شیعہ سُنی مسئلے کا چوتھا پہلو

اب میں اس مسئلہ کے بُعدِ رابع (4thdimnesion) کی طرف آتا ہوں جس کے بارے میں میں نے کہا تھا کہ وہ غیر مرئی (invisible) ہے. اور یہ غیر مرئی پہلو صرف اسے نظر ائے گا جس کی آنکھ ع ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘ کا مصداق ہو بلکہ میرے نزدیک جس کی آنکھ میں کتاب و سنت کا سرمہ لگ ہوا ہو‘جبکہ باقی تین پہلو تو ایسے واضح ہیں جو اندھے کو بھی نظر آجائیں او یہ چوتھا پہلو یا بُعدِ رابع احادیث نبوی میں وارد پیشینگوئیاں اور خوشخبریاں یا تنبیہات ہیں. یہادیوں کے ہاں سے ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کے نام پر جو عظیم طوفان اٹھنے والا ہے اس کے پیش نظر ’’المسیح الدجال‘‘ کا ظہور اب شاید کچھزیادہ دور نہیں ہے. اس کے بارے میں بھی میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں. مذہبی یہودیوں اور سیکولر یہودیوں کے مابین میں نے جس اختلاف کا ذکر کیا ہے اس کے حوالے سے یہ بھی بتاتا چلوں کہ پچھلے دنوں میں امریکہ میں تھا تو وہاں مذہبی یہودیوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کے سامنے ایک بہت بڑا مظاہرہ خود اسرائیل کی حکومت کے خلاف کیا تھا. اس مظاہرے میں بڑی کثیر تعداد میں بنیاد پرست مذہبی یہودی شریک ہوئے جو اپنی داڑھیوں اور سیاہ شیراونیوں کی طرح کے لمبے لمبے کوٹوں سے ایسے لگتے تھے جیسے بڑے متشرع مسلمان ہوں‘سوائے اسک ے کہ ان کی زلفوں کا ایک خاص انداز ہے اور اگر وہ نہ ہو تو ہمیں تو وہ بڑے ’’مرد مومن‘‘ نظر آئیں. یہ مظاہرہ اس لیے ہوا کہ اس وقت کی حکمران پارٹی سیکولر اور صیہونی ذہن کے لوگوں پر مشتمل ہے‘جو یہ چاہتے ہیں کہ خواہ مخواہ عظیم تر اسرائیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘جب یہ پورا علاقہ ہمارے معاشی تلسط میں آجائے گا تو پھر تمہیں آم کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے سے؟ لیکن بنیاد پرست یہودی اس پر مصر ہیں کہ ہماری ارضِ موعود ہمیں ملنی چاہیے اور عظیم تر اسرائیل قائم ہونا چاہیے. اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر بھی عظیم تر اسرائیل کا نقشہ موجود ہے اور یہودیوں کے لیے اس سے انحراف کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے. لہٰذا عظیم تر اسرائیل کے قیام کے لیے مسیح دجال کا خروج اب کوئی دن کی بات ہے‘یہ چند سالوں میں بھی ہو سکتا ہے.

اس وقت سیکولر یہودی نے مذہبی یہودیوں کو ایک رشوت یہ دی ہے کہ وہ انہیں باور کرا رہے ہیں کہ ہم یروشلم پر قبضہ برقرار رکھیں گے. اگرچہ ہم نے سنائی‘جریکو وغیرہ کے علاقے واپس کر دیے ہیں اور اگر ہمیں شام بھی تسلیم کر لے تو ہم بولان کی پہاڑیاں بھی دینے کو تیار ہیں‘اگر اس پورے علاقے پر ہمارا معاشی تسلط قائم ہو جائے تو ہم تلچھٹ اور لسی انہیں پلائیں گے اور ملائی اور مکھن خود کھائیں گے‘لیکن ہم یروشلم کسی قیمت پر واپس نہیں کریں گے‘یہ ہمیشہ کے لیے ہمارا صدر مقام ہو گا اور اس میں ہم ہیکل سلیمانی تعمیر کریں گے. اور آئندہ کے ’’ہالوکاسٹ‘‘ کا نقطۂ آغاز یہی ہو گا کہ صہیونیوں کو مذہبی یہودیوں کی خدمت میں یہ رشوت پیش کرنا پڑے گی کہ مسجد اقصیٰ کو کسی بہانے سے گرا کر وہاں ہیکلِ سلیمانی تیسری مرتبہ تعمیر کریں. اور جب یہ ہو گا تو عالمِ عرب میں سے دردمند مسلمان بے چین اور بے تاب ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کے بعد انہیں بھوننے والے یہی امریکہ کے ایجنٹ ہوں گے جو ان کے حکمران بن کر بیٹھے ہوئے ہیں. لیکن جب یہ معاملہ اور آغے بڑھے گا تو کوئی یہودی کھڑا ہو کر یہ اعلان کر دے گا کہ میں ہوں وہ ’’المیسح‘‘ جس کے تم منتظر ہو. مسیح علیہ السلام کی آمد کی پیشینگوئی بہت سے انبیاء نے دی تھی کہ اگر یہودی ان پر ایمان لے آئے تو وہ ان کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوں گے. لیکن جب وہ مسیح ؑ بالفعل آ گئے تو یہودیوں نے انہیں نہیں مانا‘بلکہ انہیں واجب القتل قرار دے کر اپنے بس پڑتے انہیں سولی پر چڑھا دیا. یہ الگ معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا. اب یہود کے نزدیک ان کے مسیح موعود جگہ ابھی خالی ہے‘لہٰذا ان میں سے کوئی بدبخت ’’مسیح‘‘ ہونے کا دعویدار بن کر کھڑا ہو جائے گا اور اعلان کرے گا کہ وہ گریٹر اسرائیل قائم کر کے رہے گا. وہ دراصل ’’المسیح الدجال‘‘ ہو گا. ’’جال‘‘ فریبی اور 
impostor کو کہتے ہیں. اصل مسیح ؑ تو وہ تھے جو ان کی طرف مبعوث کیے گئے‘لیکن انہوں نے ان کی تکذیب کی اور ان کے قتل کے درپے ہو گئے اور وہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے‘اور ’’المسیح الدجال‘‘ مسیح ہونے کا جھوٹا دعویدار ہو گا. اس کے بعد وہ سارے حالات و واقعات پیش آئیں گے جن کی پوری تفصیل احادیث میںآئی ہے. میں نے ان احادیث ے متن اور حوالہ جات اپنی کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی‘حال اور مستقبل‘‘ میں دے دیے ہیں.

ہندوستان کے ایک عالم دین جناب اسرار عالم کا ایک مضمون تازہ میثاق (بابٹ فروری‘مارچ ۱۹۹۵ء) میں شائع ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہودی کا مالیاتی نظام کیا ہے. انہی کا ایک دوسرا مضمون ندائے خلافت میں بھی دو قسطوں میں شائع ہوا ہے. اب یہ ساری چیزیں طشت ازبام ہو چکی ہیں‘اگرچہ اب ان کے جاننے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں‘یہودیوں نے جو کرنا تھا وہ کر چکے. اب یہ ساری چیزیں عام بھی ہو جائیں تو ہم کیا کر لیں گے؟ البتہ اس کے بعد کی خبریں یہی ہیں کہ عالم عرب کے اندر بھی اللہ تعالیٰ حضرت مہدی جیسے عظیم رہنما پیدا کرے گا اور پھر ان کی مدد کے لیے اور المسیح الدجال کے قتل کرنے کے لیے اصل مسیح (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو اللہ تعالیٰ آسمانوں سے دوبارہ بھیجے گا. حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہمارے ہاں متفق علیہ ہے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے. حضرت مسیح ؑ کی آمد کے بعد ان کی مدد کے لیے زمینہ طور پر بلادِ مشرق سے لشکر چلیں گے اور یہ وہی مشرق ہے جس میں مَیں اور آپ آباد ہیں‘جس میں افغانستان بھی ہے اور ترکستان بھی. اس مضمون سے متعلق مندرجہ ذیل دو حدیثوں کو میں نے بہت عام کیا ہے. 

(۱) حضرت عبداللہ بن الحارث علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

یَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ المَشْرِق یوطوون للمھدی یعنی سلطانہ 

’’یعنی مشرق سے کچھ لوگ نکلیں گے جو دشمنوں کو پامال کرتے ہوئے مہدی کی حکومت کو قائم کرنے کے لیے پہنچیں گے.

یہاں میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کے ہاں مہدی کا جو تصور ہے اس میں فرق ہے. اہل سنت کے نزدیک مہدی ایک لیڈر ہوں گے جن کی عام انسانوں کی طرح والادت ہو گی. وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسل سے ہوں گے. ہمارے ہاں ان کی خبر بڑی مصدقہ احادیث میں دی گئی ہے. اور اس کے لیے بھی سعودی عرب میں سٹیج تیار ہو چکا ہے. شاہ فہد اب شاید سعودی خاندان کے آخری بادشاہ ہوں‘اور ان کے بعد بڑی شدت سے انتشار کا ندیشہ ہے. اس لیے کہ اس وقت جو ولی عہد ہے وہ 
امریکہ کو پسند نہیں‘لہٰذا وہ کسی اور کو لانا چاہے گا اور اس اعتبار سے وہاں کا معاملہ بہت طوفانی ہو جائے گا. بہرحال مہدی مسلمانوں کے لیڈر ہوں گے جو یہودیوں سے دجال سے مقابلہ کریں گے اور عرب کے اندر ایک مستحکم اسلامی ریاست اور حکومت قائم کریں گے. ان کے لیے ایک طرف آسمانی مدد حضرت مسیح ؑ کی شکل میں آئے گی جو مسیح دجال کو قتل کریں گے اور دوسری طرف زمینی مدد کے طور پر مشرق سے فوجیں آئیں گی. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرق میں پہلے سے کوئی نظام قائم ہو چکا ہو گا. یہی وہ بات ہے جو علامہ اقبال نے بایں الفاظ کہی ہے : ؎ 

میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے‘میرا وطن وہی ہے


(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

یَکرج من خراسان رأیاتُ سود‘لایردھاشَی ئٌ حتی تُنصَبَ بِایِلیائ 
’’یعنی خراسان سے سیاہ علم برآمد ہوں گے اور وہ پیش قدمی کرتے ہوئے چلے جائیں گے‘کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکے گا‘یہاں تک کہ وہ ایلیا میں جا کر نصب جائیں گے.‘‘

اس حدیث میں دو لفظ ’’ایلیائ‘‘ اور ’’خراسان‘‘ وضاحت طلب ہیں. ’’ایلیاء‘‘ رسول اللہ کے زمانے میں یروشلم کا نام تھا. ۷۰ عیسوی میں رومی جرنیل ٹائٹس نے یروشلم کو تباہ کر دیا تھا. اس کے کئی سو سال کے بعد ہیڈ ریان بادشاہ نے اسے دوبارہ آباد کیا اوراس کا نام بھی بدل کر ایلیا رکھ دیا. حضور کے زمانہ تک اس کا نام ایلیا ہی تھا. 

حضور کے زمانے میں ’’خراسان‘‘ افغانستان کے پورے علاقے اور ترکستان‘ایران اور پاکستان کے بعض علاقوں پر مشتمل خطے کا نام تھا. میں امریکہ میں ایک کتاب میں اپنی آنکھوں سے حضور کے زمانے کا نقشہ دیکھ کر آیا ہوں جس میں اس پورے علاقے کو خراسان ظاہر کیا گیا ہے. ایرانی قونصلیٹ سے کچھ حضرات میرے پاس آئے تو میں نے ان سے بھی اس خراسان کا تذکرہ کیا. اس پر انہوں نے بھی کہا کہ ’’خراسانِ بزرگ‘‘ وہ قدیم خراسان ہے جو اس پورے علاقے پر مشتمل ہے. افغانستان اس کے قلب میں واقع ہے‘جس کے اردگرد ایران‘پاکستان اور ترکستان کے علاقے. یہ محمدٌ رسول اللہ کی وہ خوشخبریاں ہیں جن کے ہوتے ہوئے مجھے تو سرے سے کوئی اشتباہ نہیں نے کہ یہ سب کچھ وقوع پذیر ہو گا. البتہ اس کے لیے ہمیں مفاہمت کا قدم اٹھانا پڑے گا. اگر شیعہ سُنّی مفاہمت نہیں ہوتی تو اس کی طرف پیش رفت نہیں ہو پائے گی.