’’اس وقت جماعت اسلامی جن غیر معمولی حالات سے دوچار ہے ان کے ہوتے ہوئے امیر جماعت مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا منصب امارت سے اچانک مستعفی ہو جانا مجلس شوریٰ کی نگاہ میں ایک عظیم سانحہ ہے. در حقیقت ’جماعت‘ موصوف کی رہنمائی کی جتنی محتاج اس وقت ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی. یہی وجہ ہے کہ ان کے استعفاء نے جماعت کو ایک شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. مجلس شوریٰ اس موقع پوری جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے بالاتفاق مولانا مودودی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتی ہے. مولانا کی پندرہ برس کی خدمات اور قربانیوں کے پیش نظر ان کے ہوتے ہوئے امارت کے منصب کے لیے جماعت اسلامی کی نگاہ کسی اور طرف اٹھ ہی نہیں سکتی اور نہ کوئی دوسری شخصیت اس تحریک کو انتی خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہے جس کی مثال جماعت کے داعی اول نے قائم کی ہے. عمر، صحت اور کسی ایسے غیر اختیاری تقاضے کے تحت خدا نخواستہ اگر کبھی مولانا کو اس بارِ گراں سے سبکدوش ہونا پڑے تو وہ بالکل دوسری صورت ہو گی اور ایسے عالم معذوری میں جماعت ان کے اوپر ظلم کرنا کبھی پسند نہ کرے گی لیکن اس وقت خدا کے فضل سے مجلس شوریٰ کے نزدیک ایسی صورت نہیں ہے.
بنا بریں مجلس شوریٰ متفقہ طور پر امیر محترم سے یہ درخواست کرتی ہے کہ جماعت سے ان کی جو والہانہ محبت ہے، اسے پوری طرح بروئے کار لا کر موصوف اپنا استعفاء واپس لے لیں. مجلس شوریٰ یہ یقین دلاتی ہے کہ نہ صرف اس مجلس کے اعضاء بلکہ عام ارکانِ جماعت حسب سابق پوری طرح خیر خواہی اور اخلاص کے ساتھ اطاعت و تعاون کرتے رہیں گے.
مجلس شوریٰ مولانا عبد الغفار حسن، شیخ سلطان احمد، چودہری غلام محمد، ملک نصر اللہ خاں عزیز، مولانا عبد الحق، خان سردار علی خاں اور خان محمد باقر خاں پر مشتمل ایک وفد کو مامور کرتی ہے کہ وہ اس قرار داد کو مجلس کی طرف سے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمت میں پیش کرے اور ان پر زور ڈالے کہ وہ مجلس کی اس مخلصانہ اپیل کو کسی صورت میں بھی مسترد نہ فرمائیں.‘‘
اس کے ساتھ ہی اخبار مذکور نے جو یہ ’خبریں‘ بھی شائع کیں کہ:-
’’آج مرکزی مجلس شوریٰ اور اس کے معتمد کے نام متعدد مقامات ہے اس مضمون کے تار موصول ہوئے کہ شوریٰ کو چاہیے کہ مولانا مودودی کا استعفاء ہرگز ہرگز قبول نہ کرے اور اپنی پہلی ہی نشست میں اس کی نا منظوری کا اعلان کر دے.
کل کی طرح آج بھی مرکز میں صبح سے شام تک لاہور اور باہر کے مختلف مقامات سے لوگ آتے رہے. اکثر حضرات جو باہر سے آئے ہوئے ہیں وہ کل سے یہی پر مقیم ہیں. راولپنڈی اور اوکاڑہ سے مزید لوگ پہنچے. ان کے علاوہ سیالکوٹ‘ بہاولپور اور کراچی سے بھی لوگ یہاں آئے. آج کی ڈاک میں تار اور ٹیلیفون کے ذریعے مختلف مقامات پر پاس شدہ قرار دادیں بھی موصول ہوئی‘‘.
تو صاف ظاہر ہے کہ یہ سارا مواد جماعت کے مرکزی سٹاف ہی کا فراہم کردہ تھا! اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جماعت نے قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چند سالوں میں ’مطالبہ‘ کا جو خصوصی تکنیک ایجاد کیا تھا جس کی اس کے کارکنوں کو خاصی مشق ہو چکی تھی کس طرح خود اس کے اندرونی معاملات میں وہ پورا تکنیک ہو بہو استعمال ہوا. ۨ؏
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اس کے علاوہ اسی شوریٰ نے یہ بھی طے کیا کہ جلد از جلد ارکان جماعت کا ایک کل پاکستان اجتماع عام منعقد کیا جائے‘ جس میں جماعت کی آئندہ پالیسی اور امیر جماعت کے استعفاء کے وجوہ وغیرہ پر غور کیا جائے. شوریٰ کے اس اجلاس نے یہ بھی طے کیا کہ: ’’چونکہ اس مجلس شوریٰ نے اجتماع ارکان کی اس ضرورت کو محسوس کر کے منعقد کرنا طے کیا ہے کہ ارکانِ جماعت آزادانہ بحث کر کے جماعت کی آئندہ پالیسی اور لائحہ عمل طے کریں اور مجلس شوریٰ کی یہ خواہش ہے کہ پالیسی کی اس بحث میں کوئی سابق فیصلہ کسی حیثیت سے حائل نہ ہو، اس لیے مجلس شوریٰ یہ مناسب سمجھتی ہے کہ مجلس نے اپنے گزشتہ اجلاس میں جو قرار داد پالیسی کے متعلق پاس کی تھی وہ آئندہ کُل پاکستان اجماع ارکان کے وقت ِ آغاز سے کالعدم قرار پائے. ‘‘
شوریٰ کے اس فیصلے پر شیخ سلطان احمد صاحب نے باصرار اپنا یہ اختلافی نوٹ (NOTE OF DISSENT) ریکارڈ کرایا کہ :-’’مجلس شوریٰ نے اپنے گزشتہ اجلاس منعقدہ ۲۵؍ نومبر تا ۹؍ دسمبر ۵۶ء کے اختتام پر خوب اچھی طرح بحث اور غور کر لینے کے بعد جماعت اسلامی کی پالیسی اور طریق کار کے بارے میں جو قرار داد منظور کی تھی وہ مجلس کی طرف سے ایک متفقہ فیصلہ کی حیثیت سے ارکانِ جماعت کے سامنے پیش کی گئی تھی اور اس پر شرکائے مجلس میں سے کسی نے بھی اپنے اختلاف کا اظہار آخر وقت تک بھی نہیں کیا تھا.
اب اگر ارکانِ جماعت یا ارکانِ شوریٰ یا امیر جماعت کو اس فیصلہ پر اطمینان نہیں ہو سکا ہے یا شوریٰ کی قرار داد کی تشریح اور تعبیر میں اختلاف واقع ہو رہا ہے تو میری رائے میں اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسی مجلس کے سامنے تمام اعتراضات اور عدم اطمینان کے وجوہ پیش ہونے چاہئیں تاکہ پچھلی بحثوں کے تمام پہلوؤں اور گزشتہ اجلاس کی کارروائی کو از سر نو تازہ کیے بغیر پیش نظر رکھتے ہوئے مجلس اپنی قرار داد پر عائد شدہ اعتراضات پر کما حقہ غور کر سکے. اس کے بعد ہی شوریٰ اس فیصلہ کی ترمیم‘ تنسیخ یا توثیق کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہو گی. اگر خدا نخواستہ مجلس شوریٰ دوبارہ غور کر لینے کے بعد متفق الرائے نہ ہو سکے تو پھر اختلاف امور بغرضِ استصواب متعین طور پر ارکان جماعت کے اجتماع عام میں پیش کیے جا سکتے ہیں اور وہاں ایک ایک مسئلہ پر اظہار رائے کے بعد آخری اور قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے لیکن اعتراض یا بے اطمینانی کی وجہ سامنے رکھے اور اس پر کوئی رائے ظاہر کیے بغیر مجلس شوریٰ کی ایک متفقہ قرار داد کا خود بخود کالعدم قرار دیا جانا میرے نزدیک بالکل غلط‘
جماعت کے لیے ایک بری نظیر اور مجلس کے لیے سخت بدنامی کا باعث ہو گا اور اس طرح شوریٰ کا یہ تازہ فیصلہ اشخاص اور جماعت کے بارے میں عائد شدہ بعض نہایت سخت الزامات کی نادانستہ طور پر تصدیق کر دینے کا ہم معنی بن جائے گا.
بنا بریں میں اس فیصلہ سے اپنے اختلاف کا صاف صاف اظہار کر رہا ہوں‘‘. (سلطان احمد ۱۳؍ جنوری ۵۷ء)
لیکن جب اس اجلاسِ شوریٰ کی کارروائی جماعت میں شائع (CIRCULATE) کی گئی تو ’فرط احتیاط‘اس اختلافی نوٹ کا ذکر تک نہ کیا گیا. اس پر شیخ سلطان احمد صاحب نے حسب ذیل ’احتجاج‘ جناب قیم جماعت کی خدمت میں ارسال کیا: -
’’آپ کا سرکلر نمبر ۲۷- ۴- ۱۱۸ مورخہ ۱۹جنوری ؍ ۱۹۵۷ء موصول ہوا. اس مراسلہ میں آپ نے مرکزی مجلس شوریٰ منعقدہ ۱۲ تا ۱۵ جنوری ۵۷ء کی روداد اور فیصلے شائع کیے ہیں لیکن پیرا گراف نمبر ۵ میں جماعت کی آئندہ پالیسی کے بارے میں شوریٰ کا فیصلہ درج کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف اس کی کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر ہوا ہے یا ارکانِ شوریٰ کی اکثریت کی رائے سے، بلکہ آپ نے میرے اختلافی نوٹ کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا ہے جو میری رائے میں قابل اعتراض بات ہے.
کسی مجلس میں فیصلہ کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں، یا متفقہ طور پر یا کثرتِ رائے سے. پہلی صورت میں تو کسی وضاحت کی ضرورت ہی نہیں لیکن دوسری صورت میں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ فیصلہ اکثریت کا ہے نہ کہ پوری مجلس کا … آراء کا شمار یا اختلاف کرنے والوں کے بارے میں تفصیل بیان کرنا بے شک ضروری نہیں مگر جہاں رائے شماری کی نوبت آنے سے پہلے ہی کسی رکن کی طرف سے تحریری طور پر اختلافی نوٹ پیش کر دیا گیا ہو، وہاں یہ لازمی ہے کہ فیصلہ کے ساتھ ساتھ اختلاف کرنے والے کے وجوہ دلائل بھی سامنے رکھے جائیں تاکہ اختلافی نقطۂ نظر پر بھی لوگ غور کر سکیں.
اختلافی نوت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اگر اس کو محض کارروائی کے رجسٹر میں بند کر دیا جائے اور محض یک طرفہ رائے لوگوں کے علم میں لائی جائے. خصوصیت کے ساتھ اس نوٹ کی اشاعت اس لیے اور بھی ضروری تھی کہ اس میں اختلاف کرنے والے نے آنے والے اجتماعِ ارکان سے متعلق مجوزہ کارروائی ہی سے اختلاف کیا ہے اور اس بات پر متنبہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرز پر اجتماعِ ارکان کی کارروائی ہونے جا رہی ہے اس سے جماعت کو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے. اب اگر ارکانِ جماعت اس خطرہ سے بروقت آگاہ نہیں کئے جاتے پھر اس تنبیہہ کا موقع کب باقی رہے گا اگر آپ کا ارادہ میرے اختلافی نوٹ کو سرے سے شائع کرنے ہی کا نہیں ہے یا آپ اس کو اجتماع ارکان کے بعد یا عین اس وقت پر پیش کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اس سے اتفاق نہیں. میری رائے یہی ہے کہ میرا یہ اختلافی نوٹ اجتماع سے پہلے پہلے ارکان جماعت کے علم میں لایا جانا چاہیے، اس لیے میں اس مسئلہ پر آپ کی فوری توجہ مبذول کرا رہا ہوں.‘‘
والسلام
احقر سلطان احمد
لیکن یہ احتجاج بھی صدا بصحرا ثابت ہوا !
استعفے کی واپسی ……… شوریٰ کی قرار داد کے جواب میں مولانا مودودی صاحب نے جو خط شوریٰ کو لکھا اس کا متن حسب ذیل ہے. (ماخوذ از روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ اشاعت ۱۴؍ جنوری ۵۷)
’’آپ کی قرار داد اور ارکان و متفقین جماعت کی عام خواہشات کا احترام کرتے ہوئے میں عارضی طور پر اپنا استعفاء کُل پاکستان اجتماع ارکان کے انعقاد تک کے لیے واپس لیتا ہوں. میں انشاء اللہ اجتماع کے موقع پر تمام رفقاء کے سامنے اپنی وہ مشکلات رکھ دوں گا جن کی بنا پر میں اپنے آپ کو فرائض امارت کی انجام دہی کے قابل نہیں پاتا ہوں اور وہ مصالح اور ضروریات بھی بیان کر دوں گا‘ جن کے لحاظ سے میرا اس منصب پر رہنا مناسب نہیں ہے. ان سارے پہلوؤں کی وضاحت ہو جانے کے بعد ارکانِ جماعت جو رائے بھی قائم کریں گے وہ انشاء اللہ میری انفرادی رائے سے معتبر ہو گی. چونکہ مجھے دستورِ جماعت کی روسے ایسی حالت میں اپنا قائم مقام مقرر کرنے کا حق ہے جبکہ میں فرائض امارت انجام نہ دے سکوں اس لیے میں چودھری غلام محمد صاحب کو قائم مقام امیر مقرر کرتا ہوں‘‘.
اس طرح وہ استعفاء جو اس ’’وضاحت‘‘ کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ’’یہ بات واضح کئے دیتا ہوں کہ یہ استعفاء واپس لینے کے لے پیش نہیں کیا جا رہا …‘‘ تین دن کے اندر اندر واپس ہو گیا اگرچہ واپسی اس احتیاط کے ساتھ ہوئی کہ استعفے کی سیف قاطع جس نے سرکش شوریٰ کو ’’اطاعت و تعاون‘‘ پر مجبور کیا تھا ارکانِ جماعت کے اجتماع عام کے سر پر بھی لٹکتی رہے!
مولانا امین احسن اصلاحی کا استعفیٰ از رکنیت جماعت …… مرکز ِجماعت اسلامی میں پیش آنے والے ان تمام ڈرامائی واقعات کی خبریں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اپنی رہائش گاہ پر مقیم ایسی بے بسی کے ساتھ سنتے رہے جیسے وہ وہاں ’نظر بند‘ ہوں. ؎
رودادِ چمن اس طرح سے سنتا ہوں قفس میں
جیسے کبھی آنکھوں سے گلستان نہیں دیکھا!
اور اسی بے چارگی اور دل شکستگی کے عالم میں انہوں نے جماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا.
(۱) (۱) مولانا کے اپنے الفاظ میں:-
’’شوریٰ کا یہ اجلاس ایک بالکل ہنگامی اجلاس تھا. یہ شوریٰ صرف امیر جماعت کے استعفیٰ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرنے کے لیے فوری طور پر بلائی گئی تھی، اس لیے کوئی ایجنڈا نہ تھا. اس کے بعض ارکان‘ کے ساتھ یہ معاملہ بھی پیش آیا کہ ادھر مرکز سے ان کو شوریٰ کی شرکت کے دعوت نامے ملے لیکن جب وہ گھروں سے روانہ ہونے لگے تو ادھر حلقہ سے ان کو یہ اطلاع ملی کہ وہ جماعت کی رکنیت سے معطل کر دیئے گئے. یہ شوریٰ جماعت کی پالیسی وغیرہ کے مسائل پر کوئی فیصلہ دینے کی مجاز نہ تھی. لیکن اس نے صرف امیر جماعت پر اظہارِ اعتماد ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امیر جماعت کو خوش کرنے کے لیے اس نے پالیسی کے معاملہ میں بھی مداخلت کی. مجھے اس شوریٰ میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی. اس وجہ سے میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ میں اس کے اندر جا کر اس کی خلاف دستور کاروائیوں پر ٹوک سکتا لیکن میں نے اس کے دورانِ انعقاد ہی میں اس کے سامنے جماعت کی رکنیت سے اپنا استعفاء پیش کر دیا، کیونکہ میں امیر جماعت پر اس کے غیر مشروط اظہارِ اعتماد کو ان تمام اقدامات کی تصدیق کے ہم معنی سمجھتا ہوں جو امیر جماعت نے جائزہ کمیٹی کے ارکان اور شوریٰ کے متفقہ فیصلہ کے خلاف کئے تھے!
اتفاق کی کیفیت پھر کبھی پیدا نہ ہو سکی.
جن لوگوں کو مولانا اصلاحی صاحب کی شخصیت کے قریبی مطالعے کا موقع نہیں ملا ہے ان کے لیے یہ بات واقعتا بالکل نا قابل فہم ہے کہ مولانا مودودی کے بارے میں وہ انتہائی رائے قائم کر چکنے کے بعد جو مولانا اصلاحی صاحب کے خط سے ظاہر ہوتی ہے اور اب مولانا کے اس رویے کا بچشم سر مشاہدہ کر لینے کے بعد کہ وہ ہر فیصلہ اپنی ’شخصیت‘ کی ’برہانِ قاطع‘ کے بل پر کرنے پر تُل گئے ہیں وہ آخر کس امید میں مصالحت کنندگان کے ساتھ تعاون کرتے رہے.
واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی طبیعت کی ظاہری سختی اور مزاج کی ظاہری درشتی کے پردوں میں ایک انتہائی صلح جو اور آخری حد تک آمادۂ مصالحت شخصیت چھپی ہوئی ہے اور وہ کسی کام کو شروع کر لینے کے بعد اس کو جاری رکھنے کے لیے آخری حد تک مصالحت (Compromise) کرنے کو تیار رہتے ہیں. چاہے اس سے ان کی ذات کتنی ہی مجروح ہو اور ان کی پوزیشن کتنی ہی خراب ہو جائے !
یہی وجہ ہے کہ مولانا اس وقت تک مصالحانہ مساعی کے ساتھ تعاون کرتے رہے جب تک خود مصالحت کنندگان تھک ہار کر نہ بیٹھ رہے اور اسی بنا پر ان کے بعد کے رویے میں ’منطقی ربط‘ نظر نہیں آتا اور مستقبل کے مؤرخ کے لیے یہ حق باقی رہ جاتا ہے کہ چاہے تو ان کے طرز عمل کو انتہائی درد مندانہ اور مخلصانہ صلح جوئی کا نتیجہ قرار دے اور چاہے تو کمزوری پر محمول کر لے.
مولانا اصلاحی صاحب نے اپنے استعفے کی واپسی کی توجیہہ یہ بیان فرمائی ہے:
’’میرے استعفیٰ کے بعد چودھری غلام محمد صاحب (جو قائم مقام امیر جماعت بنائے گئے تھے محمد باقر خاں صاحب کے ساتھ مجھ سے ملے اور یہ اطمینان دلایا کہ امیر جماعت پر اظہار اعتماد ہرگز ان کے ان اقدامات کی توثیق کے ہم معنی نہیں ہے جو انہوں نے شوریٰ کے فیصلہ اور جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف کئے ہیں انہوں نے صاف الفاظ میں یہ بھی کہاکہ جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف امیر جماعت نے جو اقدام کیا ہے وہ اس کو نہ صرف واپس لیں گے بلکہ ان سے معافی بھی مانگیں گے انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ قائم ے، دسمبر کی شوریٰ کی قرار داد بھی قائم ہے، البتہ اجتماع عام کے انعقاد تک لوگوں کو پالیسی کے معاملہ میں کوئی بحث و نزاع برپا کرنے سے روک دیا گیا ہے. انہوں نے یہ باتیں اس قدر گہرے تاثر اور اس قدر وثوق و اعتماد کے ساتھ کہیں کہ مجھے اپنا استعفاء واپس لے لینا پڑا‘‘.
یہاں فوری طور پر جو سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا مولانا اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ’جماعت اسلامی‘ میں اصل مؤثر اور فیصلہ کن شخصیت مولانا مودودی کی تھی؟ ذہن اسے قبول نہیں کرتا. اس لیے کہ جماعت کی مخصوص تنظیم ہیئت میں جو مقام مولانا مودودی کو حاصل تھا اس سے سب سے زیادہ واقف خود مولانا امین احسن اصلاحی صاحب تھے ! تو پھر سوچنے کی بات تو یہ تھی کہ جس شخصیت نے اپنی مقبولیت کی دلیل کے آگے خود مولانا اصلاحی صاحب کو بے بس کر دیا تھا، اس کے سامنے اپنے پورے سوز اور سارے اخلاص کے باوجود یہ غریب یقین دلانے والے کیا حیثیت رکھتے تھے! چنانچہ مندرجہ بالا تصریحات کے معاً بعد جب مولانا اصلاحی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ:
’’ان وعدوں میں سے یہ حضرات کسی ایک وعدے میں بھی سچے ثابت نہیں ہوئے‘‘. (۱) تو محسوس ہوتا ہے کہ ایسا ہونا بالکل فطری تھا البتہ مولانا کا ان حضرات کی یقین دہانیوں کی بنیاد پر خیر کی امیدیں وابستہ کر لینا زیادہ سے زیادہ نیک خواہشات کی کارفرمائی قرار دیا جا سکتا ہے !!
حالات جو رخ اختیار کر چکے تھے اور نوبت جہاں تک پہنچ گئی تھی اس کے لحاظ سے اب مولانا اصلاحی صاحب اور ان کے ہم خیال ارکانِ شوریٰ اور دیگر اصحاب رائے کے لیے (۱) یہ تمام اقتباسات مولانا اصلاحی صاحب کے اس سائیکلو سٹائل شدہ وضاحتی خط سے ماخوذ ہیں جو انہوں نے جماعت سے مستعفی ہونے کے لوگوں کے استفسارات کے جواب میں تحریر فرمایا تھا!)
دو ہی راہیں عقلاً صحیح تھیں.
ایک یہ کہ اگر ان کے نزدیک مولانا مودودی کی ذات سے قطع نظر اب بھی مجموعی اعتبار سے جماعت اسلامی میں شَر پر خیر غالب تھا تو وہ خاموشی سے جماعت سے علیحدہ ہو جاتے اور وہ طرزِ عمل اختیار کرتے جو اس سے قبل مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی اور ان کے رفقاء نے اختیار کیا تھا اور جو اس موقع پر بھی مولانا عبد الجبار غازی صاحب نے اختیار کیا. اس صورت میں آئندہ کے لیے صحیح لائحہ عمل یہ ہوتا کہ ’اقامت دین‘ کی ہمہ گیر جدو جہد کی طرف سے صبر کا گھونٹ پی کر دین کی کسی ’جزوی خدمت‘ میں اپنے آپ کو کھپا دیا جاتا اور جماعت کو فی الحال اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا. اس لیے کہ اس صورت میں جماعت سے علیحدہ ہو کر بھی اس پر تنقید کرنے کا حق انہیں نہ ہوتا اور جماعت کے عام ارکان کی یہ حجت ان پر قائم ہو جاتی کہ آپ حضرات نے جماعت کے اندر اپنے اختلافِ رائے کا اظہار کیوں نہ کیا ! (الاّ یہ کہ بعد میں کسی مرحلے پر یہ محسوس کیا جاتا کہ جماعت کسی صریح دینی فتنے میں مبتلا ہو گئی ہے اور اس کا ’ابطال‘ ایک ’دینی فریضہ‘ بن گیا ہے!)
دوسری یہ کہ اگر ان کی رائے میں مولانا مودودی کی غلط رہنمائی اور ان کے غلط اقدامات کی بنا پر جماعت میں خیر پر شَر غالب آ چکا تھا یا آنا لازمی تھا تو پھر ایک ہی طرز عمل صحیح تھا‘ اور وہ یہ کہ جماعت میں کھل کر اختلاف رائے کا اظہار کیا جاتا اور ڈٹ کر مولانا مودودی کی مخالفت اور ان کے غلط اقدامات کی مذمت کی جاتی. متذکرہ بالا رائے قائم ہو جانے کے بعد نہ صرف یہ کہ عقلاً صرف یہی طرز عمل صحیح تھا بلکہ جماعت کا دستور اور وہ ’جمہوریت‘ اور ’شورائیت‘ بھی اسی کے متقاضی تھے جن کے پودوں کو خود مولانا اصلاحی صاحب نے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا اور جماعت کے عام ارکان کے ’حق نصح‘ کی ادائیگی کی واحد صورت بھی یہی تھی اس طرز عمل سے بد ترین نتیجہ جو نکل سکتا تھا وہ یہ کہ جماعت بالکل منتشر ہو جاتی تو ایک ایسی جمعیت کا منتشر ہو جانا جس میں شر غالب آ چکا ہو‘ بجائے خود ایک خیر ہے! ایک بعید امکان اس کا تھا کہ مولانا مودودی مہتمم (DISCREDIT) ہو جاتے اور جماعت کی رہنمائی کی ذمہ داری کسی اور کو سنبھالنا پڑتی تو یہ جماعتی زندگی کے لوازم میں سے ہے اور اس سے پہلو بچانا کسی کے لیے جائز نہیں! ایک امکان یہ تھا کہ جماعت تقسیم ہو جاتی تو اس میں بھی کوئی حرج نہ تھا. ہر حصہ اپنے اپنے نظریات کے مطابق ’اقامت دین‘ کی ہمہ گیر جدو جہد میں مشغول ہو جاتا. بدرجۂ آخر یہ کہ اہل اختلاف دلیل کر کے نکال دیئے جاتے تو اس صورت میں بھی کم از کم یہ تو ہو جاتا کہ ان کی جانب سے پوری جماعت پر اتمامِ حجت ہو جاتا. اور جماعت سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی انہیں اس کی پالیسی پر تنقید کا حق بجا طور پر حاصل رہتا.
بد قسمتی سے عملاً جو کچھ ہوا وہ یہ کہ مولانا اصلاحی صاحب اور ان کے ہم خیال ارکانِ شوریٰ نے نہ پہلی راہ اختیار کی نہ دوسری! بلکہ کچھ مخلص مصالحت کنندگان کے زیر اثر یہ حضرات ایک ایسی ’’نیمے دروں‘ نیمے بروں‘‘ پالیسی پر عمل پیرا ہو گئے جس سے عام اراکانِ جماعت پر ’اتمامِ حجت‘ تو کیا ہوتا ان کا ’حق نصح‘ بھی ادا نہ ہو سکا. بلکہ ان حضرات کی اپنی پوزیشن اکثر ارکانِ جماعت کے لیے ناقابل فہم اور بعض حالات میں مضحکہ خیز تک ہوتی چلی گئی !! رہے وہ ’مصالح‘ جن کے پیش نظر یہ ’درمیانی راہ‘ اختیار کی گئی تھی تو ان کی پوری فصل مولانا مودودی نے کاٹ لی !!!
مصالحت …… اس مرتبہ مصالحت کنندگان میں سر فہرست اگرچہ چودھری غلام محمد صاحب (قائم مقام امیر جماعت) اور جناب محمد باقر خاں صاحب مرحوم تھے اور ابتداء ً شیخ سلطان احمد صاحب نے بھی مصالحانہ کوششوں میں حصہ لیا. لیکن اس سلسلے میں فیصلہ کن مساعی تحریک مسلم لیگ کے ایک پرانے سرگرم کارکن جناب ظفر احمد انصاری صاحب کی ثابت ہوئیں جنہوں نے گفت و شنید اور مذاکرات (Negotiations) کے خداداد ملکہ سے کام لے کر مولانا اصلاحی صاحب کو چند ایسے وعدوں (Commitments) کا پابند کر لیا جو مولانا کی ذاتی شرافت اور مروّت کی بنا پر آئندہ کے لیے ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئے!
مصالحت کے فلسفے کا بنیادی پتھر یہ تھا کہ جماعت اسلامی کے عام ارکان کی تربیت اس طرز پر نہیں ہوئی ہے کہ وہ پالیسی اور طریق کار کی دقیق بحثوں میں سکون‘ اطمینان اور دلجمعی کے ساتھ حصہ لے سکیں اور اپنے اکابر کے باہمی اختلافات (قطع نظر اس سے کہ وہ نجی نوعیت کے ہوں یا جماعت کی پالیسی سے متعلق) پر ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں‘ لہٰذا اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو گی کہ مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی متبادل پروگرام لے کر ایک دوسرے کے بالمقابل جماعت کے عام ارکان کے سامنے پیش ہوئے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہ نکلے گا کہ جماعت بالکل منتشر ہو جائے گی اور اقامت دین کے لیے کی گئی ساری محنت اکارت ہو کر رہ جائے گی ! مولانا مودودی کے انتہائی اقدامات (ارکانِ جائزہ کمیٹی پر الزامات اور پھر استعفیٰ از امارتِ جماعت وغیرہ) کے بارے میں غالباً یہ رائے قائم کی گئی کہ یہ سب کچھ محض جذبات میں ہو گیا ہے اور بالکل غلط ہے. تاہم جماعت کی مصلحت اسی میں ہے کہ مولانا مودودی کو زیادہ متہم (Discredit) نہ کیا جائے. جماعت کے عام حالات کی اصلاح اور اس کے آئندہ رخ کی تبدیلی کے بارے میں غالباً یہ طے ہوا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ یہ سب کچھ خاموشی کے ساتھ اور رفتہ رفتہ ہو (۱) اور سردست صرف اس پر اکتفا کیا جائے کہ ایک تو اس ہنگامی دور کے انتہائی اقدامات کو کالعدم قرار دیا جائے اور دوسرے جماعت کی آئندہ پالیسی کے بارے میں ارکانِ جماعت کے سامنے اس مرتبہ پھر شوریٰ کی جانب سے ایک متفقہ قرار داد پیش کی جائے.
چنانچہ جن ارکان کی رکنیت معطل کی گئی تھی وہ بحال کر دی گئی (جناب عبد الجبار غازی صاحب اور سعید ملک صاحب چونکہ از خود مستعفی ہوئے تھے لہٰذا ان کا معاملہ جدا تھا) اور ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان سے متصلاً قبل اسی مقام پر مرکزی شوریٰ کا ایک اجلاس اس (۱) : غالباً مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کو ابھی اس کا اندازہ نہیں ہوا تھا کہ مولانا مودودی جماعت میں اپنی مقبولیت کے نشے میں ’’جمہوریت‘‘ اور ’’شورائیت‘‘ کی اس برائے نام بساط کو بھی بالکل لپیٹ دیں گے جو ابھی کم از کم جماعت کے دستور میں قائم تھی … اور ’مجلس عاملہ‘ کا ایک نیا ادارہ (Institution) قائم کر کے مجلس شوریٰ کو ایک بالکل غیر مؤثر اور محض علامتی ادارہ بنا دیں گے اور اصلاحی صاحب اور ان کے ہم خیال اراکین شوریٰ مع جمیع مصالحت کنندگان ایک انتہائی غیر مؤثر اقلیت بن کر رہ جائیں گے !! غرض سے طلب کر لیا گیا کہ اس میں جماعت کی آئندہ پالیسی سے متعلق کوئی ایسا مصالحتی فارمولا تیار (EVOLVE) کر لیا جائے جسے عام ارکان جماعت کے سامنے شوریٰ کی جانب سے ایک متفقہ قرار داد کی صورت میں پیش کر دیا جائے.
راقم الحروف کا موقف …… راقم الحروف تک جب یہ اطلاع پہنچی کہ جماعت کے ’اوپر کے حلقے‘ میں پھر ’مصالحت‘ کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس امر کا امکان ہے کہ ارکانِ جماعت‘ مال اور وقت کا صرفِ کثیر کر کے ماچھی گوٹھ کے مقام پر جمع تو اس خیال سے ہوں کہ پالیسی اور طریق کار کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے آئیں گے اور وہ اپنے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے لیکن ہو یہ کہ پھر شوریٰ کی ایک ’’متفقہ مصالحتی قرار داد‘‘ ان کے سامنے پیش کر دی جائے اور وہ جیسے جائیں ویسے ہی لوٹ آئیں تو راقم الحروف نے جماعت اسلامی منٹگمری کے پانچ دوسرے ارکان کی معیت میں ایک متفقہ تحریر قائم مقام امیر جماعت کی خدمت میں ارسال کی جو درج ذیل ہے.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترمی و مکرمی قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
’’ہم اراکین جماعت اسلامی منٹگمری آپ کی وساطت سے مندرجہ ذیل امور مرکزی مجلس شوریٰ کے اس اجلاس میں پیش کرنا چاہتے ہیں جو اجتماع ارکان سے قبل منعقد ہو رہا ہے. امید ہے کہ آپ اس تحریر کو اس اجلاس میں پڑھ کر سنا دیں گے.
۱ . ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس امر کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بجائے اس کے کہ آئندہ اجتماع ارکان میں پالیسی کے متعلق تمام آراء من و عن پیش ہوں اور ایک کھلی بحث کے بعد پالیسی کا تعین کیا جائے اس سے قبل شوریٰ ہی میں پالیسی کے بارے میں ارباب حل و عقد کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہو جائے اور ارکانِ جماعت کے سامنے اسی طرح کی کوئی متفقہ قرار داد پیش کی جائے جیسی کہ شوریٰ نومبر دسمبر ۵۶ء میں منظور ہوئی تھی‘ اور تمام اراکین شوریٰ بجائے اپنی اپنی آراء کو پیش کرنے کے کے اجتماعِ ارکان میں اس قرار داد کی حمایت کریں. نیز یہ کہ اس سمجھوتہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر پالیسی کی بحثیں اور اکابرین جماعت کے آپس کے اختلافات اجتماع ارکان میں لے آئے گئے تو پھر اس جماعت کے باقی رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے.
۲. ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی کوشش خواہ وقتی طور پر کتنی ہی خوشنما اور مفید معلوم ہو‘ جماعت اسلامی کے وجود اور استحکام کے لیے بالآخر سخت مضر اور مہلک ثابت ہو گی. لہٰذا ہم شوریٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسی کسی تجویز کو زیر عمل لانے سے قبل وہ اس کے بظاہر مفید پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ان مضر نتائج پر بھی غور کر لے کہ جو ہماری نا چیز رائے میں جلد یا بدیر لازماً رونما ہوں گے.
۳. یہ بات اب ایک نا قابل تردید حققیت بن چکی ہے کہ جماعت اسلامی کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں میں پالیسی کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں اور ان کے حامل گروہ اپنے اپنے طرز فکر میں پختہ اور اپنی آراء میں شدید ہیں. ایک گروہ (جس کے ہاتھ میں اس وقت جماعت کی قیادت ہے) موجودہ پالیسی کو اس کے اصولی موقف کے اعتبار ہی سے نہیں بلکہ تفصیلی فروعی تدابیر کے لحاظ سے بھی بالکل صحیح سمجھتا ہے اور اس میں کسی اصولی تغیر کو صحیح نہیں سمجھتا جبکہ دوسرا گروہ بعد از تقسیم ملک کی پالیسی کو قبل از تقسیم کی پالیسی کے لحاظ اصولی انحراف سمجھتا ہے اور موجودہ پالیسی میں بنیادی تغیر چاہتا ہے. یہ دونوں گروہ پالیسی کے بارے میں اپنی اصولی آراء ہی کی حد تک نہیں بلکہ اپنے ذوق اور رجحان کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں.
ان گروہوں کے درمیان جماعت میں ایک عرصہ سے کشمکش چلی آتی ہے. ابھی تک یہ کشمکش صرف اصحابِ شوریٰ تک محدود تھی اور عام اراکین کو اس کا علم تک نہ تھا لیکن اب اکثر باتیں اس محدود حلقہ سے نکل کر ایک وسیع دائرے میں پھیل گئی ہیں اور عام اراکین کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے با خبر ہو گئی ہے.
۵۶ء میں ان دو گروہوں کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کی جو کوشش کی گئی تھی اور اس کے نتیجہ میں جو مصالحتی فارمولا اراکین جماعت کے سامنے رکھا گیا تھا. اس کا جو حشر ہوا ہے‘ اس سے دو باتیں اخذ کی جانی ضروری ہیں. ایک یہ کہ ان دو گروہوں کے درمیان مصالحت اور سمجھوتہ کی کوشش لا حاصل ہے. یہ اپنے نقطہ ہائے نظر‘ اپنے طرز ہائے فکر اور اپنے مذاق و رجحان کے اعتبار سے ایک دوسرے سے اتنے دُور ہو چکے ہیں کہ ان کو نزدیک لانے کی کوشش ایک مبارک خواہش تو کہی جا سکتی ہے لیکن عملاً بار آور نہیں ہو سکتی اور دوسرے یہ کہ آج سے قبل شوریٰ کی کلھیا میں جو گُڑ پھوڑا جاتا رہا ہے وہ اب چوراہے میں بکھر گیا ہے. اور اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی کہ باتیں صرف اراکین شوریٰ تک محدود تھیں‘ جماعت کے دست و بازو یعنی ارکان اس سے واقف نہ تھے. اب یہ باتیں پھیل چکی ہیں. اب اگر ’’بڑے آدمی‘‘ مل کر بیٹھ بھی جائیں تو ’’چھوٹوں‘‘ کا خلجان رفع ہونا مشکل ہے.
۴. ان حالات میں ہمارے نزدیک جماعت کی بقا اور اس کے استحکام اور اس کے عملاً کوئی کام کر سکنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ آئندہ اجتماعِ ارکان میں ہر شخص کھلے دل کے ساتھ جو کچھ دل و دماغ میں رکھتا ہے‘ ارکان کے سامنے رکھ دے اور ایک عام اور کھلی (OPEN HEARTED) بحث کے بعد طے ہو جائے کہ جماعت اسلامی کے ارکان اپنے مستقبل کے لیے کون سی پالیسی کو پسند کرتے ہیں. اس کے بعد جو کوئی اس پالیسی پر انشراح صدر ہو جائے وہ جماعت میں رہے اور جو انقباض محسوس کریں ان کی طرف سے جماعت کی خیر خواہی کا پہلو اسی میں ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ جماعت کو چھوڑ جائیں اور اپنے ذوق اور نظریات کے مطابق جو کام بھی کر سکتے ہوں علیحدہ ہو کر کرتے رہیں. اس صورت میں خواہ وقتی طور پر جماعت کو ایک نقصان برداشت کرنا پڑے اور ایسا محسوس کیا جائے کہ جماعت کو ایک بڑا دھکا لگا ہے لیکن بالآخر یہ محسوس کیا جائے گا کہ اسی میں جماعت کی بھلائی تھی. اس طرح جماعت کو ایک مرتبہ پھر یکسوئی‘ یکرنگی اور یکجہتی حاصل ہو جائے گی اور وہ سکون کے ساتھ ایک طرف جا سکے گی.
۵. اس کے برعکس اگر اس وقت ’’انتشار کے خوف‘‘ سے ایک مصالحت کر بھی لی گئی تو اول تو اس بات ہی کا قوی اندیشہ ہے کہ پہلی مصالحت کی طرح یہ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ دن کی ’’طویل‘‘ عمر پا سکے لیکن اگر اس مرتبہ جماعت کے اکابرین نے ذرا زیادہ بڑے ظرف کا ثبوت دیا. تب بھی یہ تو یقینی ہے کہ جماعت زیادہ دُور نہ چل پائے گی کہ یہ کشمکش پھر پیدا ہو کر رہے گی اور جماعت اپنی اندرونی کشمکش میں میں اس طرح الجھ کر رہ جائے گی کہ اور کوئی مفید کام اس کے لیے ممکن نہ رہے گا. یہ تو ممکن ہے کہ یہ کشمکش ’’خفی‘‘ رہے اور پہلے کی طرح ’’جلی‘‘ نہ ہو. لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ ختم ہو جائے.
۶. اس وقت کی ’’مصالحت‘‘ کے بارے میں تین باتیں بالکل واضح ہیں.
(الف) … یہ کہ اس کی بنیاد کسی مثبت جذبے کی بجائے ایک ’’منفی خدشہ‘‘ پر ہے اس وقت محض انتشار کے خطرے سے بچنے کی غرض سے یہ کوشش کی جا رہی ہے. بجائے اس کے کہ گفت و شنید اور بحث و مباحثہ کے بعد ایک دوسرے کے نقطہ ٔ نظر کے قریب آنے کی وجہ سے مفاہمت ہو رہی ہو اور اب فریقین اپنے اپنے مقام سے واقعتا ہٹ کر ایک جگہ آ کھڑے ہوئے ہوں صورت حال یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ہیں. (بلکہ حالیہ واقعات نے تلخی میں اضافہ کر دیا ہے) لیکن انتشار کے خوف سے دبک کر بیٹھ رہے ہیں. اس طرح ’’حب علی ‘‘ کی بجائے ’’بغض معاویہ ‘‘ پر جو اتحاد قائم ہو‘ ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد بے حد کمزور ہو گی.
(ب) … مولانا مودودی صاحب اور ان کے رفقاء کے ارادوں اور ان کی نیتوں کے بارے میں کوئی بات نہ کہی جا سکے تو بھی ’’اختلاف‘‘ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں تو ہمیں یقین کے ساتھ یہ بات معلوم ہے کہ وہ اس موقع پر مصالحت اس لیے کر رہے ہیں کہ آئندہ کشمکش کا موقع باقی رہے. عین اس وقت جبکہ یہ حضرات مصالحت کی باتیں کر کے آئے ہوتے ہیں ان کی آراء دوسرے لوگوں کے بارے میں انتہائی سخت ہوتی ہیں اور اپنے طرز فکر کے لوگوں کے سامنے سخت ترین آراء کا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے اس لحاظ سے کم از کم ہم لوگوں کو تو یہ ایک ’’منافقانہ مصالحت‘‘ معلوم ہوتی ہے‘ جس کا چند روز سے زیادہ چل جانا مشکل اور کسی مفید نتیجہ تک پہنچنا نا ممکن ہے.
(ج) … مولانا مودودی صاحب اور ان کے رفقاء یہ محسوس کر رہے ہیں کہ خیریت اسی میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ اجتماع گزر جائے. اس وقت ان کے لیے اپنے نقطہ ٔ نظر کو پیش کر کے اور اپنی بات پر اصرار کر کے اجتماع میں کامیابی مشکل نظر آ رہی ہے. کہاں تو وہ کیفیت تھی کہ اپنے وجوہِ استعفاء انہوں نے اجلاسِ شوریٰ میں بیان کرنے کی بجائے اجتماع ارکان میں رکھنے مناسب سمجھے تھے اور ۳۲ء سے آج تک مختلف اوقات و ادوار میں اپنی اختیار کردہ پالیسی کو ایک طویل تقریر میں پیش کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا. کہاں اب یہ باتیں سننے میں آ رہی ہیں کہ وہ ایسی کوئی تقریر بھی نہیں کریں گے اور اپنے استعفاء کے وجوہ بھی سامنے نہیں لائیں گے.
۷. ان حالات میں شوریٰ سے ہماری درخواست یہ ہے کہ اب مصالحت اور مفاہمت کی کسی نئی کوشش میں وقت ضائع نہ کیا جائے اور اس سے قبل کی ایسی ہی کوشش اور اس کے انجام سے عبرت حاصل کر کے آئندہ اجتماعِ ارکان کی نوعیت وہی رکھی جائے جو اس کا اعلان کرتے ہوئے پیش نظر تھی یعنی یہ کہ مولانا مودودی صاحب جو اس تحریک کے داعی‘ مؤسس اور از یوم تأسیس تا امروز قائد اور امیر رہے ہیں، وہ تفصیل کے ساتھ اور بغیر کسی (MENTAL RESERVATION) کے اپنا ذہن جماعت کے ارکان کے سامنے رکھ دیں اور ماضی کی پالیسی کی وضاحت کے ساتھ ساتھ صاف صاف بتا دیں کہ آئندہ وہ جماعت کو کس رُخ پر لے کر جاناچاہتے ہیں اس کے بعد تمام ارکانِ جماعت عام اس سے کہ وہ عام رکن ہو یا رکن شوریٰ اگر اس سے کوئی فروعی یا اصولی اختلاف رکھتے ہوں تو اسے واضح کرے ایک کھلی بحث کے بعد طے ہو جائے کہ آئندہ پالیسی کیا ہو گی اور اس کے بعد جو لوگ اس پالیسی سے مطمئن نہ ہوں وہ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں اور اپنے نظریات کے مطابق جو کام کر سکتے ہوں کریں اور جماعت یکسوئی کے ساتھ اپنی طے کردہ پالیسی پر عمل پیرا ہو سکے.
ہماری ناچیز رائے میں اسی میں جماعت کی بھلائی مضمر ہے. !!!
خطرہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اس طرح جماعت منتشر ہو جائے گی. ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر یہ جماعت ایسی ہی کچی بنیادوں پر قائم ہے کہ ایک مرتبہ کی (OPEN DISCUSSION) ہی سے ختم ہو جائے گی تو آپ کس چیز کے بھروسے پر اسے آگے لیے جا رہے ہیں؟ جو جماعت اندرونی اختلاف کا ایک حادثہ برداشت نہ کر سکے وہ آخر آگے کیا کام کر سکے گی ؟ دوسرے یہ کہ اگر واقعتا گند اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے سامنے آتے ہی یہ جماعت نسیاً منسیاً ہو جائے گی تو پھر آخر آپ اس کو چھپا کر کب تک رکھ سکیں گے؟
۸. اگر یہ چیز منظور نہ ہو اور یہ چیز متفق علیہ ہو کہ اس طرح جماعت ختم ہو جائے گی تو پھر ہماری گزارش شوریٰ کے اختلاف کرنے والے گروہ سے یہ ہے کہ وہ لوگ جماعت کے اتنے بہی خواہ ہیں تو پھر ان کو چاہیے کہ وہ خاموشی کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں ایک ایسی جماعت کو کہ جو ابھی منزل مقصود سے بہت دُور ہے اور جسے اپنا مقصود حاصل کرنے کے لیے ابھی ایک طویل اور SOLID جدو جہد کرنی ہے‘ آپس کی کشمکش میں مبتلا کئے رکھنے کو اس کی خیر خواہی سمجھنا حماقت نہیں تو غلط فہمی ضرور ہے. اگر وہ اس پر بضد ہیں کہ جماعت میں رہنا بھی ہے اور اسے اپنے نظریات پر موڑنا بھی ہے تو یہ موقع موجود ہے. دیانت داری کے ساتھ اپنی بات ارکان کے سامنے رکھ دیں‘ اگر جماعت ان کی بات مان لے تو فبہا ورنہ پھر سیدھے سیدھے جماعت کو دوسری طرف جانے دیں اور مزید روڑے نہ اٹکائیں. نہ اس جماعت کی چلتی گاڑی کو بریک لگا کر کھڑا رکھ چھوڑیں اور اگر وہ اس میں جماعت کی تباہی دیکھتے ہیں اور یہ انہیں نا پسند ہے تو پھر ایک ہی راہ ہے کہ خاموشی سے علیحدہ ہو جائیں.
۹. اور گر نہ شوریٰ ہماری بات مانے نہ اختلاف کرنے والے حضرات کو ہماری بات سے اتفاق ہو تو پھر ہم اپنے بارے میں دو شکلیں تجویز کرتے ہیں.
(ا) … یہ کہ کم از کم ہمیں اس بات کا پورا موقع دیا جائے کہ ہم اجتماع ارکان میں اپنے نقطہ ٔ نظر کو وضاحت سے رکھ دیں. اس کام کے لیے جتنا وقت ہمیں درکار ہو‘ دیا جائے اور ہم پر کوئی روک ٹوک نہ کی جائے کہ یہ کہا جا سکتا ہے اور یہ نہیں! تاکہ ہم پورے طور پر مطمئن ہو جائیں کہ ہم نے اپنی بات کہہ دی ہے. یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ’’منافقت‘‘ کے ساتھ جماعت کے ساتھ چلنے کو اپنے اوپر بھی ظلم سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس طرح آخرت میں اجر تو دُور رہا‘ عذاب کا خطرہ نظر آتا ہے. اور جماعت پر بھی ظلم سمجھتے ہیں کہ ہم اس کے مجموعی ذہن سے علیحدہ ایک ذہن رکھتے ہوں اور پھر بھی ساتھ چلیں اور عملاً اس کا حاصل یہ ہو کہ نہ خود چلیں اور نہ دوسروں کو چلنے دیں.
(ب) … اور اگر یہ بھی قابل قبول نہ ہو تو ہمیں اجتماع سے قبل ہی مطلع کر دیا جائے. ہم اس کے لیے پورے انشراحِ صدر کے ساتھ تیار ہیں کہ خاموشی کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہو جائیں اور نہ اپنی منزل کھوٹی کریں اور نہ جماعت کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوں. ہماری اس طرح کی علیحدگی بھی انشاء اللہ جماعت کے لیے نقصان کا موجب نہ ہو گی بلکہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح ہم شاید جماعت کی کوئی نہ کوئی خدمت ہی سر انجام دے سکیں گے.
مزید تشریح مناسب ہے کہ بصورتِ اول ہمیں کم از کم اتنا وقت درکار ہے کہ ہم اپنے اس متفقہ بیان کو جو ہم نے جائزہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھا پڑھ کر اجتماعِ ارکان میں سنا دیں اور آئندہ کے بارے میں ایک قرار داد مرتب کر کے اسے وضاحت کے ساتھ پیش کر سکیں.
ہم ۱۶؍ تاریخ تک کسی اطلاع کے منتظر رہیں گے اور صرف پہلی شکل کی منظوری کی صورت میں اجتماع کے لیے حاضر ہوں گے. براہ کرم ہمیں ۱۶؍ فروری کو بارہ تا ۲ بجے دوپہر فون نمبر ۱۸۷ پر فیصلہ سے مطلع کر دیا جائے. تاکہ ہم اجتماع میں شریک ہونے‘ یا یہاں کے دوسرے ارکان کے ہاتھ اپنے استعفے بھجوانے کا فیصلہ کر سکیں. فقط والسلام!
ہم ہیں اراکین جماعت اسلامی منٹگمری
(چھ اراکین کے دستخط)
اس تحریر کے جواب میں ہمیں بذریعہ تار مطلع کیا گیا کہ اجتماعِ ارکان میں سب کو اظہارِ رائے کا پورا موقع دیا جائے گا!
٭٭٭٭٭
وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ