایک یہ کہ جب میں نے ۱۷ مارچ ۹۵ کی تقریر میں پیش کردہ مصالحتی فارمولے پر تحریک جعفریہ پاکستان کے قائد جناب سید ساجد نقوی سے گفتگو اور ملاقات کے لیے وقت مانگا تو انہوں نے کرم فرمایا کہ خود ہی اپنے چند رفقاء کے ہمراہ مجھ سے ملنے کے لیے اسلام آباد میں میری قیام گاہ پر تشریف لے آئے. یہ ان کی بہت بڑی مہربانی تھی جس کے لیے میں ان کا تو ممنون ہوں ہی‘اس کے لیے جو کوشش اور سفرِ اسلام آباد کی جو زحمت جناب سید ہادی علی نقوی نے برداشت کی اس کے لیے ان کا بھی خاص طور پر شکر ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں… اور اگرچہ اس ملاقات سے فوری طور پر کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہوا‘لیکن انگریزی محاورے کے مطابق ’’برف ٹوٹ ہی گئی‘‘. ان شاء اللہ آئندہ رابطے سے بہتر نتائج بھی حاصل ہو جائیں گے.
اس سے بھی بہت اہم تر واقعہ یہ پیش آیا کہ نومبر ۱۹۹۵ء میں حکومت ایران کے ایک اہم محکمے ’’ثقافت و علاقات اسلامیہ‘‘ کے تحت قائم ہونے والے ادارے ’’المجمع العالمی للتقریب بین المذاھب الاسلامیہ‘‘ کے سربراہ جناب آیت اللہ محمد واعظ زادہ لخراسانی پاکستان کے دورے پر آئے تو ازراہ کرم مجھ سے ملاقات کے لیے قرآن اکیڈمی بھی تشریف لائے. ان کے ذریعے مجھے یہ معلوم ہوا کہ نہ صرف یہ کہ موجودہ ایرانی قیادت کا طے شدہ موقف وہی ہے جو میں نے مارچ ۹۵ء کی تقریر میں ’’ڈرتے ڈرتے‘‘ پیش کیا تھا‘اور جس کے بارے میں ہر جانب سے یہی صدا سننے میں آئی تھی کہ اسے اہل تشیع کبھی تسلیم نہیں کریں گے… بلکہ بعینہٖ یہی موقف قائد انقلاب ایران جناب آیت روح اللہ خمینی مرحوم کا بھی تھا. اپنی معلومات میں اس اضافے پر میں حیرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات سے سرشار ہو گیا… اور میں نے اس کی توثیقِ مزید اور ’’علیٰ رؤس الاشہاد‘‘ اعلان کے لیے محترم واعظ زادہ صاحب کو قرآن کالج میں اسی موضوع پر خطاب کی دعوت دی جو انہوں نے بکمال لطف و کرم منظور کر لی . چنانچہ انہوں نے وہاں مجمع عام میں اپنے اور ایرانی قیادت کے اس موقف کو علی الاعلان فارسی میں بیان کیا جس کا اردو ترجمہ ہم نے مجلہ ’’ندائے خلافت‘‘ کی ۱۹ دسمبر ۹۵ء کی اشاعت میں شائع کر دیا. اور اب اسے میری ۱۷ مارچ ۹۵ء والی تقریر کے ساتھ بطور ’’ضمیمہ‘‘ شائع کیا جا رہا ہے. (جناب واعظ زادہ خراسانی صاحب کے فارسی خطاب کا ترجمہ جامعہ پنجاجب کے شعبہ فارسی سے وابستہ قابل احترام استاد جناب شیخ نوازش علی صاحب کی کاوش کا مرہون منت ہے‘جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں.)
بہر حال اس ؏ ’’متفق گرید رائے بو علی بارائے من!‘‘ کے انکشاف نے جہاں ایک جانب مقامی طور پر میری حوصلہ افزائی کی‘اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں میری امید و بیم کا توازن امید کی جانب بڑھا دیا‘وہاں دوسری جانب یہی چیز میرے اکتوبر ۹۶ء کے دورۂ ایران کا سبب بن گئی.
اس کتاب میں شامل میری دوسری تقریر‘جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘سفر ایران سے واپسی کے فوراً بعد نومبر ۹۶ء میں کی گئی تھی. لہٰذا عزیزم ڈاکٹر عبدالخالق کی لکھی ہوئی اس سفر کی مختصر روداد کو اس کے ’’مقدمے‘‘ کے طور پر شامل اشاعت کیا جا رہا ہے.
تیسری تقریر اگرچہ زمانہ اعتبار سے تو دوسری سے مقدم تھی‘اس لیے کہ ۱۱ اکتوبر کو سفر ایران سے متصلاً قبل کی گئی تھی. لیکن یہ چونکہ ایک ایسے موضوع سے متعلق ہے جس کے ضمن میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین کچھ امور مابہ الاشتراک بھی ہیں‘اور ایک اہم بات اختلافی بھی‘لہٰذا اسے ایک مستقل حیثیت حاصل ہے. چنانچہ اسے کتاب کے آخر میں رکھا گیا ہے.
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری اس کاوش کو پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی مساعی کو تقویت کا ذریعہ بنا دے. ومَاذٰلک علی اللّٰہ بعزیز .
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۲۶ جنوری ۱۹۹۷ء
مطابق ۱۵ ؍ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ