دوسرا گروہ اہل کتاب کا تھا‘ جس میں نصاریٰ بھی تھے اور یہودی بھی. یہ ایک ہی کتاب کے ماننے والے تھے ‘ کم از کم Old Testament تو دونوں میں مشترک تھی‘اختلاف تو صرف New Testament پر ہو سکتا ہے جو چھوٹی سی ہے. پھر یہ دونوں موسیٰ علیہ السلام اور شریعت موسوی کے ماننے والے تھے. عیسائیوں میں اگرچہ حضرت مسیحؑ کے بعد سینٹ پال نے شریعت ساقط کر دی تھی ‘لیکن اُس وقت جب قرآن نازل ہوا ابھی وہ لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے اس کو ساقط نہیں ماناتھا. اس کے بعد تو پھر سارے فرقے ختم ہوتے چلے گئے اور عیسائیت میں صرف پال کے ماننے والے ہی رہ گئے. اب جتنے عیسائی ہیں وہ اصل میں ’’پالسٹ‘‘ ہیں‘کرسچین نہیں ہیں. وہ اگر اپنے لیے کرسچین کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں. اب اہلِ کتاب کے ان دونوں گروہوں کے بارے میں اس حوالے سے تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپؐ کی بات کیا مانیں گے ‘ ان کا تو آپس میں سر پھٹول ہے‘ اپنی سیادت و قیادت کا جھگڑا ان کو مل کر بیٹھنے نہیں دے رہا. یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ میں یہ ساری تفسیر تأویل خاص کے اعتبار سے کر رہا ہوں‘ یعنی جس ماحول میں یہ آیات نازل ہوئیں اس کے اعتبار سے ان کا مفہوم کیا ہے. اگرچہ ہم ان سے استنباط کریں گے ‘ انہیں‘ generalize بھی کریں گے کہ ؎
حقیقت ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
بات وہی رہتی ہے‘ لیبلز بدلتے ہیں‘ آج آپ کو اپنے ہاں یہ سب مثالیں مل جائیں گی. آپ کے جو عوام کالانعام ہیں‘ ان کی اکثریت بدترین شرک کے اندر مبتلا ہے. ان کے لیے تو بڑا بھاری ہے اپنے عرس چھوڑ دینا‘ اور قبروں پر جا کر جو کچھ کر رہے ہیں اس کو چھوڑ دینا .یہ کوئی آسان کام ہے؟ یہ ان کا مکمل دین بنا ہوا ہے. پھر جو اس طرح کی خرافات میں مبتلا نہیں ہیں وہ آپس کے سرپھٹول کا شکار ہیں .تو آپ الفاظِ قرآنی کو ہر دَور کے انسانوں پر منطبق کر سکتے ہیں‘ اس لیے کہ وہی ساری کیفیات رہیں گی‘ اس دنیا کی سٹیج پر ہر وقت وہی ایکٹرز رہیں گے‘ منافق بھی رہیں گے اور مؤمن صادق بھی رہیں گے. ہرچہ بادا باد والے بھی ہوں گے اور وہ بھی رہیں گے کہ جن کی گاڑی قدم قدم پر‘ knocking کرتی ہے‘جو مذبذب رہتے ہیں کہ چلیں کہ نہ چلیں؟ روشنی ہوئی تو کچھ چل لیے‘ تاریکی ہو گئی تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے‘ اس لیے کہ اندر کا نور تو ہے ہی نہیں. اب یہ جو کیفیات اس وقت تھیں اب بھی ہیں. اسی طریقے سے جو مشرکین کی دُوری تھی وہ اب بھی ہے.
باقی رہ گئے یہ اہل کتاب تو ان کے بارے میں جان لیجیے کہ وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ ’’انہوں نے جو تفرقہ کیا وہ اس کے بعد کیا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا‘ اور اس بناء پر کیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے‘‘. سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا ہے: وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ (آیت ۱۱۳) ’’یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں (ان کا کوئی مقام نہیں ہے ‘کوئی حیثیت نہیں ہے) اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ جبکہ دونوں ایک ہی کتاب کے پڑھنے والے ہیں!‘‘ ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں اور پھر حال یہ ہے! البتہ مسلمانوں کے مقابلے میں آ کر وہ جمع ہو جاتے تھے‘ آپس میں جو سرپھٹول تھا وہ اپنی جگہ برقرار تھا. تَحۡسَبُہُمۡ جَمِیۡعًا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ شَتّٰی ؕ (الحشر:۱۴) ’’تم سمجھتے ہو (اے مسلمانو!) کہ یہ جمع ہیں‘ حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں‘‘. یہ جمع کہاں ہیں! یہ تو صرف ’’بغض معاویہ‘‘ میں جمع ہوئے ہیں ‘ ان کے مابین کوئی ’’حبّ علی ‘‘نہیں ہے جو اِن کو جمع کر رہی ہے. وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ان میں جو تفرقہ رونما ہوا وہ ان کے پاس علم کے آنے کے بعد ہوا. اب دیکھئے اس میں ایک لطیف بات سامنے آ گئی. ان مشرکین کے پاس تو علم آیا نہیں‘اس لیے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد سے محمدٌ رسول اللہﷺ تک کوئی نبوت نہیں‘ کوئی کتاب نہیں‘ کوئی شریعت نہیں. اور یہ جو اہل کتاب ہیں یہ تو علم کے ٹھیکے دار ہیں‘ ان میں ایک سے ایک بڑا علامہ بیٹھا ہوا ہے‘ ان کے ہاں ایک سے ایک بڑا کتاب کا جاننے والا‘ ایک سے ایک بڑا قاری اور ایک سے ایک بڑا مفتی موجود ہے. پھر یہ تفرقہ کیوں ہے؟ تو معلوم ہوا کہ تفرقے کا سبب کچھ اور ہوتا ہے‘ لاعلمی نہیں ہوتی. یہ من جو پاپی ہوتا ہے‘ یہ کسی اور سبب سے ہوتا ہے. حق کو جاننے کے باوجود انسان اسے ٹھکراتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ وہ ہے بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ یعنی آپس کی ضدم ضدا. یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ ان کے تفرقہ کی وجہ آپس کی ضدم ضدا ہے کہ یہ کیوں آگے بڑھ جائے‘ میں کیوں پیچھے رہ جاؤں؟ اس میں کیا سرخاب کا پر ہے؟ ہماری سیادت و قیادت مسلّمہ ہے‘ لوگ آ کر ہمارے ہاتھ چومتے ہیں اور ہماری جوتیاں سیدھی کرتے ہیں. یہ کہاں سے آ گیا دین کا نام لینے والا اور دین کا علم بردار؟ یہ ہے اصل مسئلہ!
وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ ’’اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے ایک وقت معین کا فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو ان کا قضیہ چکا دیا جاتا‘‘. یعنی ان یہود اور نصاریٰ کے مابین فیصلہ کر دیا جاتا‘ لیکن فیصلہ کرنے کا ابھی یہ وقت نہیں ہے‘ ہم نے تو مہلتِ عمل دی ہوئی ہے‘ امتحان کا دور ہے‘ اس دنیا میں ہر شخص جو کماتا ہے کما لے‘ جسے خیر بنانا ہے خیر بنائے‘ جسے شر کی گٹھڑیاں باندھ کر اپنے سر پر اٹھانی ہیں وہ انہیں تیار کر لے. لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ (الانفال:۴۲) ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے‘‘. لہذا یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے ہم نے انہیں چھوٹ دی ہوئی ہے‘ ورنہ ان کا قصہ ہم ابھی چکا دیتے.