اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم … بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ کَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ ﴿٪۱۴﴾ (الصّف)

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ...... الآیۃ (الفتح:۲۹)

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾ (التوبۃ)

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللّٰہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ (الفتح) 

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا 
فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾ (الفتح)

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾ (المُمتحنۃ) … صدق اللہ العظیم

وَعَنْ عُبَـادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلَی اَثَـرَۃٍ عَــلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا‘ لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ (۱

وفی روایۃ :
وَ اَنْ لَا نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اللہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ (۲)

قرآن مجید کے اس سلسلۂ درس میں ہم قرآن حکیم کی کچھ اُن آیات اور اُن مقامات کا مطالعہ کر رہے ہیں جن میں اُس ہیئت اجتماعیہ کے مختلف پہلوؤں کے ضمن میں رہنمائی وارد ہوئی ہے جو اقامت ِدین‘ غلبۂ دین یا تکبیر ربّ کی جدوجہد کے لیے قائم ہو. اس اجتماعیت کا ایک پہلو ہمارے سامنے آ چکا ہے کہ اس میں جو لوگ شریک ہوں ان کے مابین کیا رشتۂ اخوت‘ کیسا رشتۂ محبت اور کس نوعیت کی نسبتِ ولایت درکار ہے. اب اس اجتماعیت کی اصل جڑ اور بنیاد کے بارے میں ہمیں غور و فکر کرنا ہے اور وہ ہے اس کا ایک ڈسپلن‘ یعنی نظم جماعت .اس نظم جماعت کے وجود میں آنے کی (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام‘ باب کیف یبایع الامام الناس. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ. الفاظ صحیح مسلم کے ہیں. 

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الفتن‘ باب قول النبی سترون بعدی اموراً تنکرونھا . وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ… اساس‘ اس کی بنیاد‘ اس کی جڑ کیا ہو؟ ڈسپلن کے حوالے سے ایک نسبت امیر اور مأمور کے مابین قائم ہوتی ہے . امیر اور مأمور کی یہ نسبت اسلام میں دو طرح سے وجود میں آتی ہے. ایک تو ہیئت سیاسیہ کے ضمن میں‘ جب حکومت کی تشکیل ہوتی ہے کہ جو بھی والی ٔ امر‘ یعنی والی ٔ حکومت یا مسلمانوں کا امیر ہے اس کے اور اس ریاست کے شہریوں کے مابین ایک نسبت ہے. اور اس کی ایک دوسری صورت اس جماعت کے نظم کے اعتبار سے ہے جو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم ہو‘ یعنی اس کے امیر اور وہ لوگ جو اِس جدوجہد میں شریک ہیں ان کے مابین امیر اور مأمور کی ایک نسبت قائم ہوتی ہے. اس وقت ہم درحقیقت اس دوسری نوعیت کی نسبت کے بارے میں غور کر رہے ہیں. 

اس کے ضمن میں سورۃ الصف کی آخری آیت میں ہمیں ایک رہنمائی مل چکی ہے کہ یہ نسبت کیسے وجود میں آتی ہے. کوئی اللہ کا بندہ اٹھ کر ایک آواز لگاتا ہے. جب تک نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری تھا وہ نبی یا رسول ہوتا تھا‘ وہ لوگوں کو پکارتا تھا‘ وہ مأمور من اللہ بن کر آتا تھا ‘اور اس کے ساتھ علیحدہ سے کوئی عہد کرنا اور دستوری رشتے میں منسلک ہونا ضروری نہیں تھا‘ بلکہ محض اس پر ایمان لے آنے سے وہ نسبت وجود میں آجاتی تھی. البتہ اقامتِ دین کی جدوجہد میں جس ایثار و قربانی اور جس طرح تن من دھن لگانے کا ایک تقاضا ابھرتا تھا اس کے حوالے سے ان کے مابین ایک صورت یہ بھی ہوتی تھی کہ وقت کا نبی یا وقت کا رسول کسی وقت خاص طور پر ایک صدا لگاتا تھا کہ : 
مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ؟ ’’کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں؟‘‘ چنانچہ یہ الفاظ جب سورۂ آل عمران (آیت ۵۲) میں آئے ہیں تو وہاں اس سے پہلے الفاظ یہ ہیں کہ فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ یعنی جب عیسٰی علیہ السلام نے ان لوگوں کی طرف سے کفر کی شدت کا احساس کیا. معلوم ہوا کہ اب مقابلہ شدید ہونے والا ہے‘اب ایک تصادم کی صورت پیدا ہونے والی ہے قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ تو انہوں نے ایک صدا لگائی کہ کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚحواریوں نے اس کا جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار! ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں. 

اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ایک نسبت ان کے مابین قائم ہو چکی تھی اور وہ نسبت درحقیقت ایمان کی نسبت تھی کہ حضرت عیسٰی ؑ نے نبوت کا دعویٰ کیا‘ جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ان کے ساتھی بن گئے‘ وہ فطری طور پر اُن کے تابع ہو گئے اور منطقی طور پر اُن پر حضرت عیسٰی ؑ کی اطاعت واجب ہو گئی. لیکن جب وہ مرحلہ آیا جبکہ محسوس ہوا کہ اب شدید کشمکش کا آغاز ہونے والا ہے تو انہوں نے خاص طو رپر ایک ندا لگائی 
’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ؟‘‘ جس کا ایک مثبت جواب اُن کے حواریوں نے دیا. بہرحال اس سے ہمیں رہنمائی ملی کہ اس جدوجہد کے لیے کسی ہیئت اجتماعیہ کے وجود میں آنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی داعی یہ صدا لگائے‘ لوگوں کو پکارے‘ اور جو لوگ اس کی اس پکارپر لبیک کہہ کر حاضر ہو جائیں وہ اس کے ساتھی اور اعوان و انصار ہوں گے. 

اسی جانب مزید رہنمائی ہمیں سورۃ الفتح کی آخری آیت سے ملی‘ جس کے بارے میں کئی بار گفتگو ہو چکی ہے کہ یہی اجتماعیت جب محمدٌ رسول اللہ کے زمانے میں وجود میں آئی تو ذہن میں رکھئے کہ اس کے بھی دو مرحلے ہیں. پہلا مرحلہ یہ کہ جس نے بھی تصدیق کی حضرت محمد کی نبوت و رسالت کی وہ فطری طور پر آپؐ کا ساتھی بن گیا. کیسے ممکن تھا کہ حضور حکم دیں اوروہ اسے تسلیم نہ کرے! یہ تو اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے اور ایک ایسی 
اظہر من الشمس بات ہے کہ جس کے لیے کسی اضافی قول و قرار اور کسی اضافی عہد و میثاق کی ضرورت نہیں ہے. البتہ جو ہیئت اجتماعیہ وجود میں آئی اس کے اجزائے ترکیبی یہی ہیں کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ یعنی ’’محمد ( ) اللہ کے رسول ہیں‘‘یا ’’اللہ کے رسول محمد( )‘‘. یہ میں بحث کر چکا ہوں کہ یہ دونوں نحوی ترکیبیں یہاں ممکن ہیں‘ لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ’’اور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں‘‘. یہ ہیں کہ جنہوں نے ان کی رفاقت اور معیت اختیار کی ہے‘ جو اُن پر ایمان لائے ہیں‘ ان کی تصدیق کی ہے‘ اور اب یہ مل کر جب ایک ہیئت اجتماعیہ کی شکل اختیار کرتے ہیں تو ان کے مابین ایک نسبت امیر اور مأمور کی بھی قائم ہوتی ہے. ایک نسبت تو بنیادی ہے رسول اور اُمتی کی‘ اس پر یہ اضافی نسبت ہے امیر اور مأمور کی.

اس اضافی نسبت کو نمایاں کرنے والی چیز جو ہمیں قرآن اور سنت اور سیرتِ رسول سے ملتی ہے ‘اس کا عنوان ’’بیعت‘‘ ہے. اب اس بیعت کے سلسلے میں ہمیں سمجھنا ہے کہ اس کی اصل کیا ہے‘ جڑ بنیاد کیا ہے‘ اس کا معنی و مفہوم کیا ہے‘ قرآن حکیم میں بیعت کا ذکر کہاں کہاں آیا ہے‘ بیعت کی کتنی انواع و اقسام ہیں‘ سیرت النبیؐ میں اس بیعت کا کس تدریج کے ساتھ ذکر ملتا ہے؟ میں کوشش کروں گا کہ یہ سب باتیں ایک تدریج کے ساتھ مختصر ترین وقت میں آپ کے سامنے آ جائیں. اس ضمن میں تفصیلی مباحث میری بہت سی تقاریر میں موجود ہیں‘ لیکن جامعیت کے ساتھ ایک مختصر وقت میں ان مباحث کا سامنے آ جانا اِن شاء اللہ بہت مفید ہوگا.