مولانا مودوی مرحوم کے اس ’’نقض غزل‘‘ (۱) کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے جن ارکان نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی اُن کی کل تعداد تو غالباً ایک سو سے زائد نہ تھی‘ لیکن مجموعی تعداد سے اہم تر بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کی قیادت کی صف دوم تقریباً بالکل ’صاف‘ ہو گئی اس پہلو سے جو شدید نقصان جماعت اور تحریک کو پہنچا اس کا کسی قدر اندازہ حسب ذیل تجزیئے سے ہو سکتا ہے:
(۱): وہ چاروں حضرات جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے جن پر گزشتہ دس سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً مولانا مودودی کی نظر بندی کے دوران امارتِ جماعت کی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا تھا‘ اور اس طرح گویا جماعت میں ان کی حیثیت اور مرتبہ و مقام مسلّم تھا‘ یعنی مولانا عبد الجبار غازی‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ مولانا عبد الغفار حسن‘ اور شیخ سلطان احمد. واضح رہے کہ ان ہی میں سے تین حضرات جائزہ کمیٹی کے رکن بھی تھے.
(۲): جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی اکثریت یا باضابطہ علیحدہ ہو گئی یا ’’مفلوج‘‘ ہو کر رہ گئی‘ اس لیے کہ اُن بیس ارکان میں سے جو عرصہ؛ دراز سے تقریباً مستقل طور پر شوریٰ میں شامل چلے آ رہے تھے اور اس طرح گویا جماعت میں انہیں ’’ارباب حل و عقد‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی‘ آٹھ تو جماعت سے باضابطہ علیحدہ ہو گئے‘... یعنی متذکرہ بالا چار حضرات کے علاوہ حکیم عبد الرحیم اشرف (کنوینر جائزہ کمیٹی). چودھری عبد الحمید (فیصل آباد). جناب سعید ملک (لاہور) اور سردار محمد اجمل خان لغاری (رحیم آباد‘ ریاست بہاولپور). اور بقیہ بارہ میں سے بھی کم از کم نصف ایسے تھے جنہوں نے رکنیت جماعت سے مستعفی ہونے کا انتہائی قدم تو فوری طور پر نہیں اٹھایا لیکن ان کے خیالات و نظریات وہی تھے جو مستعفی ہونے والے حضرات کے تھے‘ لہٰذا وہ جماعت میں عضو معطل ہو کر رہ گئے چنانچہ اُن میں سے بعض کو تو یہ صدمہ گھن کی طرح کھا گیا. اور وہ جلد ہی انتقال کر حاشیہ (۱): بحوالہ سورۃ النحل آیت ۹۲) گئے جیسے محمد باقر خاں (ملتان) اور دوسرے کچھ عرصہ کے بعد مختلف وقفوں کے ساتھ جماعت کو چھوڑ گئے جیسے مولانا عبد الحق جامعی (خان پور) ڈاکٹر محمد نذیر اسلم (رحیم یار خاں) اور سید وصی مظہر ندوی (حیدر آباد‘ سندھ) وغیرہم. اور بعض جماعت کے ساتھ چلتے تو زندگی کے آخری لمحے تک رہے‘ لیکن ان میں وہ پچھلا سا جوش و خروش باقی نہ رہا جیسے خان سردار علی خاں (سرحد).
(۳): مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبد الغفار حسن کے علاوہ جماعت کے ارکان میں سے صرف ایک ہی عالم دین اور تھے جو تصنیف و تالیف کی بنا پر معروف تھے‘ یعنی مولانا افتخار احمد بلخی (مرحوم). وہ بھی جماعت سے علیحدہ ہو گئے.
(۴): اسی طرح روزنامہ صحافت کے میدان میں بھی صرف دو ہی ارکان جماعت نمایاں ہوئے تھے‘ یعنی جناب سعید ملک‘ اور ارشاد احمد حقانی‘ یہ دونوں بھی جماعت کو چھوڑ گئے.
جماعت اسلامی کی قیادت کی دوسری صف کی اس پوری ٹیم کے دفعتاً میدان سے ہٹ جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت میں فوری طور پر شدید قحط الرجال پیدا ہو گیا (۱) جس کے اثرات تا حال محسوس ہو رہے ہیں‘ کہ ؎
نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گِل ایراں‘ وہی تبریز ہے ساقی
کے مصداق جماعت میں پھر نہ کوئی صاحب فکر اور صاحب تصنیف عالم ابھر کر سامنے آ سکا‘
حاشیہ (۱): اس ضمن میں بھی یہ لطیفہ یا کثیفہ ریکارڈ ہو جائے تو اچھا ہے کہ سانحہ ماچھی گوٹھ کے کچھ عرصے بعد مولانا مودودی مرحوم دورے پر کراچی تشریف لے گئے تو وہاں اجتماعِ ارکان میں جماعت سے ایسے اہم لوگوں کی علیحدگی پر اکثر ارکانِ جماعت نے شدید تشویش کا اظہار کیا. اس پر مولانا مودودی نے اعداد و شمار کے حوالے سے جواب دیا کہ جتنے لوگ جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیں انہی دنوں میں ان سے زائد جماعت میں شامل ہو گئے ہیں‘ تو ایک خاتون نے مولانا کی خدمت میں ایک رقعہ ارسال کیا جس پر درج تھا: ’’مولانا آپ نے ہیرے پھینک کر جھولی میں کنکریاں بھر لی ہیں!‘‘ اور یہ خاتون شیخ سلطان احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ تھیں! جو شیخ صاحب موصوف کے مستعفی ہو جانے کے بعد بھی کافی عرصہ تک جماعت کی رکن رہیں!
نہ کوئی نیا ادیب یا صحافی منظر عام پر آ سکا (اس میدان میں آ کر کچھ نوجوان سامنے آئے بھی‘ تو انہوں نے اپنا ’’جداگانہ تشخص‘‘ برقرار رکھنے کو ترجیح دی‘ اور جماعت میں شمولیت کو اپنے مقام سے فروتر گردانا!) نہ ہی کوئی صاحب فکر داعی سامنے آ سکا جو اپنے زورِ خطابت سے ’’روح کو تڑپا دے اور قلب کو گرما دے!‘‘
اور اس سے بھی بڑھ کر روح فرسا اور حسرت ناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جماعت کے دَور اول کے ان ’’باقیات الصالحات‘‘ کے جماعت سے علیحدہ ہونے کے بعد جماعت کو تیزی سے اپنے سابق موقف سے کامل انحراف‘ سابقہ پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں‘ اور عوام الناس کے حافظے کے کمزور ہونے کے مشہور اصول پر اعتماد کرتے ہوئے پے در پے قلابازیاں کھانے اور ؏ ’’چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رو کے ساتھ!‘‘ کے مصداق آئے دن بلا جھجھک اپنی وفاداریوں اور سیاسی ’’قبلوں‘‘ کے تبدیل کرنے سے روکنے والی کوئی مؤثر قوت موجود نہ رہی‘ یہی سبب ہے اس کا کہ: یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ کے مصداق جماعت کی زمین بھی تبدیل ہو گئی اور آسمان بھی بدل گیا. تا آنکہ آج صورت یہ ہے ؏ ’’کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!‘‘
(۵): متذکرہ بالا حضرات تو وہ ہیں جو اُس وقت کُل پاکستان سطح پر معروف تھے (اور اُن کی یہ فہرست بھی ظاہر ہے کہ کسی طرح مکمل نہیں ہو سکتی. اس لیے کہ اس کی بنیاد صرف حافظہ اور یادداشت پر ہے) ان کے علاوہ ایسے حضرات کی فہرست بہت طویل ہے جو اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں مختلف اعتبارات سے معروف اور ممتاز تھے‘ جیسے مثلاً کراچی میں جناب ظفر الاحسن‘ اور شیخ جمیل الرحمن جماعت کے ساتھ طویل تعلق کے علاوہ اصابت رائے کے اعتبار سے معروف تھے‘ تو ڈاکٹر مسعود الدین حسن عثمانی مرحوم سرگرم اور فعال ترین کارکنوں کی فہرست میں بلند ترین مقام پر فائز ہونے کے علاوہ انفاق مال اور خدمت خلق کے اعتبار سے بہت مشہور تھے. اسی طرح فیصل آباد کے میاں فضل احمد مرحوم جماعت سے طویل تعلق اور اصابت رائے کے اعتبار سے ممتاز تھے تو چودھری قدرت علی حلقہ کے قیم ہونے کی بنا پر معروف تھے‘ اسی طرح لاہور میں چودھری قدرت علی کے چھوٹے بھائی جناب مصطفی صادق بھی چونکہ طویل عرصہ تک حلقہ لاہور کے قیم رہے تھے لہٰذا تنظیمی و انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر تو نمایاں تھے ہی‘ اب صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھ چکے تھے‘ اور ان کے علاوہ مولوی محی الدین سلفی مرحوم‘ مولوی برکت علی‘ خلیفہ نذیر احمد اور میاں محمد اسلم نہایت فعال کارکنوں میں شامل تھے. اسی طرح ساہیوال سے جو ارکان جماعت سے علیحدہ ہوئے ان میں میرے بڑے بھائی اظہار احمد اس اعتبار سے نمایاں تھے کہ ان کا تحریک سے تعلق قبل از تقسیم ہند سے تھا اور وہ اس زمانے میں اپنی گزیٹڈ افسری کی قربانی دے چکے تھے جب یہ بہت بڑا عہدہ شمار ہوتا تھا‘ تو سید شیر محمد شاہ‘ نور محمد قریشی اور حافظ خادم احمد وغیرہم نہایت سنجیدہ لیکن فعال کارکنوں میں شامل تھے. وَقِس علٰی ذٰلِک!!
اس ’’نقض غزل‘‘ کا شکار ہونے والے جتنے ارکانِ جماعت سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں ان میں نوجوان اور وجیہہ ‘ ذہین اور فطین‘ فعال اور سرگرم‘ محنتی اور ایثار پیشہ‘ اور سنجیدہ و متین لیکن خوش گفتار و خوش مزاج کارکنوں کا سب سے حسین گل دستہ سکھر شہر سے تعلق رکھتا تھا. اُن میں محترم نجیب صدیقی صاحب کے علاوہ جن کے نام یاد آ سکے وہ ہیں: میاں محمد لطیف مرحوم‘ شیخ سرتاج الدین سولیجہ مرحوم‘ شیخ محمد عمر‘ خورشید عاقل صدیقی‘ جناب عزیز حمیدی اور جناب عبد السمیع. ان سب حضرات کے چہرے اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہیں اور یہ پورا گل دستہ میرے لیے تاحال ؎
پھر رہا ہے میری آنکھوں میں وہی جان بہار...
جس کا رنگ کوئی پھول گلستاں میں نہیں !
کی حیثیت رکھتا ہے. اور یہ تو صرف اُن ارکانِ جماعت کے نام ہیں جن سے میں متعارف تھا‘ اور ان میں سے بھی صرف وہ جو فی الفور یاد آ سکے (ویسے جیسے جیسے یادداشت کا محافظ خانہ کھلا ہے کچھ اور نام بھی یاد آ رہے ہیں‘ جیسے کراچی کے جناب سالم جان اور اختشام الدین‘ فیصل آباد کے چودھری غلام حسین رندھاوا اور حافظ علم الدین‘ منڈی ڈھاباں سنگھ کے مولانا محمد حنیف امرتسری‘ شیخوپورہ کے ڈاکٹر نذیر محمد اور گگو منڈی کے مولوی عبد الرحیم وغیرہم. لیکن ظاہر ہے کہ اس فہرست کو لمبا کرنے سے کچھ حاصل نہیں‘ اصل قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک خلوص و اخلاص کا مجسمہ اور وفا کا پتلا تھا). جماعت سے علیحدگی کے عمل کے دوران یہ سب نہایت شدید صدمہ سے دوچار رہے‘ اس کے بعد بھی ان سب پر ایک عرصے تک سکتہ سا طاری رہا‘ اور بالآخر سب کے سب حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے.
ان حوادث کے باعث رنج و غم اور صدمہ کی شدت کے اندازے کے لیے چند مثالیں کفایت کریں گی:
(۱): مولانا عبد الجبار غازی رحمہ اللہ نے نومبر دسمبر ۵۶ء کی جائزہ کمیٹی کی رپورٹ والے اجلاسِ شوریٰ کے دوران رو رو کر مولانا مودودی کو جماعت کے ابتدائی ایام کی کیفیات یاد دلائیں اور گڑگڑا کر کہا کہ ’’مولانا! خدا کے لیے باہمی اعتماد کی وہی فضا دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کیجئے!‘‘ لیکن جب انہیں مولانا کی جانب سے سرد مہری کا احساس ہوا تو اس صدمہ کے باعث ان پر دل کا دورہ پڑا اور وہ صاحب فراش ہو گئے. اور اس کے چند ہی روز بعد وہ خاموشی کے ساتھ ماچھی گوٹھ کے اجتماع سے بہت پہلے ہی رکنیت سے مستعفی ہو کر راولپنڈی چلے گئے.
(۲): گگو منڈی کے مولوی عبد الرحیم ایک نوجوان اہل حدیث عالم دین تھے. اور ان کی بہت طویل اور گھنی داڑھی تھی. ایک بار وہ جماعت اسلامی ساہیوال کے شفاخانے میں مجھ سے ملاقات کے لیے آئے تو اس وقت کے حالات پر اس طرح دھاڑیں مار مار کر روئے کہ چپ کرانا محال ہو گیا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ
(۳): میرے اور مولانا عبد الغفار حسن کے ایک مشترک عزیز عتیق احمد صاحب ایم اے‘ ایل ایل بی علیگ (مرحوم) ماچھی گوٹھ جاتے ہوئے اختلاف کے تذکرے اور چرچے سے اتنے شدید متاثر ہوئے کہ فوری طور پر دماغی توازن کھو بیٹھے‘ چنانچہ انہیں راستے ہی میں رحیم یار خاں کے اسٹیشن پر اتار لینا پڑا‘ اور ان کی تیمارداری کی مصروفیت کے باعث مولانا عبد الغفار حسن بھی اجتماعِ ماچھی گوٹھ میں صرف جزوی طور پر شریک ہو سکے! یہ چند مثالیں ’’نمونہ مشتے از خروارے‘‘ کے مصداق ہیں…؏ ’’قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا!!‘‘.
اور یہ تو ’’نقض غزل‘‘ کے نقصانات کا صرف ایک رخ ہے!
اس بھیانک تصویر کا دوسرا اور افسوس ناک تر رُخ یہ ہے کہ صرف ان چند علماء کرام کو چھوڑ کر جو جماعت میں شامل ہونے سے پہلے بھی مذہبی زندگی ہی بسر کرتے تھے‘ اور جو جماعت سے علیحدگی کے بعد بھی خدمت دین کے ضمن میں مختلف النوع مشاغل جیسے تصنیف و تالیف‘ تعلیم و تدریس‘ تبلیغ و اصلاح‘ یا خطابت و امامت میں مصروف ہو گئے‘ جماعت سے مستعفی ہونے والے لوگوں کی عظیم اکثریت رفتہ رفتہ ماحول میں جذب ہوتی چلی گئی. ان میں سے بعض تو اس حد تک بھی پہنچ گئے کہ نماز روزے سے بھی گئے اور داڑھیاں بھی غائب ہو گئیں‘ اکثر و بیشتر نے روایتی طور پر دین کے شعائر کی تھوڑی بہت پابندی تو جاری رکھی لیکن اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو بگٹٹ حصولِ دنیا کے رُخ پر ڈال دیا! اور اس کے ضمن میں مجبوری کے عذر کے تحت زمانے کے جملہ مروّجہ طور طریقے اختیار کر لیے!! اور اس طرح گویا ان کی اخلاقی اور روحانی موت واقع ہو گئی راقم کو جب کبھی ایسے لوگوں کا خیال آتا ہے تو کبھی تو یہ مصرعہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے کہ ؏ ’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟‘‘. اور کبھی یہ شعر ذہن میں اٹک کر رہ جاتا ہے ؎
ممکن ہو گر تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟
بعض حضرات ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو حصولِ دولت کی دوڑ‘ اور معیارِ زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کے جنون سے تو بچا لیا لیکن خواہ اس سبب سے کہ عمر کی ایک خاص حد سے گزرجانے کے باعث کسی نئے تجربے یا از سر نو عزم سفر کی ہمت نہ رہی‘ خواہ اس وجہ سے کہ کوئی نیا قافلہ تشکیل نہ پا سکا‘ یا ؏ ’’ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں‘‘ کے مصداق کسی نئے ’’پر دل نہ ٹھکا‘ بہر حال جب اقامت دین کے رُخ پر کوئی عملی پیش قدمی نہ ہو سکی تو اُن کی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ گئیں اور وہ ؏ ’’میں ہوں اپنی شکست کی آواز!‘‘ کے مصداق کامل اور ؎
تری رہبری کا یہ فیض ہے‘ قدم اہل شوق کے رک گئے
نہ کوئی جوازِ سفر ملا‘ نہ کوئی دلیل قیام ہے!!
کی مجسم تصویر بن کر رہ گئے!
اور اس داستان کا الم ناک ترین باب یہ ہے کہ بعض اکابر علماء جو جماعت میں تھے تو شعلہ جوالہ اور مجسم حرکت و عمل تھے رفتہ رفتہ ؎
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے!
کی تصویر بن گئے. اور جیسے جیسے وقت گزرا ان کے دینی فکر اور مذہبی تصورات میں سے تحریکی عنصر ختم ہوتا چلا گیا تا آنکہ آج حال یہ ہے کہ جن کے نزدیک کبھی دعوتِ دین اور اقامت دین کی جدو جہد فرضِ عین کا درجہ رکھتی تھی آج مختلف حیلوں بہانوں سے اُس کا استخفاف کر کے صرف علمی و تعلیمی کاموں کو کافی و شافی قرار دے رہے ہیں‘ اور جن کے نزدیک کبھی التزامِ جماعت لازم اور لابدّ منہ ہوا کرتا تھا آج جماعت سازی کو ’’فتنہ‘‘ قرار دے رہے ہیں اور اس طرح ؏ ’’بہ بیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا‘‘ اور ؏ ’’کہ ہم نے انقلاب چرخِ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں‘‘ سے بھی بڑھ کر اِس شعر کے مصداق کامل بن گئے ہیں کہ ؎
خود بدلتے نہیں‘ قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
الغرض اکابر و اصاغر اور عالموں اور عامیوں سمیت جماعت سے علیحدہ ہونے والے لوگوں کی اکثریت دین کے کم از کم تحریکی تصور سے‘ نظری نہیں تو عملی طور پر دست بردار ہو گئی. اور اب ان میں سے بیشتر کا حال اس شعر کے مطابق ہے کہ ؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں‘ راکھ کا ڈھیر ہے
اور صرف معدودے چند لوگوں کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ؏ ’’ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک!‘‘ یا کم از کم ؏ ’’آگ بجھی ہوئی نہ جان‘ آگ دبی ہوئی سمجھ!‘‘ کے مصداق ہیں!. گویا بحیثیت مجموعی جماعت سے علیحدہ ہونے والے لوگوں پر یہ شعر صد فی صد راست آتا ہے کہ ؎
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
اور اس طرح ’’نقض غزل‘‘ کے اس حادثہ فاجعہ نے دو دھاری تلوار کا کام کیا کہ ایک جانب دعوتِ دین اور تحریک اسلامی کو شدید نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ایک معتدبہ تعداد میں مخلص اور متحرک خادمانِ دین کو کم از کم تحریکی اعتبار سے موت کے گھاٹ اتار دیا ؏ ’’ڈھونڈ اب اُن کو چراغِ رُخ زیبا لے کر‘‘.