تحریر ۱۵؍ نومبر ۱۹۵۴ء



بسم اللہ الرحمن الرحیم 

بخدمت امیر جماعت اسلامی پاکستان
بتوسط امیر جماعت اسلامی منٹگمری
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
میں کافی غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کے بعد اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے پیش کرتا ہوں. گوشوارہ کے سوالات کے جوابات نمبر وار ذیل میں درج کر رہا ہوں:

۱. اسرار احمد ولد شیخ مختار احمد صاحب مکان نمبر ۴۷۷، گرجا گلی‘ بلاٹ گج منٹگمری.
۲. اس وقت تقریباً ساڑھے بائیس سال (تاریخ پیدائش ۲۶؍ اپریل ۱۹۳۲ء)
۳. ا: فنی تعلیم کے سلسلے میں‘ میں نے اسی سال پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا ہے. 
ب: علومِ عمرانی کا باقاعدہ کسی تعلیمی ادارے میں تو میں نے مطالعہ نہیں کیا ہے تاہم چونکہ مجھے ان کے مطالعہ کا شوق رہا ہے لہٰذا ان کے سلسلے میں‘ میں نے اپنے طور پر کچھ پڑھا ہے جو اگرچہ مجموعی طور پر تو کافی ہے تاہم علیحدہ علیحدہ ہر مضمون میں ہنوز ابتدا ہی کا معاملہ ہے!

ج: علم دین بھی اگرچہ باقاعدہ کسی دینی درس گاہ میں حاصل نہیں کیا ہے تاہم اس میں بھی میں نے اپنے ذاتی مطالعہ سے خاصی استعداد بہم پہنچائی ہے. تھوڑی سی عربی بھی جانتا ہوں. چنانچہ قرآن و حدیث کا براہِ راست مطالعہ بھی میں نے کیا ہے اس کے علاوہ جماعت اسلامی‘ دار المصنفین اعظم گڑھ‘ ندوۃ المصنفین دہلی اور تھانہ بھون کی مطبوعات کا کافی مطالعہ کیا ہے اور اس طرح دینی علوم میں بھی ابتدائی معلومات کا ایک اچھا ذخیرہ میں نے فراہم کر لیا ہے. 

اگرچہ یہ چیز سوال نمبر ۳ کے براہِ راست احاطہ میں تو نہیں آتی تاہم میں اس کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں‘ اور وہ حصول علم کے سلسلے میں میرے آئندہ ارادوں کا معاملہ ہے. فنی تعلیم کو تو میں اپنے طور پر ختم کر چکا ہوں اور مزید اس سلسلے میں باقاعدہ مطالعے کا میرا کوئی پروگرام نہیں ہے. باقی ’ب‘ اور ’ج‘ میں سے بھی علومِ عمرانی کو ثانوی درجے پر رکھتے ہوئے میں اپنی اصل توجہ علم دین کے حصول پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں. میرا ارادہ ہے کہ پہلے عربی کا باقاعدہ مطالعہ کروں اور پھر قرآن اور حدیث اور دوسرے علوم کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دوں. 
وَ اللّٰہ المُسْتَعَان! 
۴ . ذریعۂ معاش ....کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب میرے ہاتھ میں ایسا ہنر آ گیا ہے جس کے ذریعے میں اپنی معاشی ضرورت کو آزادانہ پورا کرنے کے ساتھ تحریک کے کام اور حصول علم کے لیے بھی خاصا وقت نکال سکوں. فی الحال میں جماعت اسلامی منٹگمری کے شفاخانے میں کام کر رہا ہوں. 

۵. یہ ایک لمبی داستان ہے‘ میں میٹرک کے زمانے ہی میں (۴۷ء) مطالعے کے شوق کی وجہ سے جماعت کے لٹریچر سے آشنا ہو چکا تھا، اس زمانے میں‘ میں ضلع حصار میں تھا. وہاں مرزا مسرت بیگ صاحب اور چوہدری نذیر احمد صاحب ایم اے سے میرا تعارف تھا اور یہ حضرات مجھے مطالعہ کے لیے کتابیں دیتے تھے جنہیں میں پڑھا کرتا تھا. اس زمانے میں‘ میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ورکر تھا لہٰذا میں نے اس طرف زیادہ توجہ نہ دی. انقلاب ۴۷ء کے دوران ہم لوگ حصار میں محصور ہو گئے تھے اور اس طرح تقریباً ایک ماہ بہت فرصت کا 
مل گیا. اس زمانے میں‘ میں تفہیم القرآن سے روشناس ہوا اور یہ مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوئی. بس اس کے بعد میں نے جماعت کی مطبوعات کو ایک کے بعد دوسری کے حساب سے پڑھنا شروع کر دیا اور پاکستان آنے کے بعد جلد ہی میں نے جماعت کے لٹریچر میں سے مولانا مودودی صاحب کی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں. مولانا امین احسن صاحب کی کتابیں اس زمانے میں خشک معلوم ہوتی تھیں. اس کے بعد میں نے جماعت اسلامی حلقہ کرشن نگر کے ساتھ عملاً کام شروع کر دیا. کچھ دنوں بعد جب میں جمعیت طلبہ میں داخل ہو گیا تو اگرچہ جماعت اسلامی سے تنظیمی اعتبار سے توکٹ گیا لیکن فکری طور پر وہ تمام غذا جو اس وقت تک جماعت اسلامی نے فراہم کی ہے میں برابر ہضم کرتا رہا ہوں. ترجمان کے پرانے فائلوں میں سے بہت سے میں نے حاصل کیے اور پڑھ ڈالے. مختصراً اب یہ حال ہے کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب کی تصانیف میں نے تقریباً تمام پڑھ ڈالی ہیں. یہ تقریباً کا لفظ اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ ممکن ہے کہ جماعت اسلامی میں آنے سے قبل ان حضرات نے کچھ لکھا ہو جس کا تعلق اس تحریک سے نہ ہو اور وہ تحریر میں نے نہ پڑھی ہو ورنہ بقیہ وہ تمام کتابیں جو جماعت اس کی دعوت اور اس کے کام سے متعلق ہیں میں نے پڑھ ہی نہیں ڈالی ہیں بار بار پڑھی ہیں‘ ان میں سے بعض کو سبقاً سبقاً لوگوں کو پڑھایا بھی ہے.

ان حضرات کے علاوہ نعیم صاحب کی چند کتب بھی میں نے پڑھی ہیں‘ اور ترجمان چراغ راہ‘ زندگی اور دوسرے اہم رسائل کے کم ازکم پچھلے سات سال کے تو تمام پرچے پڑھے ہیں.

سوال میں کتابوں کے نام طلب کیے گئے ہیں‘ ان کو نقل کرنا بیکار ہے. جماعت اسلامی کا مرکزی مکتبہ وقتاً فوقتاً جو فہرست مطبوعات شائع کرتا ہے ان میں سے تازہ ترین فہرست کو میری پڑھی ہوئی کتابوں کی فہرست کی حیثیت سے شمار کر لیا جائے.

۶. اس سوال کا جواب واقعتا بہت مشکل ہے.

’’کیا اثر پڑنا چاہیے‘‘ پر میں ایک طویل تقریر بھی کر سکتا ہوں اور تحریر بھی لکھ سکتا ہوں. 
لیکن ’’’کیا اثر ہوا ہے‘‘ پر میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا! اس معاملے میں آپ کو اُن حضرات کی آراء پر انحصار کرنا ہو گا جن سے اس سات سالہ دَور میں جو میں نے تحریک اسلامی سے متعارف ہونے کے بعد بسر کیے ہیں میرا سابقہ رہا ہے. مثلاً ۴۷ء اور ۴۸ء کے دوران ماسٹر شہاد الدین صاحب‘ ناظم جماعت اسلامی حلقہ کرشن نگر لاہور سے.

۴۹ء سے اب تک (i) لاہور میں میرا تعلق یا تو جماعت کے مرکز سے رہا، اس میں مرکزی رفقاء مجھے جانتے ہیں یا پھر جمعیت طلباء سے رہا اور اس حیثیت سے جمعیت کے ذمہ دار حضرات کوئی رائے دے سکیں گے.

(ii) منٹگمری میں‘ میں تعطیلات کے زمانے میں آتا رہا اور اس حیثیت سے میرے بارے میں رائے یا تو شیخ عبد الحمید صاحب (حال ملتان) دے سکیں گے جو اس سے قبل جماعت اسلامی منٹگمری کے امیر تھے یا پھر موجودہ ارکانِ جماعت منٹگمری میرے بارے میں کچھ بتا سکیں گے. 
البتہ ایک بات ہے اور وہ یہ کہ میں جو آج یہ درخواست رکنیت تحریر کر رہا ہوں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ میں یہ رائے تو رکھتا ہوں کہ جماعت کے انقلابی لٹریچر نے میرے ’’خیالات‘ عملی زندگی اور اخلاق‘ پر کم از کم اتنا انقلابی اثر تو ڈالا ہے کہ میں جماعت کی رکنیت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر سکوں‘‘.

۷. جی ہاں بہت اچھی طرح!

۸. اس سوال کا جواب کسی قدر سوال نمبر ۵ میں آ چکا ہے.

مختصراً یہ کہ میں اُس دَور میں پیدا ہوا ہوں جبکہ احرار اور خاکسار تقریباً ختم ہو چکے تھے‘ ملک میں دو ہی طاقتیں تھیں مسلم لیگ اور کانگرس‘ یا پھر جماعت اسلامی جو ایک فکری جنگ لڑ رہی تھی. فطری طور پر میں اس وقت مسلم لیگ کے ساتھ تھا اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں‘ میں نے کام بھی کافی کیا. اس کے بعد میں جماعت اسلامی کے لٹریچر سے متعارف ہوا اور اس کے ساتھ پوری طرح متفق ہو گیا. وہ دن اور آج کا دن میں اسی کے ساتھ کام کر رہا ہوں. اسلامی جمعیت طلبہ میں ایک رکن کی حیثیت سے اور ایک سرگرم کارکن کی طرح میں 
نے چار سال کام کیا ہے اوراس دوران ایک لمحہ بھی مجھ پر ایسا نہیں گزرا کہ میں نے اصولاً اور فکراً جمعیت طلباء کو جماعت اسلامی سے علیحدہ متصور کیا ہو. اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا میں خالص تحریک اسلامی تو محض جماعت اسلامی ہے (پاکستان کی بھی اور ہندوستان کی بھی) البتہ دینی ہی مقاصد کے لیے اور اچھے کام کرنے والے اور ادارے بھی ہیں اور جماعتیں بھی ہیں‘ پاکستان میں بھی اور باقی دنیا میں بھی. ان اداروں نے یا جماعتوں نے مجھے بس اس حد تک تو متأثر کیا ہے لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی اور ادارے یا جماعت کے مقصد اور طریق کار کو میں خالصتاً اسلامی اور ٹھیٹھ دینی نہیں سمجھتا!

۹. جماعت اسلامی کی رکنیت پر مجھے ’’احساسِ فرض‘‘ نے آمادہ کیا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ راہ خاردار ہے اور مصائب و مشکلات سے بھر پور ہے میں اس کی رکنیت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں کہ:

میری رائے میں اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر ذی شعور انسان سے بالعموم اور ہر مدعی ایمان و اسلام سے بالخصوص یہ ہے کہ (۱) اولاً خود اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے رسول کی ہدایت کے تحت دے دے‘ فرائض سے عہدہ بر آ ہو‘ عبادات بجا لائے اور حقوقِ نفس اور حقوق العباد کی ادائیگی میں وہ طریقہ اختیار کرے کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بتایا ہے. (۲) ثانیاً وہ اللہ کے دین کو دنیا میں عملاً قائم کرنے کے لیے مال اور جان صرف کرے اور اپنی قوتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں کو لگائے (اسی کا نام اقامت دین یا شہادتِ حق ہے!) . (۳) ثالثاً وہ اس کام کے لیے یا تو کسی ایسی جماعت میں شریک ہو جس کے بارے میں وہ پورے طور پر مطمئن ہو جائے کہ وہ بالکل اور ٹھیک ٹھیک اسی مقصد کے لیے کام کر رہی ہے ورنہ پھر خود کھڑا ہو کر اور اس کام کے لیے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے ایک جماعت بنائے جو اس کام کو اس طرح کرے!

میں یہ محسوس کرتا ہوں.... اور آج نہیں بلکہ آج سے چار سال قبل سے محسوس کر رہا ہوں کہ اقامت دین میرا فرض ہے اور خدا کا شکر ہے کہ میں اس دَور میں پیدا ہوا جبکہ خالص اقامت دین کے لیے کام کرنے کے لیے جماعت اسلامی قائم ہو چکی ہے اور میں آسانی 
کے ساتھ اس میں شریک ہو کر اپنے فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سعی کر سکتا ہوں. اس لحاظ سے میں جماعت اسلامی کے وجود کو اپنے لیے ایک نعمت متصور کرتا ہوں‘ اس لیے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو اپنے طور ر کام کرنا میرے بس میں نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بازپُرس کڑی ہو جاتی. چار سال میں جمعیت طلبہ میں رہا ہوں تو اسی تصور کے تحت کہ یہاں کام کر کے دراصل میں جماعت اسلامی ہی کا کام کر رہا ہوں (اس سلسلے میں‘ میں نے واضح طور پر امیر جماعت سے استفسار کر کے ان کی رضا حاصل کر لی تھی) اور اب جبکہ دَورِ طالب علمی کے اختتام پر میں جمعیت طلبہ سے علیحدہ ہو چکا ہوں تو اپنی پہلی فرصت میں درخواست رقم کر رہا ہوں. چاہتا تو میں یہ تھا کہ جس روز جمعیت طلبہ سے علیحدہ ہوں اسی روز جماعت کی رکنیت کی درخواست دے دوں اور ایک دن بھی مجھ پر کسی جماعت کے بغیر نہ گزرے لیکن صرف اس وجہ سے کہ معلوم نہ تھا کہ کہاں SETTLE ہوں گا اور کہاں درخواست دینی چاہیے‘ تقریباً پندرہ دن کی دیر ہو گئی ہے بہر حال آج یہ درخواست دے دینے کے بعد مطمئن ہوں گا کہ میں نے اپنی طرف سے اپنے آپ کو جماعت کی رکنیت کے لیے پیش کر دیا ہے !! اور اس حیثیت سے جب تک میری رکنیت منظور ہو اُس وقت تک بھی اپنے طور پر میں جماعت کے بغیر زندگی بسر نہیں کر رہا ہوں گا. 

۱۰. میں نے جماعت کے دستور کا ایک مرتبہ پھر از سر نو باقاعدہ مطالعہ کر لیا ہے اور میں مطمئن ہوں کہ میری زندگی میں جماعت کے دستور کے خلاف کوئی چیز موجود نہیں ہے! سوال نامہ میں خصوصاً دفعہ ۴ کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے اور میں نے نئے اور پرانے دونوں دستوروں کی دفعہ (۴) کو دیکھ لیا ہے اور مطمین ہوں کہ میں اپنی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں پاتا جو مجھے رکنیت جماعت کے ناقابل بنا دیتی ہو. 
۱۱. آخری سوال کے جواب میں‘ میں محض ’’جی ہاں‘‘ پر اکتفا کرتا ہوں. اس سلسلے میں بلند و بالا عزائم اور صبر و استقامت کے ارادے کا اظہار نہ ممکن ہے نہ مناسب! اس راہ کے تقاضوں کو میں نے سمجھ تو خوب لیا ہے لیکن ان کی بالفعل ادائیگی اور کما حقہٗ تکمیل محض اللہ کی توفیق اور اس کی مدد پر منحصر ہے. 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَھْتَدِیْ لَوْ لَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ کے بعد اب میں رَبَّنَا لَا تُزِِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ کے سہارے آج اتنا کچھ عرض کر دینے کے بعد اپنے دستخط ثبت کر دینے کی جرأت کر رہا ہوں.

فقط
خاکسار 
اسرار حمد عفی عنہ 
منٹگمری ۱۵؍ نومبر ۱۹۵۴ء 

نوٹ: اس درخواست کی تحریر کے ٹھیک تین ماہ بعد یعنی ۱۵؍ فروری ۱۹۵۵ء کو راقم الحروف کو اس کی منظوری کی اطلاع دی گئی‘ چنانچہ اگلے ہی روز یعنی ۱۶؍ فروری ۱۹۵۵ء کو راقم نے جماعت اسلامی منٹگمری شہر کے اجتماع میں رکنیت جماعت کا حلف اٹھا لیا.