مولانا مودودی کی قرار داد اور تقریر

’قرار داد اعتماد‘ پر بحث کے ملتوی ہونے کے بعد مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے تاریخ میں پہلی بار جماعت کی پالیسی کے ضمن میں اپنی سوچ اور رائے کو ایک مفصل قرار داد کی صورت میں پیش کیا. اور اس کی وضاحت کے لیے ایک نہایت مفصل اور مدلل تقریر کی جو چھ گھنٹے سے زائد جاری رہی اور غالباً تین نشستوں میں مکمل ہو سکی. 

یہ قرار داد اور تقریر بعد میں ’’تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی‘ اور اس کا جو نسخہ اس وقت راقم کے پیش نظر ہے وہ اس کے بارہویں ایدیشن کا ہے جو اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ لاہور کے زیر اہتمام ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا تھا (یہ وضاحت اس لیے کر دی گئی کہ اجتماع کے بعد ترتیب و تسوید اور طباعت و اشاعت کے مختلف مراحل کے دوران اس میں کوئی لفظی ردّ و بدل ہوا ہو تو اس کی ذمہ داری سے ہم بری ہیں. اس لیے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی اور ریکارڈ محفوظ نہیں ہے)

یہ قرار داد بھی مولانا مودودی کی مرتب کردہ تھی اور اس کے لیے مفصل تقریر بھی مولانا لاہور ہی سے پوری طرح تیار کر کے لائے تھے. لیکن جیسے کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے‘ مجلس شوریٰ کے اجلاس کے دوران جو سلسلۂ گفت وشنید جاری رہا اور جو سعی مصالحت بروئے کار آئی اُس کے نتیجے میں اس میں مولانا امین احسن اصلاحی کے اختلافی نقطہ ٔ نظر کو سمونے اور شامل کرنے یعنی 
Accomodate کرنے کی خاطر ان کے تجویز کردہ جملے کا اضافہ کر دیا گیا تھا … اور اس طرح اب ’قرار داد‘ مولانا مودودی کی ذاتی نہیں رہی بلکہ اسے مجلس شوریٰ کی ’’متفقہ قرار داد ‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی جسے مولانا نے گویا شوریٰ کے نمائندے (Spokesman) کی حیثیت سے پیش کیا. لیکن جیسے کہ راقم کو پہلے ہی سے اندیشہ تھا‘ جس کا واضح اظہار بھی راقم نے اپنے اُس خط میں کر دیا تھا جو راقم نے جماعت اسلامی منٹگمری (ساہیوال) کے دیگر پانچ ارکان کی ہم نوائی میں قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان کے نام تحریر کیا تھا‘ سابقہ ’اتفاق‘ کی طرح اس ’اتفاق‘ کا بھانڈا بھی چوراہے میں پھوٹ کر رہا. اس لیے کہ اس قسم کی مصنوعی مصالحتین شاید اصلاحی و سماجی انجمنوں اور سیاسی جماعتوںمیں تو کسی درجے میں قابل عمل ہوں‘ کسی انقلابی تحریک میں ہرگز ممکن العمل نہیں ہو سکتیں.

چنانچہ مولانا مودودی مرحوم نے اپنی چھ گھنٹے سے زائد لمبی تقریر میں اپنے‘ اور اپنے ہم خیال ارکانِ شوریٰ کے ذہن کی نمائندگی تو بہ تمام و کمال اور بہ حسن و خوبی کر دی‘ لیکن اس سے بالواسطہ طور پر جماعت کی پالیسی کے بارے میں اختلافی ذہن رکھنے والے ارکانِ شوریٰ کے خیالات اور نظریات کی کامل نفی ہو گئی (مولانا مودودی کی یہ تقریر کامل طبع شدہ موجود ہے‘ لہٰذا اس کے ضمن میں مزید کچھ عرض کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے) 

مولانا اصلای کا خطاب

اس کے فطری ردّ عمل کے طور پر مولانا امین احسن اصلاحی اٹھے اور انہوں نے اصولی طور پر قرار داد کی مکمل تصویب و تائید کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے بعد ’’مضمرات اور مقدرات‘‘ مولانا مودودی کی تقریر میں بیان ہونے سے رہ گئے ہیں جنہیں بیان کیا جانا ضروری ہے. یہ ’’مضمرات اور مقدرات‘‘ ظاہر ہے کہ اصلاً اُن کے اس حملے کے منطقی نتائج تھے جس کا اضافہ اُن کے اصرار پر اِس قرار داد میں ہوا تھا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ مولانا اصلاحی کی ذہانت اور فطانت کا نہایت حیران کن مظہر تھا کہ انہوں نے ایک طویل قرار داد میں گنتی کے چند الفاظ کے اضافے سے اپنے پورے فکری اختلاف کو سمو دیا تھا. بہر حال اب جو مولانا اصلاحی نے اُن ’’مضمرات اور مقدرات‘‘ کو بیان کرنا شروع کیا تو مولانا مودودی کے موقف اور نظریئے کی کامل تردید ہو گئی اور گویا ایک ’دعویٰ‘ (Thesis) کے مقابلے میں ’’جوابِ دعویٰ‘‘ (Anti-Thesis) پوری آب و تاب اور کامل شان و شوکت کے ساتھ سامنے آ گیا. 

مولانا اصلاحی کی یہ تقریر جہاں دلائل و براہین سے مسلح‘ اور شکوہِ الفاظ اور حسن بیان سے مرصع 
اور مسجع تھی‘ وہاں جذبہ و جوش کا مظہر اتم اور حسن خطابت کا اعلیٰ مرقع بھی تھی افسوس کہ فکر صحیح اور فن خطابت کا یہ شاہکار امتزاج ریگستانِ بہاولپور کی خاموش فضاؤں میں تحلیل ہو کر رہ گیا. اور اب اُس کا مکمل ریکارڈ تو دُور رہا، اُس کے مضمون کا خلاصہ بھی صفحہ ہستی سے ناپید ہو چکا ہے (اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ قیامت کے دن مولانا کا یہ بیان جماعت کی قیادت کے خلاف بہت بڑے الزام اور حجت کے طور پر پیش ہو گا!) … کاش کہ جماعت نے اسے محفوظ رکھا ہوتا تو خواہ اُس وقت ان کا موقف ردّ کر دیا گیا تھا‘ بعد میں مزید غور و فکر اور نظر ثانی کا امکان تو باقی رہتا اور اگر بالفرض اس کی نوبت بھی نہ آتی تو آنے والی نسلوں کو تو معلوم ہو سکتا کہ تاریخ جماعت اسلامی کے اس اہم موڑ پر کس نے کیا کہا تھا اور کس کا موقف کیا تھا؟ … اور یہ صورت تو نہ ہوتی کہ ؎

اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغبان
بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صباچہ کرد؟

کے مصداق کسی کو کچھ معلوم نہیں لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘
جہاں تک یادداشت کام کرتی ہے‘ مولانا اصلاحی کی پوری تقریر ایک لفظ یعنی ’’توازن‘‘ کے گرد گھومتی تھی جو خود مولانا مودودی کی مرتب کردہ قرار داد کے اصل متن میں بھی شامل تھا. البتہ مولانا اصلاحی نے اُس میں جس جملے کا اضافہ کرایا تھا اس سے وہ زیادہ مؤکد بھی ہو گیا تھا اور اس نے گویا پورے لائحہ عمل کے لیے محافظ اور مہیمن کی صورت اختیار کر لی تھی. 

قرار داد اور اس کی ترمیمیں

مولانا مودودی نے اپنی قرار داد کی بناء اس لائحہ عمل پر قائم کی تھی جو انہوں نے ۱۹۵۱ء کے سالانہ اجتماع کے موقع پر پیش کیا تھا. اور جس پر اصولی اعتبار سے جماعت اُس وقت سے عمل پیرا تھی یہ لائحہ عمل چار اجزاء پر مشتمل تھا یعنی (۱) افکار کی تطہیر اور تعمیر نو. (۲) صالح افراد کی تلاش و تنظیم و تربیت. (۳) اجتماعی اصلاح کی سعی (یعنی اصلاحِ معاشرہ) اور (۴) نظامِ حکومت کی اصلاح. 

جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲۵؍ نومبر تا ۱۰ دسمبر ۱۹۵۶ء میں جو قرار داد منظور کی تھی اس کی شق نمبر ۲ ان الفاظ پر مشتمل تھی:

’’۲ مجلس شوریٰ کی رائے میں جو لائحہ عمل ۱۹۵۱ء کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں پیش کیا گیا تھا اور جو اب تک جماعت اسلامی کا لائحہ عمل ہے وہ اصولاً بالکل درست ہے اس کو برقرار رہنا چاہیے. لیکن مجلس شوریٰ یہ محسوس کرتی ہے کہ دستور اسلامی کی پیہم جدو جہد کی وجہ سے لائحہ عمل کے پہلے تین اجزاء کے لیے خاطر خواہ کام نہیں ہو سکا ہے اور اس کے باعث ہمارے بنیادی کام میں بہت بڑی کسر رہ گئی ہے. اس لیے مجلس کی متفقہ رائے یہ ہے کہ جماعت کی بنیادی دعوت اور لائحہ عمل کے پہلے تین اجزاء کی طرف اب پوری توجہ اور کوشش صَرف کرنے کی ضرورت ہے اور اس پنا پر سر دست کسی انتخابی مہم کے لیے کام کرنا قبل از وقت ہو گا. البتہ اسلامی اقدار کے قیام و بقا اور دستورِ اسلامی کے تحفظ ’اصلاح اور نفاذ کے لیے ناگزیر اقدامات سے دریغ نہ ہونا چاہیے‘‘. 

قرار داد ماچھی گوٹھ میں مولانا مودودی نے نہ صرف یہ کہ اس پورے قضیے کو بالکل گول کر دیا‘ بلکہ ایک قدم آگے بڑھا کر سارا زور ’’قیادت کی تبدیلی‘‘ پر مرکوز کر دیا … اور مخالف ذہن کی تسلی اور اطمینان کے لیے صرف اس اصولی اور مبہم بات پر اکتفا کی کہ:

’’اس موقع پر ایک صالح قیادت کو بروئے کار لانے کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ اس لائحہ عمل کے چاروں اجزاء پر توازن کے ساتھ اس طرح کام کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے کہ ہر جزو کا کام دوسرے جزو کے لیے موجب تقویت ہو!‘‘ . 

مولانا امین احسن اصلاحی نے اسی ’’توازن’‘‘ پر مورچہ لگاتے ہوئے قرار داد میں اس مقام پر ان الفاظ کا اضافہ کرایا تھا کہ:

’’اور جتنا کام پہلے تین اجزاء میں ہوتا جائے اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دینی نظام کے حامیوں کا نفوذ و اثر عملاً بڑھتا چلا جائے‘‘. 
چنانچہ اب ارکانِ جماعت کے اجتماعِ عام میں جب مولانا اصلاحی نے اپنے اس جملے کے 
’’مضمرات اور مقدرات‘‘ کو کھول کر بیان کیا تو ان کی پوری تقریر عملاً دسمبر ۵۶ء کی قرار داد شوریٰ کی مندرجہ بالا شق نمبر ۲ کی تشریح و تفسیر بن گئی (۱اور اس طرح جماعت کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں یا اصحابِ حل و عقد کے مابین جماعت کی پالیسی اور طریق کار کے بارے میں جو متضاد خیالات اور نظریات ایک عرصے سے پروان چڑھ رہے تھے‘ اور جن کی سرے سے کوئی خبر یا اطلاع جماعت کے اراکین کی عظیم اکثریت کو نہیں تھی اچانک ایک بھیانک تضاد کی صورت میں اجتماع ارکان کے سامنے آ گئے. چنانچہ پورا مجمع ایسے ہو گیا جیسے اُسے سانپ سونگھ گیا ہو‘ اور جملہ اراکین جماعت پر ایک حالت منتظرہ طاری ہو گئی کہ ؎

دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!


نعیم صدیقی صاحب کی جانب سے مولانا اصلاحی کا تعاقب

اس پر ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے انداز میں ارکان مجلس شوریٰ میں مولانا مودودی کے موقف اور نقطہ ٔ نظر کے سب سے بڑے حامی اور طریق کار اور پالیسی کے ضمن میں مولانا کے خیالات کے سب سے بڑے ترجمان جناب نعیم صدیقی اُٹھے اور انہوں نے ایک بھر پور تقریر میں ’’توازن‘‘ کے اس ’’ہیضے‘‘ کو ’’ذہنی عدمِ توازن‘‘ کا مظہر اور شاخسانہ قرار دیا اور گویا مولانا اصلاحی اور ان کے ہم خیال لوگوں کو خلل دماغی کے عارضہ میں مبتلا یعنی ذہنی مریض قرار دے دیا نفس مضمون سے قطع نظر‘ نعیم صدیقی صاحب کی تقریر بھی ایک جانب نہایت مرتب اور مربوط بھی تھی‘ اور دوسری جانب فصاحب و بلاغت کا حاشیہ (۱): اس مرحلہ پر مولانا اصلاحی کا ایک یادگار جملہ تو نقل کئے بغیر آگے بڑھنے پر طبیعت ہرگز آمادہ نہیں ہے جو راقم کو حرف بحرف یاد ہے. مولانا نے انقلاب قیادت کی جدو جہد کے ضمن میں اس چار نکاتی لائحہ عمل کے چاروں اجزاء کے مابین ’توازن‘‘ برقرار رکھنے کی اہمیت کے سلسلے میں فرمایا کہ:

’’اگر اس کے بغیر آپ کبھی کسی الٹی سیدھی تدبیر سے قیادت کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ایسی دولتی رسید کرے گا کہ قیادت و سیادت کا سارا نشہ ہرن ہو جائے گا!‘‘ 
عمدہ نمونہ تھی. اور اگرچہ راقم الحروف کی یہ رائے اپنے زمانہ طالب علمی ہی کے دوران پختہ ہو چکی تھی کہ نعیم صاحب نے اپنے اندازِ تقریر میں ایک حد تک مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی دونوں کے اسلوب خطاب کی خوبیوں کو جمع کر لیا ہے‘ چنانچہ اُن کی تقریر میں مولانا مودودی کا سا ربط و تسلسل بھی ہوتا ہے اور مولانا اصلاحی کا سا خطیبانہ انداز بھی‘ تاہم اُن کی اس تقریر کے بارے میں یہ باور کرنا میرے لیے بھی مشکل تھا کہ وہ فی الفور یعنی ارتجالاً (Extempore) کی گئی تھی اور اسے قارئین خواہ میرے سوءظن پر محمول کر لیں‘ خواہ انگریزی محاورے (Too Good To Believe) کے مطابق اندازِ تحسین پر‘ بہر حال تقریر کا انداز تو اِسی کی غمازی کر رہا تھا کہ اسے پہلے ہی سے خوب اچھی طرح تیار کیا گیا تھا (واللہ اعلم !!)

اس کا نتیجہ وہی نکلا جو منطقی طور پر نکلنا چاہیے تھا یعنی وہ بحران جس نے مولانا اصلاحی کی تقریر کے بعد ایک سکتہ بلکہ سکوت مرگ کی سی کیفیت اختیار کر لی تھی نعیم صاحب کی تقریر کے بعد ایک ہیجان کی صورت اختیار کر گیا. اور تھوڑی دیر کے لیے تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے پورے مجمعے نے دو متحارب گروپوں کی صورت اختیار کر لی ہے.

مولانا مودودی کی جانب سے دعوتِ مبارزت

اس ہیجانی اور طوفانی کیفیت میں مولانا مودودی دوبارہ سٹیج پر آئے اور انہوں نے اولاً اپنے مخصوص دھیمے اور پُر سکون انداز میں مولانا اصلاحی کے اعتراضات اور دلائل کا ردّ کیا اور تان اس پر توڑی کہ اگر اس قرار داد سے یہ مطالب بھی اخذ کئے جا رہے ہیں‘ یا ان ’’مقدرات و مضمرات‘‘ کو بھی مستنبط کیا جا رہا ہے تو میں اس کے سد باب کے لیے اس میں ابھی ترمیم کئے دیتا ہوں تاکہ آئندہ کے لیے کسی ابہام یا اشتباہ کا امکان ہی باقی نہ رہے چنانچہ انہوں نے قرار داد میں مولانا اصلاحی کے اصرار پر اضافہ شدہ الفاظ کے فوراً بعد ان الفاظ کا اضافہ کر دیا کہ: 
’’مگر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ توازن قائم نہ رہنے کو کسی وقت بھی اس لائحہ عمل کے کسی جزو کو ساقط یا معطل یا مؤخر کر دینے کے لیے دلیل نہ بنایا جا سکے گا!‘‘.

اسے عوامی اندازِ بیان میں یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح مولانا مودودی نے مولانا اصلاحی کے نہلے پر دہلا دے مارا‘ اور بھرے مجمعے میں مولانا اصلاحی کو دعوتِ مبارزت دیدی کہ اگر ہمت اور سکت ہے تو مقابلے میں آ جاؤ‘ اور اِس قرار داد سے اپنا اتفاق واپس لیتے ہوئے کوئی متبادل قرار داد یا قرار دادِ عدم اعتماد لے کر سامنے آؤ تاکہ آٹے دال کا بھاؤ بھی معلوم ہو جائے‘ اور یہ بات بھی کھل جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے! گویا (غالب کے مصرعے میں قدرِ قلیل تبدیلی کے ساتھ) ’’آؤ یہ گوئے ہے‘ اور یہ میدان!‘‘

مولانا مودودی کی جانب سے اس واضح چیلنج کے بعد کے چند لمحات نہ صرف اجتماعِ ماچھی گوٹھ بلکہ جماعت اسلامی کی پوری تاریخ کے لیے فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں. اس لیے کہ مولانا مودودی نے ایک بار پھر اپنے مزاج کی مستقل ساخت‘ یا گزشتہ چند مہینوں کے دوران میں ظاہر ہونے والے حالات و واقعات کی بنا پر پیدا شدہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کی فوری اور وقتی کیفیت کے تحت ایسا قدم اٹھا دیا تھا جس سے نہ صرف یہ کہ دستورِ جماعت کی روح بُری طرح مجروح ہو رہی تھی بلکہ معقولیت کے جملہ تقاضے بھی پامال ہو کر رہ گئے تھے. اور ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ اگر اُس وقت مولانا اصلاحی بھی اپنی راجپوتی آن اور شان کا مظاہرہ کرتے تو اغلباً جماعت کی مکمل تباہی ورنہ کم از کم اِس کا دو حصوں میں تقسیم ہو جانا لازمی و لابدی تھا.