ڈاکٹر صاحب! اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ نے آپ کو بڑی خوبیوں سے نوازا ہے. فن خطابت میں فی الوقت آپ کا ثانی کوئی نہیں پھر اس خداداد صلاحیت کے ساتھ ساتھ آپ کو بہترین استاد بھی میسر آئے. خود بقول آپ کے مولانا مودودی مرحوم جیسے مفسر قرآن کا قرب آپ کو زمانۂ طالب علمی میں ہی مل گیا تھا جس نے آپ کی صلاحیتوں کو بے مثال جلا بخشی اور آپ کو کان سے نکال کر چمکدار ہیرا بنا دیا.
یقینا مولانا مودودی مرحوم کے کئی دوسرے شاگردوں نے بھی اپنی اپنی جگہ بڑا نام پیدا کیا انہوں نے بھی جنہوں نے بالکل دنیا ہی کو اپنے مستقبل کے لیے پسند کر لیا اور انہوں نے بھی جنہوں نے آخرت کو ترجیح دی. اول الذکر میں … صاحب اور … صاحب کی مثال ہے اور آخر الذکر میں امین احسن اصلاحی اور عبد الغفار حسن صاحب جو اپنے اپنے طریقہ سے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں. مولانا مودودی مرحوم کو جو مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بخشا وہ اطہر من الشمس ہے کہ ان کو عالم اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا ایوارڈ یعنی فیصل ایوارڈ ملا. نہ صرف انہیں بلکہ ان کے شاگرد ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب اور ابھی حال ہی میں پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد صاحب کو بھی فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا. چند ماہ پیشتر اسلامی ڈویلپمنٹ بینک نے اپنے پندرہ سال مکمل ہونے پورمعاشیات کے میدان میں ۴۲ ممبر ممالک میں جس شخص کا انتخاب کیا وہ بھی پروفیسر خورشید احمد صاحب ہی تھے.
مذکورہ بالا انتہائی اہم شخصیات نے کسی نہ کسی درجہ میں مولانا مودودی مرحوم سے اکتسابِ علم کیا یا ان کی صحبت میں رہے‘ ان میں کئی نے اصولی اختلاف کی بنا پر اپنی راہیں بھی جدا کر لیں اور اپنے اختلاف کا برملا اظہار بھی کیا لیکن اس کے بعد یہ حضرات اپنے اپنے کام میں لگ گئے. امین احسن اصلاحی صاحب نے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ دی اور ’’تدبر القرآن‘‘ جیسی تفسیر اور ’’تزکیہ نفس‘‘ جیسی اعلیٰ درجہ کی کتب لکھیں جو رہتی دنیا تک امت کو فائدہ پہنچاتی رہیں گی. … صاحب نے اپنے لیے نئی راہ کا انتخاب کیا اور اس پر رواں دواں ہیں. خوب دنیا کمائی. اس طرح … صاحب بھی شروع شروع میں مولانا مودودی پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر کے اپنی منزل کی طرف چل پڑے.
بفضلہ تعالیٰ آپ نے بھی اپنے لیے خیر کا راستہ اختیار کیا لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اس کارِ خیر کے پیچھے کچھ مقابلہ بازی کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے. خیال یہ تھا کہ پختگی عمر اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ طبیعت میں نرمی اور ٹھہراؤ آتا جائے گا لیکن افسوس کہ آپ کے بہی خواہوں کی توقع پوری ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ بھی مزید پختہ ہو رہا ہے. قابل احترام جناب ڈاکٹر صاحب آپ کو شاید خود انداز نہ ہو (عام طور پر آدمی اپنی کمزوری سے واقف نہیں ہوتا) کہ آپ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی مخالفت اور اس کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کی مخالفت میں اخلاق کی کن کن حدود کو پھلانگ چکے ہیں. آپ نے مولانا مودودی مرحوم پر علمی سرقہ تک کا الزام بار بار لگایا ہے جبکہ آپ خود جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ ’’تفہیم القرآن‘‘ یا ’’تدبر القرآن‘‘ میں کم از کم ۹۰ فی صد ضرورہی مل جاتا ہے. البتہ لفظ ’’میں‘‘ کی تکرار اور فن خطابت آپ کا اپنا ہوتا ہے. دریں حالات میں سمجھتا ہوں کہ میثاق میں سوائے اس کے کہ آپ کے جذبہ ٔ مخالفت کی تسکین ہو ایک اتحادِ ملی کے حامی‘ صلح پسند اور اکابرین ملت کی عزت کرنے والے شخص کے لیے کچھ زیادہ نہیں. میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ اس قسم کا خاص شمارہ کم از کم مجھے تو نہ بھیجا جائے تاکہ ذہنی اذیت سے محفوظ رہوں البتہ آپ کے لیے میں ہمیشہ دعائے خیر کرتا رہوں گا. جو اکابرین ملت فوت ہو چکے ہیں وہ اپنے مالک و آقا کے پاس پہنچ چکے ہیں. اور اللہ ہی ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے. ہم بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں. والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
نیاز مند غلام فرید خان
JED063 -
ہمیں غلام فرید خاں صاحب کے ایک ایک لفظ سے اُن کے خلوص اور اخلاص اور نصح و خیر خواہی کا جذبہ جھلکتا محسوس ہوا ہے‘ اور اگر ایک آدھ جگہ تلخی کا اظہار ہوا ہے تو اُس سے بھی کسی عناد یا بغض کی بُو نہیں آتی. مزید برآں جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ خان صاحب موصوف کا یہ خط بھی بہت سے حضرات کے جذبات اور احساسات کی نمائندگی کرتا ہے. بنابریں افادۂ عام کے لیے بعض وضاحتیں ضروری ہیں. امید ہے کہ خان صاحب موصوف اور ان کے طرز پر سوچنے والے حضرات ان گزارشات پر اپنے آپ کو ہماری جگہ متصور کرتے ہوئے ہمدردانہ انداز میں غور فرمائیں گے.
راقم الحروف نے حال ہی میں ایک معروف صاحب علم و قلم سے گفتگو کے دوران اپنے بارے میں یہ ’’اعتراف‘‘ کیا کہ میرا ذہن اُس ’’تصورِ فرائض دینی‘‘ پر متحجر (Fossilised) ہو گیا ہے جو مجھے ابتداء ً تحریک اسلامی کے اساسی لٹریچر یعنی مولانا مودودی مرحوم اور مولانا اصلاحی صاحب کی تصانیف کے ذریعے حاصل ہوا‘ اور بعد ازاں اس کی پوری اور نہایت تاکیدی توثیق کتابِ الٰہی اور سنت و سیرتِ رسول ﷺ کے مطالعے کے ذریعے حاصل ہو گئی. بنابریں میری مجبوری یہ ہے کہ میں دین کی کسی جزوی خدمت اور محض علمی و تعلیمی یا صرف تبلیغی و اصلاحی کام پر مطمئن نہیں ہو سکتا.
میں اپنے اس فکر کے ہاتھوں اس درجہ ’مجبور‘ ہوں کہ جن اکابر کا ذکر آپ بطور ’’اسوہ حسنہ‘‘ کر رہے ہیں‘ ان کی شخصی قدر و منزلت‘ اور ان کی علمی یا تدریسی خدمات کے اعتراف کے باوجود میں نہ صرف یہ کہ ان کی پوزیشن کو کسی درجہ میں قابل رشک نہیں سمجھتا‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اُن کے طرزِ عمل کو غیر منطقی اور ناقابل فہم ہی نہیں فراریت اور شکست خوردگی کا مظہر قرار دینا بھی غلط نہ ہو گا.
یہ حضرات جماعت اسلامی میں شامل نہ ہوئے ہوتے تو بات اور تھی‘ اس صورت میں وہ جو کام پہلے سے کر رہے تھے انہیں ہی جاری رکھتے تو کسی اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی لیکن صورتِ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے سترہ سترہ سال ایک تحریک کے ساتھ نمایاں طو پر وابستگی کی صورت میں بسر کئے‘ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو اس تحریک کی دعوت سے متعارف کرایا چنانچہ بہت سے لوگ انہی کے زیر اثر اور انہی کی وساطت سے جماعت میں شامل ہوئے. اس کے بعد اگر انہوں نے کسی سبب سے جماعت سے علیحدگی اختیار کی تھی تو ان کے لیے عقلی اور منطقی طور پر مندرجہ ذیل دو راستوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرنا لازمی تھا:
۱. اگر اُن کے خیال میں اس تحریک کی اساسی دعوت و نصب العین ہی میں ؏ ’’مری تعمیر میں مضمر تھی اک صورت خرابی کی!‘‘ کے مصداق کجی تھی‘ گویا اُس کا بنیادی فکر ہی غلط تھا تو انہیں صاف اعتراف کرنا چاہیے تھا کہ سترہ سال قبل جب انہوں نے مولانا مودودی مرحوم کی رفاقت اختیار کی تھی تو خود انہوں نے شدید علمی اور فکری ٹھوکر کھائی تھی اور وہ محض ایک شخص کی انشا پردازی سے اس درجہ مرعوب ہو گئے تھے کہ فکری اعتبار سے زہر ہلاہل کو قند سمجھ کر نوشِ جان کر بیٹھے. اس اعتراف کے ساتھ لازم تھا کہ وہ جماعت کے اساسی فکر کی زہرناکی کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس متبادل فکر کو بھی پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیتے جس پر اب انہیں انشراحِ صدر حاصل ہوا ہے. اور پھر اُس کے مطابق عملی جدو جہد میں بالفعل مصروف ہو جاتے.
۲. اور اگر اُن کے نزدیک جماعت کا تحریکی فکر بھی بحیثیت مجموعی صحیح تھا اور اس کا ہدف بھی اصلاً درست تھا‘ تو ان کے لیے لازم تھا کہ معین طور پر یہ بتاتے کہ آیا جماعت کے طریق کار میں کوئی کجی آ گئی ہے‘ یا اس کے فلسفہ ٔ تنظیم میں گمراہی کے جراثیم پیدا ہو گئے ہیں جن کے باعث اُن کی جماعت سے علیحدگی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہو گئی ہے. اس صورت میں بھی لازم تھا کہ وہ اپنے اس اختلاف کو معین طور پر بیان کرنے کے بعد اسی سابق نصب العین اور اساسی فکر کے مطابق صحیح طریق کار اور صحت مند اصولِ تنظیم اختیار کر کے اجتماعی جدو جہد کو جاری رکھتے!
ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار نہ کر سکنے کے باعث جو نقصان اِن حضرات کو ذاتی طور پر پہنچا‘ اس صورت میں بھی کہ اُن کی حیثیت عرفی کو دھکا لگا‘ اور اس اعتبار سے بھی کہ ان کی خداداد صلاحیتیں اور توانائیاں سکڑ کر رہ گئیں (یہ الفاظ خود مولانا امین احسن اصلاحی کے ہیں جو انہوں نے جماعت سے علیحدگی کے دس سال بعد ۱۹۶۷ء میں اجتماع رحیم یار خاں میں ایک نئی اسلامی تنظیم کے قیام کے فیصلے کے موقع پر کہے تھے. (جس کا تفصیلی اقتباس اسی اشاعت میں کسی دوسری جگہ دیا جا رہا ہے). اُس پر مستزاد اور زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان کا وہ موقف بھی کمزور اور ناقابل اعتبار ہو گیا جو اپنی جگہ نہایت قوی اور مدلل تھا. اس لیے کہ جماعت اسلامی کے عام ارکان اور کارکنان کا یہ الزام ان پر درست طور پر چسپاں ہو گیا کہ اگر یہ لوگ مخلص تھے اور ان کا موقف درست تھا تو انہوں نے جماعت سے علیحدہ ہو کر اس کے مطابق اجتماعی جدو جہد کیوں نہ کی؟
قصہ مختصر یہ کہ راقم الحروف اولاً اپنے فکر کے ’’متحجّر‘‘ ہو جانے کے ہاتھوں ’مجبور‘ ہے‘ ثانیاً... ع ’’میں ہوں اپنی شکست کی آواز‘‘ کی صورت اختیار کر کے زندہ رہنے کے ’حوصلے‘ سے محروم ہونے کے باعث ’معذور‘ ہے بنابریں اُس کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ حسب سابق اقامت دین کی اجتماعی جدو جہد کے لیے اپنا تن من دھن لگائے رکھے! اور چونکہ اُس نے نہ صرف یہ کہ عبادتِ ربّ کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ شہادتِ حق اور اقامت دین کے لیے اجتماعی جدو جہد کی فرضیت اور لزوم کا سبق ابتداء ً تحریک جماعت اسلامی ہی سے سیکھا تھا بلکہ عمر عزیز کے دس سال بھی اس کے ساتھ بھرپور عملی وابستگی کی صورت میں گزارے تھے. لہٰذا اس کے لیے لازم تھا کہ معین طور پر واضح کرے کہ: (۱) اس کے نزدیک جماعت کے اساسی فکر میں کوئی کمی یا خامی تھی یا نہیں اور تھی تو کیا؟ (۲) جماعت کے طریق کار میں کوئی غلطی دَر آئی ہے تو کونسی؟ (۳) اس کے طریق تنظیم میں کوئی قابل اصلاح پہلو ہے یا نہیں اور ہے تو کونسا؟ چنانچہ میں یہ کام مجبوراً اور تحریک کے منطقی تقاضوں کے شدید دباؤ کے تحت کر رہا ہوں. اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب والشہادۃ ہے ہی‘ مجھے قریب سے جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ نہ میرا کوئی پسندیدہ مشغلہ ہے‘ نہ وقت گزاری کا بہانہ‘ بلکہ میرے عین مقصد حیات کا تقاضا ہے جسے میں ادا نہ کروں تو گویا اپنی معنوی موت کے وارنٹ پر خود دستخط ثبت کر دوں گا. اس لیے کہ میرے پاس ؎
ماہم بہ لاغ و لابہ تسلا شویم کاش
ناداں زبزمِ دوست چہ خوشنود می رود!
کے مصداق اپنے ضمیر کو تھپکیاں دے دے کر سلا دینے کا کوئی بہانہ موجود نہیں ہے!!
کاش کہ میرے ناصح اور خیر خواہ حضرات ؏ ’’وزدرونِ من نہ جُست اسرارِ من‘‘ پر عمل پیرا ہونے کے بجائے میرے معاملے پر ہمدردانہ غور کر سکیں!
محترم غلام فرید خاں صاحب کے خط میں ایک بات البتہ مغالطہ آمیز ہے جس کی وضاحت ضروری ہے‘ اور وہ یہ کہ میں نے کبھی مولانا مودودی مرحوم پر علمی سرقہ کا الزام عائد نہیں کیا. ویسے بھی علم اور حکمت کسی کی میراث نہیں ہیں. اور اس میدان میں سب جانتے ہیں کہ چراغ سے چراغ روشن ہوتا چلا آیا ہے. مولانا مودودی مرحوم کے بارے میں میرا یہ احساس ضرور رہا ہے اور اسے میں نے بعض مواقع پر بیان بھی کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اساسی فکر کے ضمن میں جن اکابر سے کسب فیض کیا اُن کے ذِکر اور شکر کا حق ادا نہیں کیا. رہا خود میرے اپنے فکر میں مولانا کے خیالات کا انعکاس تو اس کا اعلان و اعتراف تو میں نے ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ کیا ہے‘ یہاں تک کہ یہ الفاظ بھی تحریر کئے ہیں کہ ’’میں نے جماعت اسلامی کی گود میں آنکھ کھولی ہے اور جس طرح ایک بچہ سب کچھ اپنی ماں سے سیکھتا ہے اسی طرح میں نے ان حضرات (مولانا مودودی مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی) کی آنکھوں سے دیکھنا‘ ان کے کانوں سے سننا‘ ان کے دماغوں سے سوچنا اور ان کی زبانوں سے بولنا سیکھا ہے‘‘ (تحریک جماعت اسلامی صفحہ ۴۱) ؏ ’’پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں!‘‘.
۳. مندرجہ بالا دونوں خطوط کے بالکل برعکس‘ اور مولانا مودودی مرحوم اور جماعت اسلامی کے ساتھ انتہائی نفرت و عناد کا مظہر رد عمل رحیم یار خاں کے جناب ارشاد احمد علوی کے خط میں سامنے آیا ہے‘ ان کے خط میں مندرجہ بالا دو خطوط میں سے پہلے خط کے مانند تیزی اور تندی بھی ہے‘ اور دوسرے خط کے انداز میں (اگرچہ بالکل متضاد نقطہ ٔ نظر سے) نصیحت اور فہمائش بھی !! واضح رہے کہ علوی صاحب بھی جماعت اسلامی کے سابق ارکان میں سے ہیں‘ اور ان کا یہ خط بھی ایک پورے مکتب فکر کی نمائندگی کرتا ہے:
محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب. السلام علیکم و رحمۃ اللہ
۲۰ سال بعد آپ پھر ’’غزل سرا‘‘ ہوئے. باسی کڑھی میں ابال آیا. اب بے وقت کی راگنی سے فائدہ؟ بر وقت آپ لوگوں نے اپنا فرض ادا نہ کیا. جو لوگ راز ہائے درونِ پردہ سے واقف تھے ان پر لازم تھا کہ وہ جماعت کے مخلصین کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کر دیں. مگر اُس وقت آپ نے‘ حکیم اشرف صاحب نے اور دیگر نے بے خبروں کو بے خبر رکھنا ہی مناسب سمجھا. آپ نے ہمت کی ’’نقض غزل‘‘ کی قسطیں شروع کیں مگر کوئی ’’بزر جمہر‘‘ اسی طرح آپ کے آڑے آ گیا جیسے آپ شیخ جمیل الرحمن اور مولانا وصی مظہر ندوی کے آڑے آ گئے تھے. آپ لوگوں نے بعض حکیموں کے ’’صدری نسخوں‘‘ کی طرح اس اجتماعی امانت کو بھی اپنے سینہ میں دفن رکھا. اب جوش دکھانے کا فائدہ؟
جن شرمناک تفصیلات اور افسوسناک حقائق سے آپ واقف ہیں‘ اس کے بعد تو آدمی کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ ؏ ’’جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘ مگر آپ کا حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ ہر وقت اسی گم کردہ راہ قافلہ میں شامل ہونے کے لیے بے چین رہتے ہیں. کئی بار آپ اظہار کر چکے ہیں اور ابھی گزشتہ دنوں پھر یہ بات دہرائی کہ آپ ساتھیوں سمیت جماعت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں. بس ذرا طریق کار کو بدل لیں.
محترم! طریق کار کا اختلاف کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے. اصل چیز بنیادی عقائد اور دینی فکر ہے. ان کی فکر ٹیڑھی ہے. یہ الحاد کا شکار ہیں. یہ لوگ خدا کے دین کو سیاسی عینک سے دیکھتے ہیں اور ہر بات کا سیاسی مفہوم نکالتے ہیں. ’’حکمت عملی‘‘ کے خود ساختہ اصول کے تحت دین حق میں ترمیم و تنسیخ کی جرأت کرتے ہیں. اور رسولِ خدا ﷺ کے سوا کسی کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھتے. چنانچہ تمام خادمانِ دین‘ بزرگان‘ اسلاف حتیٰ کہ صحابہ کرام اور انتہاء یہ کہ انبیاء عظام سب کو تنقید کا نشانہ بنایا. صرف ’’رسولِ خدا‘‘ کو معاف رکھا. اس کے علاوہ صرف مودودی صاحب کی ذات کو ’’چھوئی موئی‘‘ بنایا ہوا ہے. ان پر نہ صرف یہ کہ تنقید نہیں کرتے بلکہ تنقید برداشت بھی نہیں کرتے. شاید ’’حضرت‘‘ کو بھی ’’رسولِ خدا‘‘ سمجھتے ہوں. اس دینی فکر کے ہوتے ہوئے طریق کار کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے.
صحابہ کرام پر کذابوں‘ دجالوں اور رافضیوں کے لگائے ہوئے تمام بہتانات کی تائید کر کے اور خود بھی دو چار بہتان جڑ کر مودودی صاحب نے اپنی اصلیت ظاہر کر دی. اس کے بعد بھی کوئی صاحب ایمان شخص مودودی صاحب یا ان کے اندھے مقلدین کے بارے میں کوئی حسن ظن رکھتا ہے تو وہ خود بھی مشکوک ہے اور یہی آپ کی وہ خامی ہے جس نے آپ کی تمام تر صلاحیتوں اور دینی خدمات کے باوجود آپ کو مشکوک بنا رکھا ہے. آپ ابھی تک ’’بُت مودودی‘‘ کے پجاری ہیں. آپ کی دینی بصیرت کیا ہے کہ آپ اس شخصیت کو تاحال نہیں پہچان سکے. اگر تمام حقائق کے باوجود آپ اس گمراہ جماعت کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کیجئے. دیر کیا ہے ع ’’پہنچے گی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر ہے‘‘ (تصرف کے لیے معذرت) .
آپ ایسے با خبر شخص کے لیے تو ضروری تھا کہ پوری جرأت کے ساتھ اس لائن سے اظہار برأت کر دیتا. کم از کم درجہ یہ تھا کہ سو فی صد نظر انداز کر کے پوری یکسوئی کے ساتھ دین حق کی خدمت کرتے رہیں. مگر آپ بہانہ بہانہ سے مودودی صاحب کی ذات اور ان کی جماعت کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں. اپنا اخلاص‘ نیازمندی اور خدمات گنواتے ہیں. میرے محترم! آپ الٹے بھی لٹک جائیں تو وہ کبھی نہیں مانیں گے الاّ یہ کہ آپ بھی ان کی طرح اندھے مقلد بن جائیں.
صحیح العقیدہ مسلمانوں کو آپ سے خطرہ یہ رہتا ہے کہ جس طرح آپ کے پیر و مرشد مودودی صاحب نے خالص دین کے نام پر قوم کا مکھن جمع کیا اور اسے شیعیت کے قدموں میں لے جا کر ڈال دیا اب آپ بھی بچا کھچا مکھن اپنے گرد دین کے نام پر جمع کر کے مودودیت کے قدموں میں لے جا کر ڈال دیں گے. کاش! آپ اس دلدل سے نکل سکتے. یکسو ہو جاتے. صحابہ کرام پر بہتانات لگانے والوں سے ذرہ بھر بھی دلچسپی نہ رکھتے. خدا کے لیے محترم! اپنے آپ کو سنبھالیں. ’’اُسی عطار کے لونڈے‘‘ سے دوا لینے کا خیال ترک کر دیں جس کے سبب ’’بیمار‘‘ پڑے ہیں. اللہ تعالیٰ توفیق سے نوازیں. آمین
والسلام آپ کا خیر خواہ
ارشاد احمد علوی
محترم ارشاد احمد علوی اور ان کے ہم خیال حضرات کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنے کے بارے میں کچھ سوچتے ہوئے اچانک ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوا کہ تقریباً ایک ماہ پیشتر پشاور سے خیبر میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کا خط موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے مولانا مودودی مرحوم اور تفہیم القرآن کے بارے میں بعض علماء کرام کی آراء کے حوالے سے اپنے لیے رہنمائی چاہی تھی.
آنعزیزہ کو جو جواب راقم نے ارسال کیا تھا‘ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر اسی کو من و عن درج کر دیاجائے وھو ھٰذا:-
’’آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی شخصیت کے دو پہلو تھے: ایک یہ کہ وہ ایک عالم‘ مفکر اور مصنف تھے‘ اور ان کی علمی آراء اور نظریات میں صحیح چیزیں بھی ہیں اور غلط بھی. چنانچہ جہاں انہوں نے اسلام کے سماجی اور سیاسی اور کسی حد تک معاشی نظام کی وضاحت میں بہت وقیع خدامت سر انجام دیں‘ وہاں انبیاء کرام اور صحابہ کرام کے تذکرہ میں اُن کا قلم عام طور پر بھی بے باک ہو جاتا ہے‘ اور بالخصوص ان کی تصنیف ’’خلافت و ملوکیت‘‘ تو بہت ہی گمراہ کن کتاب ہے. دوسرے یہ کہ وہ ایک تحریک کے داعی تھے اور انہوں نے اقامت دین کی جدو جہد اور غلطہ دین کے لیے جہاد کی فرضیت کو خوب سمجھا اور سمجھایا. میری ان سے اصل دلچسپی اسی پہلو سے ہے. اور میں اپنی دعوت اور تحریک کا تعلق ان ہی کی دعوت اور تحریک کے ساتھ جوڑتا ہوں. البتہ مجھے صدمہ ہے کہ انہوں نے ۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد اپنے ہی اصولی موقف سے انحراف اختیار کر لیا! یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے تو اچھا ہے کہ ہمارے قدیم مذہبی نظامِ تعلیم سے وابستہ علماء کرام کی اکثریت فریضہ ٔ اقامت دین کی اہمیت سے غافل ہے. چنانچہ انہیں مولانا مودودی مرحوم کی برائیاں تو نظر آتی ہیں‘ خوبیاں بالکل نظر نہیں آتیں.
بہر حال آپ کی طلب صادق ہے. اللہ تعالیٰ سورۂ عنکبوت کی آخری آیت میں وارد شدہ پختہ وعدے کے مطابق آپ کو ضرور ہدایت دے گا. تفہیم القرآن آپ ضرور پڑھیں لیکن اس کے ساتھ حضرت شیخ الہند کا ترجمہ اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کے حواشی بھی لازماً مطالعہ میں رکھیں. اس سے تفہیم کے ممکنہ مضر اثرات کا ازالہ ہو جائے گا. البتہ دین کا تحریکی تصور آپ کو تفہیم کے علاوہ کسی اور تفسیر سے نہیں ملے گا‘‘.
اسی تسلسل میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسی شخصیت کا ’ردّ عمل‘ بھی سامنے آ جائے جسے حلقہ دیوبند کے اکابر علماء کے ساتھ صرف محبت اور عقیدت ہی کا نہیں قریبی تعلق اور ذاتی روابط کا شرف بھی حاصل ہے. ان کے مختصر لیکن نہایت معنی خیر ’’رد عمل‘‘ کی اہمیت واضح نہیں ہو گی اگر ان کا ذاتی تعارف سامنے نہ آ جائے‘ جو حسن اتفاق سے خود اُن کے اپنے ہاتھ لکھا ہوا موجود ہے. یہ اُن کے اُس طویل مکتوب میں شامل تھا جو ’’میثاق‘‘ کی جنوری ۸۹ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا. جو حسب ذیل ہے:
’’دہلی کا رہنے والا ہوں. ولادت ۱۹۲۸ء میں ہوئی. ننہیال ڈپٹی نذیر احمد صاحب کے خاندان سے متعلق ہے. والد صاحب حضرت شیخ الہند سے نسبت رکھتے تھے. خلافت کے زمانہ سے پریکٹس چھوڑ کر تجارت اور انکم ٹیکس کے مقدمات کی پیروی تک محدود رہ گئے تھے. نہایت دین دار اور متقی بزرگ تھے. حج سے فراغت کے ایک سال بعد ۱۹۴۵ء میں وفات پا گئے. حضرت شیخ الہند کی وفات کے بعد حضرت تھانوی سے تعلق بڑھا لیکن بیعت نہ ہوئے اور آخر میں مولوی محمد الیاس صاحب بانی جماعت تبلیغ سے عشق کی حد تک تعلق تھا. ہم تین بڑے بھائی حافظ ہوئے اور عربی‘ فارسی کے عالم بھی. ساتھ ہی ضرورتِ وقت کے پیش نظر انگریزی تعلیم سے بھی بے بہرہ نہ رہے. یہ شاید اس کا اثر تھا کہ سابق وزیر و وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب قریشی کے تعلیمی دَور میں دہلی میں میرے والد صاحب ہی ان کے سرپرست و نگران تھے. میں نے دورۂ حدیث حضرت مفتی اعظم محمد کفایت اللہ صاحب اور شیخ الاسلام مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی کے زیر سایہ مکمل کیا‘ تفسیر میں مولوی محمد ادریس صاحب کاندھلوی میرے استاد تھے. درسِ نظامی میں ان حضرات کے علاوہ مولوی اشفاق حسین صاحب کاندھلوی اور مولوی شریف اللہ صاحب (یہ دونوں حضرات مولوی ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اور مولوی اخلاق حسین صاحب قاسمی کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے. قاسمی صاحب مجھ سے نسبتاً سینئر تھے وہ میرے بڑے بھائی صاحب کے ساتھ کے ہیں. میں نے حفظ قرآن کے بعد تجوید اور پھر سبعہ قرأت وغیرہ کی بھی تکمیل کی. میری علمی‘ دینی اور ذہنی تربیت مولوی محمد کفایت اللہ صاحب اور مولوی قاری محمد طیب صاحب (بعد میں یہ دونوں حضرات رشتہ میں میرے سمدھی بھی بنے) مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی جو میرے شیخ اور مشفق استاد بھی تھے‘ مولوی محمد الیاس صاحب ‘ مولوی ابو الکلام آزاد صاحب‘ مولوی احمد سعید صاحب‘ مولوی حفظ الرحمن صاحب سیوہاوری اور قطب وقت حضرت مولوی عبد القادر صاحب رائپوری جیسے اکابر کی نگرانی میں ہوئی. حاشا یہ خود ستائی نہیں بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ ان سب کی ہی خصوصی محبتیں‘ شفقتیں اور قربتیں مجھے نصیب رہیں. فللّٰہ الحمد علٰی ذٰلک! ‘‘
اس ’’طویل‘‘ تعارف کے بعد ’نقض غزل‘ پر موصوف کا ’مختصر‘ تبصرہ ملاحظہ ہو:
بلی ماراں‘ دہلی نمبر 6
ہفتہ ۳؍ رمضان المبارک ۱۴۱۰ھ ۳۱؍ مارچ ۱۹۹۰ء
محترم المقام زید مجد کم!
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ متعنا اللّٰہ بطول بقائکم
مزاج سامی!
شعبان کی آخری تاریخوں میں دہلی واپس لوٹنے پر ’’میثاق‘‘ نظر نواز ہوا. تین ماہ کے پرچے پیش نظر رہے. ’’حکمت قرآن‘‘ کا صرف مارچ کا ہی شمارا ملا. جنوری و فروری کے پرچے نہیں ملے. ’’نقض غزل‘‘ بلاستیعاب پڑھا. اس ترشی نے تو جماعت اسلامی کا تمام ہی نشہ اتار دیا. گویا بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا. میں نے بالمشافہ بھی عرض کیا تھا آپ ڈاکٹر نہ بنتے تو اچھے بیرسٹر بنتے. صغریٰ کبریٰ کی بساط کس سلیقہ سے جماتے ہیں‘ پھر نتائج پر سر نہ دھنا جائے تو کیا کیا جائے؟
ایں کار از تو مأید و مرداں چنیں کنند
تنظیم اسلامی کے سلسلے میں آپ کا ویٹو کا حق ہمیشہ دل میں کھٹکتا تھا‘ ’’نقض غزل‘‘ پڑھنے سے کلی طور پر شرحِ صدر ہو گیا اور آپ کی مصلحت دل میں اتر گئی اور آپ کی پیش بینی کا اور بھی سکہ جم گیا. شاید ذوق کا شعر ہے ؎
نگہ نہیں حرف دل نشیں تھا‘ دہن کی تنگی سے تنگ ہو کر..
جو نکلا آنکھوں کے راستے سے تو دل میں اترا خدنگ ہو کر
نیاز مند
اختر ہاشمی
اور اب آئیے بعض ایسے امور کی جانب جن میں کسی غلطی کی تصحیحُ یا کسی واقعہ کی تردید‘ یا بعض ذاتی وضاحتیں شامل ہیں.
۱. ان میں سے ایک تصحیح زبانی موصول ہوئی. چنانچہ بھائی اللہ بخش سیال صاحب نے بتایا کہ وہ ترکستانی قاری صاحب جنہوں نے ماچھی گوٹھ کے اجتماعِ ارکان میں میرے خلاف سب سے پہلے احتجاج کیا تھا فوت نہیں ہوئے بلکہ بحمد اللہ بقید حیات ہیں. دراصل وہ اجتماعِ ماچھی گوٹھ کے فوراً بعد (غالباً سردار محمد اجمل خاں لغاری مرحوم سے ناراض ہو کر) رحیم آباد سے نقل مکانی کر گئے تھے. غالباً اسی سے میرے ذہن میں تاثر پیدا ہوا کہ شاید ان کا ’انتقال‘ ہو گیا ہے. بہر حال میں اُن کا تذکرہ اچھے ہی الفاظ میں کیا تھا. اور اب قارئین ’’میثاق‘‘ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ موصوف واپس رحیم آباد تشریف لا کر حسب سابق بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں.
۲. دوسری مختصر وضاحت کراچی کے جناب محمد اختشام الدین صاحب کی جانب سے موصول ہوئی ہے جو درج ذیل ہے:
محترمی و مکرمی ڈاکٹر صاحب السلام علیکم
امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے. مارچ کا میثاق نظر سے گزرا. صفحہ ۹۴ پر میرا نام آپ نے اُن حضرات میں شامل تحریر فرمایا ہے جو اختلاف کی بنا پر جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے. اس سلسلہ میں عرض ہے کہ میں چونکہ سرکاری ملازم تھا اور جماعت نے فیصلہ کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کو رکن جماعت نہیں رکھا جائے گا اس بنا پر مجھے جماعت سے مستعفی ہونا پڑا. امید ہے کہ آپ ریکارڈ درست فرما لیں گے اور آئندہ ماہ کے میثاق میں اس کی تصحیح شائع فرما دیں گے. شکریہ محمد احتشام الدین
سابق رکن جماعت اسلامی پاکستان
اس سلسلے میں اتنی ’’وضاحت‘‘ ہماری جانب سے بھی ضروری ہے کہ کراچی میں ۵۹-۵۸ء کے دوران راقم نے موصوف کو ہمیشہ ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی مرحوم کے حلقے میں کسی نئی تعمیر و تنظیم کے ضمن میں ہونے والے مشوروں میں شریک دیکھا تھا جس کی بنا پر یہ گمان ہوا کہ جماعت کی پالیسی کے ضمن میں ان کا موقف بھی وہی ہے جو دوسرے علیحدہ ہونے والے لوگوں کا ہے. لطف یہ ہے کہ اپنے اس خط میں بھی انہوں نے ایک واقعاتی تصحیح تو کی ہے لیکن اس اہم اور بنیادی امر کی تردید نہیں کی!!
۳. تیسری قدرے طوالت طلب وضاحت یا تصحیح جدہ‘ سعودی عرب سے جناب صبا حسنی صاحب کی جانب سے موصول ہوئی ہے‘ اُن کا گرامی نامہ بھی مِن و عن شائع کیا جا رہا ہے:
محترمی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب! السلام علیکم
جس ’’میثاق‘‘ کا شدت سے انتظار تھا کل ہی موصول ہوا. ’’نقض غزل‘‘ کی جہاں بہت سی باتوں سے مجھے اتفاق نہیں وہیں ایک بات تو ایسی ہے جو بالکل خلافِ واقعہ ہے. میں اس طرف متوجہ کرانا ضروری سمجھتا ہوں. آپ نے ص ۳۹ پر ’’حقیقی عزائم‘‘ کے تحت جو واقعہ چودھری غلام محمد صاحب مرحوم کی طرف منسوب کیا ہے چودھری صاحب نے میرے استفسار پر اس کی حلفیہ تردید کی تھی. امید ہے آپ اسے بھی اپنے رسالہ میں شائع فرمائیں گے.
بات یوں ہوئی کہ یہی واقعہ ۱۹۶۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں بھی چھپا تھا. ’’میثاق‘‘ کا شروع سے میں خریدار رہا ہوں. میں نے جب پڑھا تو یہ بات مجھے انہونی سی محسوس ہوئی. طبیعت مضطرب ہوئی ‘ میں کراچی کے دفتر جماعت پہنچا تاکہ اس کی تحقیق کروں. چودھری صاحب موجود تھے. اُن کے پہلو میں کرسی پر جناب صادق حسین صاحب بھی تشریف فرما تھے. میں نے چودھری صاحب کے سامنے ’’میثاق‘‘ رکھتے ہوئے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ پڑھنے کے بعد چودھری صاحب نے دراز سے قرآن مجید نکالا اور اس پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’صبا صاحب یہ بالکل جھوٹ ہے. ان لوگوں کو ذرا خدا کا خوف نہیں. مخالفت میں اندھے ہو گئے ہیں‘‘. میں نے کہا کہ پھر اس کی تردید اخبار میں آنی چاہیے تو فرمایا: ’’کس کس بات کی تردید کی جائے. اس جیسی نہ جانے کتنی باتیں ہیں. صبر سے کام لیجئے اور اللہ کے حوالے کر کے مثبت کام میں لگے رہیئے‘‘.
یہ بات میں خدا کو شاہد گردانتے ہوئے بیان کر رہا ہوں. ہو سکتا ہے الفاظ میں ردّ و بدل ہو مگر مفہوم بالکل یہی تھا. مجھے آج تک وہ منظر اور چودھری صاحب کا انداز یاد ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو. میں ان کی ہدایت کے مطابق اسے نظر انداز کر گیا تھا لیکن آپ نے ان باتوں کا پھر اعادہ کیا ہے جس سے ساری بھولی بسری باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں اور اس وقت کے تاثرات اور اضطرابی کیفیت پھر عود کر آئی. کاش آپ ان سب کو دفن کر کے اپنے مثبت کاموں میں لگے رہتے اور بنائے کہنہ کو ویران کرنے میں قوت ضائع کرنے کی بجائے تعمیر نو پر صَرف کرتے تو مفید ہوتا.
خیر اندیش
صبا حسنی
ص. ب. ۷۴۳۶. جدہ
اس ضمن میں کسی قال و اقول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ چوہدری غلام محمد مرحوم عرصہ ہوا کہ فوت ہو چکے‘ اب ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا مناسب نہیں‘ ویسے بھی معاملہ اصلاً ان کے اور مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب کے مابین تھا اور ہم نے ان ہی کی روایت کے حوالے سے درجِ ’’میثاق‘‘ کیا تھا. اور وہ بحمد اللہ بقید حیات ہیں. اب اگر وہ مناسب سمجھیں اور ’’احقاقِ حق‘‘ اور ’’ابطالِ باطل‘‘ کی ذمہ داری اداء کرنا ضروری خیال فرمائیں تو ’’میثاق‘‘ کے صفحات حاضر ہیں. اور اگرچہ ان کی جانب سے اب تک کا سکوت توثیق ہی کے مترادف ہے تاہم اگر وہ اس واقعے کی تردید کر دیں تو خدا گواہ ہے کہ سب سے زیادہ خوشی ہمیں ہو گی.
البتہ ذاتی وضاحت کے ضمن میں عرض ہے کہ اس واقعے کی بر وقت تصحیح یا تردید کرنے سے احتراز کر کے چوہدری صاحب مرحوم نے بھی غلطی کی تھی اور خود صبا حسنی صاحب نے بھی. اس لیے کہ ہمارا یہ طرزِ عمل ان دونوں حضرات کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہو سکتا کہ ۶۷- ۶۶ء میں جب ’’نقض غزل‘‘ کی اشاعت جاری تھی ایک تصحیح سید صدیق الحسن گیلانی مرحوم کی جانب سے موصول ہوئی تھی جسے ہم نے بتمام و کمال شائع کر دیا تھا حالانکہ وہ معاملہ چنداں اہم نہ تھا‘ تو اگر اُس وقت یہ تصحیح یا تردید بھی موصول ہو جاتی تو کیوں شائع نہ ہوتی. جبکہ یہ معاملہ نہایت اہم اور فیصلہ کن حیثیت کا حامل تھا. چنانچہ ہم اپنی اس صفائی کے ثبوت میں ’’میثاق‘‘ بابت جون ۶۷ء سے گیلانی صاحب مرحوم کا خط اور اس پر اپنا تبصرہ من و عن نقل کر رہے ہیں:
محترم صدیق الحسن گیلانی‘ سابق امیر جماعت اسلامی حلقہ راولپنڈی و حال انچارج شعبہ پارلیمانی امور مرکز جماعت اسلامی‘ اچھرہ‘ تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ نے ’’میثاق‘‘ میں ایک سلسلہ ٔ مضامین شروع کیا ہے جس میں آپ نے دس بارہ سال پہلے کے کچھ واقعات بیان فرمائے ہیں. دسمبر ۱۹۶۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں صفحہ ۳۸ پر میرا ذکر آیا ہے اور آپ نے لکھا ہے کہ ملک سعید صاحب کو بھی معطل کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا. لیکن ملک صاحب بہت ہوشیار آدمی تھے. میرا ارادہ بھانپ کر پہلے ہی پریس کانفرنس کر کے مستعفی ہو گئے. اور جماعت پر سنگین الزامات لگائے. اصل واقعات یوں ہیں کہ میں نے ملک سعید صاحب کی رکنیت بہت پہلے معطل کر دی تھی. حکیم عبد الرحیم اشرف وغیرہ کے معامالات بہت بعد میں پیش آئے ہیں. رکنیت سے معطلی کا فیصلہ اور چارج شیٹ ملک صاحب کی خدمت میں بھی ارسال کر دی تھی اور مرکزی دفتر کو بھی بھیج دی گئی تھی. محترم امیر جماعت نے مولانا عبد الغفار حسن صاحب اور محمد باقر خاں مرحوم پر مشتمل ایک ٹربیونل مقرر کر دیا تھا اس ٹربیونل نے چارج شیٹ کی ایک نقل ملک صاحب کو دوبارہ دی اور چند روز کی مہلت دے کر تاریخ مقرر کر دی تاکہ ملک صاحب چارج شیٹ کا جواب دے سکیں. جس تاریخ کو انہیں ٹربیونل کے سامنے پیش ہو کر جواب دہی کرنا تھی اسی روز انہوں نے پریش کانفرنس کر کے جماعت سے تعلق منقطع کر دیا.
آپ کو اگر ایڈمنسٹریشن کا کچھ تجربہ ہوا ہو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت سی ضابطہ کی کارروائیاں ہر ایڈمنسٹریشن چلانے والے آدمی کو کرنا پڑتی ہیں اور بسا اوقات اپنے دوستوں کے خلاف بھی کرنا پڑتی ہیں. ضابطہ کی کارروائیوں میں ذاتی رجحانات اور خیالات‘ دوستی اور مخالفت کا کوئی دخل نہیں ہوتا. یہ کارروائیاں علی الاعلان تمام کارکنوں کے سامنے ہوتی ہیں اور نظم بالا کو بھی ان پر غور کرنا ہوتا ہے. اگر بے جا کارروائی ہو تو خود کارروائی کرے والا بھی مطعون ہوتا ہے. ایسی کارروائیوں کو بد نیتی پر مبنی قرار دینا میری ناقص رائے میں بہت بڑی زیادتی ہے بلکہ ظلم عظیم ہے. میں نے ہمیشہ ضابطے کی ہر کارروائی اپنے ایمان و ضمیر کے مطابق کی ہے اور کبھی اپنے ذاتی رجحان کو کسی کارروائی کی بنا نہیں بنایا. یہ ملک صاحب کی صوابدید تھی کہ انہوں نے ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے سے گریز کیا اور مستعفی ہو گئے.
’’پ. ن: ملک صاحب کو ذاتی طور پر مجھ سے یا مجھے ان سے کبھی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی. ہم دونوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن مارشل لاء کے دَور میں ۱۹۶۲ء میں لڑا تھا اور دوستانہ ماحول میں الیکشن کے کام کئے. مجھے صرف ۴۶ ووٹ ملے تھے اور انہیں صرف ۹ ووٹ مل سکے. شاید اس لیے کہ وہ الیکشن کو ناجائز سمجھ کر کام کر رہے تھے اور ناجائز ذرائع بھی اسی لیے استعمال کر رہے تھے‘‘.
مندرجہ بالا وضاحت اگرچہ زیادہ تر ایک اجمال کی تفصیل کی نوعیت کی ہے تاہم قارئین ’’میثاق‘‘ کی خدمت میں پیش ہے تاکہ وہ ’’نقض غزل‘‘ کے متعلقہ مقام کی ’تصحیح‘ فرما لیں. رہی نیک نیتی اور بد نیتی کی بحث تو اس معاملے میں ؏ ’’ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی‘‘ کی صورت بن جائے گی. جہاں ’’حکمت عملی‘‘ کے خوش نما الفاظ کے پردے میں End Justifies Means کے نظریئے کو جوں کا توں اپنا لیا گیا ہو‘ وہاں ’’نیت‘‘ کے مسئلے پر گفتگو محض وقت کا ضیاع ہے.
’’پس نوشت‘‘ میں گیلانی صاحب نے بلا ضرورت و بے محل ملک سعید صاحب پر کیچڑ اچھال کر دل کی بھڑاس نکالنے کی جو کوشش فرمائی ہے وہ کسی طرح داعیانِ ’’اقامت دین‘‘ کے شایانِ شان نہیں. اس سلسلے میں اگر کوئی وضاحت ملک صاحب کرنا چاہیں تو ’’میثاق‘‘ کے صفحات حاضر ہیں. بہر حال ہم نے جناب صبا حسنی کی یہ تصحیح یا تردید بھی شائع کر دی ہے اگرچہ وہ دنیا کے ہر قاعدہ و قانون کے اعتبار سے Time-Barred ہے.
۴. آخری ’’طویل‘‘ اور ’’دلچسپ‘‘ وضاحت جناب مصطفی صادق صاحب کی جانب سے اس اصرار کے ساتھ موصول ہوئی ہے کہ اسے ضرور شائع کر دیا جائے. چنانچہ ان کی مکمل تحریر بھی ہدیہ قائین کی جا رہی ہے:
محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ!
’’میثاق‘‘ کے شمارہ مارچ ۱۹۹۰ء میں اجتماع ماچھی گوٹھ میں میری تقریر کے حوالے سے جو باتیں آپ نے شائع کی ہیں مجھے ان کی اشاعت پر اس لحاظ سے سخت صدمہ ہوا کہ میں آج تک ان باتوں کو اس انداز میں شائع کرنا یا شائع کرانا مناسب نہیں سمجھتا تھا. آپ کو یاد ہو گا کہ اس موضوع پر آپ سے میری گفتگو ہوئی تھی‘ اس میں بھی میں نے یہ گزارش کی تھی کہ اجتماع ماچھی گوٹھ سے واپسی کے بعد اُس وقت تک کے قیم جماعت اسلامی محترم میاں طفیل محمد صاحب نے مجھ سے اپنی اس تقریر کا مکمل متن طلب کیا تھا اس لیے کہ وہ اسے (ان کے خط کے مطابق) اجتماع کی رُوداد میں شامل کرنا چاہتے تھے. میں نے میاں صاحب کے اس خط کے جواب میں خود حاضر ہو کر ان سے عرض کیا تھا کہ میری یہ تقریر صرف ارکانِ جماعت کے اجتماع کے لیے تھی اس کا روداد میں شامل کرانا میں مناسب نہیں سمجھتا. میاں صاحب سے اپنی اس گفتگو کا ذکر میں نے آپ سے بھی بطور خاص کیا تھا.
اس کے بعد آپ نے ٹیلی فون پر مجھ سے کہا تھا کہ آپ کی تقریر مَیں اپنے مضمون میں شامل کرنا چاہتا ہوں لیکن میں چونکہ ملاقات کے دوران اس کے Notes نہیں لے سکا اس لیے آپ اسے مرتب کر کے بھجوا دیں. اس پر بھی میں نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ میں اپنی اس تقریر کی اشاعت کے حق میں نہیں ہوں. اس پر آپ نے بے تکلفانہ انداز میں استفہامیہ طور پر کہا تھا کہ آپ میری اس سلسلہ میں مدد نہیں کریں گے؟ میں نے جواباً عرض کیا تھا کہ آپ اس موضوع پر اب تک اکیلے ہی کام کرتے آئے ہیں اور یہی شاید مناسب بھی ہے. پھر آپ نے آخری جملہ یہ کہا کہ ’’چلئے پھر آپ کم از کم اپنے طور پر اپنی معلومات کو اور اُس دَور سے متعلق واقعات کو مرتب کر کے شائع ضرور کرائیں تاکہ ماضی کے تجربات آئندہ کام کرنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو سکیں‘‘. اس پر ہماری گفتگو ختم ہو گئی.
’’میثاق‘‘ کے تازہ شمارہ میں مجھ سے جو باتیں آپ نے منسوب کی ہیں وہ معنی اور مفہوم کے اعتبار سے اگرچہ درست ہیں لیکن ایک تو فی الحقیقت یہ جماعت کے داخلی معاملات تھے اور دوسرے میں یہ پہلو بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ماچھی گوٹھ میں میری تقریر کسی خاص فرد یا افراد کے خلاف محض الزامی نوعیت کی باتوں پر مشتمل نہیں تھی. اس کے برعکس میں نے تو ان تمہیدی کلمات سے اپنی تقریر کا آغاز کیا تھا کہ ماضی میں انتخابی سرگرمیوں کے دوران اگر کچھ غلطیاں اور لغزشیں وقوع پذیر ہوئی ہیں تو یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری تھی‘ تاہم ذمہ داری جب تقسیم کی جائے گی تو جماعت کے مرکزی عہدیداروں اور دوسرے اہم مناصب پر فائز اصحاب عام ارکانِ جماعت کے مقابلے میں جواب دہی کے نقطہ ٔ نظر سے زیادہ ذمہ دار قرار پائیں گے. اپنی اس تقریر میں‘ میں نے بلا شبہ انتخابی معرکہ آرائی میں جماعت کے کارکنوں کی ایسی سرگرمیوں کا ذکر کیا تھا جو جماعت کی طے کردہ پالیسی کے یکسر منافی تھیں لیکن ان امور کی نشان دہی کا مقصد (جو میں نے اپنی تقریر میں واضح بھی کر دیا تھا) صرف اور صرف یہ تھا کہ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنے کے لیے ماضی کے تجربات اور واقعات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے. اپنے اس موقف کی وضاحت کے لیے میں نے محترم امیر جماعت سے انتہائی ادب و احترام کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے یہ گزارش بھی کی تھی کہ ’’پنجاب اور بہاولپور کے انتخابات کے مقابلے میں ملک بھر کے انتخابات کی مثال بالکل ایسی ہے کہ آپ نے پہلے ہمیں چھوٹے بڑے ندی نالوں کو عبور کرنے کا حکم دیا جنہیں عبور کرتے وقت ہم کیچڑ میں لت پت ہو گئے اب ہمیں ایک وسیع اور گہرے سمندر میں کود جانے کا حکم دیا گیا تو خود ہی غور فرما لیں کہ اس مہم جوئی میں کارکنوں پر کیا گزرے گی اور اس امتحان میں ہم کس حد تک سرخرو ہو سکیں گے؟
اس تقریر کو اگرچہ بعض شرکاء جماعت نے سخت ناپسند کیا لیکن جیسا کہ آپ خود لکھ چکے ہیں ارکانِ جماعت کی ایک معقول تعداد نے میری تائید بھی کی. اس سب کچھ کے باوجود میں ذہناً ان واقعات کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو کبھی آمادہ نہیں کر پایا. یہی میں نے آپ سے بھی عرض کیا تھا. ہو سکتا ہے میری یہ بات آپ کے ذہن سے محو ہو گئی ہو‘ تاہم اب آپ سے میری بصد ادب یہ درخواست ہے کہ ’’میثاق‘‘ کی آئندہ اشاعت میں میرا یہ عریضہ شائع کر دیں اور اس کے ساتھ ہی آپ کی خدمت میں‘ میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ’’میثاق‘‘ کے محولہ بالا مضمون میں مجھ سے جو باتیں منسوب کی گئی ہیں براہِ کرم انہیں اپنی زیر تالیف کتاب میں شامل نہ کریں.
شکریہ،والسلام
مصطفی صادق
اس ’’وضاحت‘‘ کے بارے میں ہم یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اپنی فراہم کردہ معلومات کے ضمن میں مصطفی صادق صاحب کا یہ فرمانا کہ انہوں نے راقم کو ان کی اشاعت سے روک دیا تھا اگر بعد کی اختراع نہیں تو یقینا ایسے ’’معہودِ ذہنی‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے جو ان کے ذہن میں ہو تو ہو زبان پر ہرگز نہیں آیا! میں طفیل محمد صاحب سے اپنی گفتگو کا ذکر انہوں نے بطورِ واقعہ ضرور کیا تھا‘ اور میری اس گزارش سے بھی کہ مناسب ہے کہ ہر شخص اپنی مفصل سرگزشت لکھ کر تاریخ کا قرض ادا کر دے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اتفاق کیا تھا بلکہ اس ضمن میں بعض دوسرے حضرات کے اصرار کا بھی تذکرہ فرمایا تھا. تاہم انہوں نے خود میرے یہاں تشریف لا کر جس انشراح کے ساتھ تفاصیل بیان کی تھیں (جن پر میں ان کا شکریہ علی الاعلان ادا کر چکا ہوں) قطع نظر اس ’’واقعے‘‘ کے کہ انہوں نے مجھے ان کی اشاعت سے ہرگز نہیں روکا‘ سوال یہ ہے کہ اگر فی الواقع اُن کی اشاعت مطلوب نہ تھی تو انہوں نے انہیں بیان کس لیے کیا تھا؟
بہر حال راقم الحروف کے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے کہ بحمد اللہ انہوں نے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ ’’مجھ سے جو باتیں آپ نے منسوب کی ہیں وہ معنی اور مفہوم کے اعتبار سے‘‘ ’’درست ہیں!‘‘ جس کے لیے میں اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں.
باقی اس ’’وضاحت‘‘ میں ’’دلچسپی‘‘ کا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ’’جماعت کے داخلی معاملات‘‘ اور ان کے ضمن میں نا پسندیدہ تفصیلات کی اشاعت کو اپنے نزدیک سخت مکروہ قرار دیتے ہوئے اپنے ’’واجب الاشاعت‘‘ خط میں بعض مزید تفصیلات کا اضافہ فرما دیا ہے! اب ؏ ’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!‘‘.
ہم اپنے خیال کے مطابق ’’نقض غزل‘‘ کے ردّ عمل پر گفتگو مکمل کر چکے تھے کہ اچانک یاد آیا کہ ہمارے ناصحین‘ محبین اور مخلص ناقدین میں سے ایک اور اہم شخصیت کا خط بھی سات سمندر پار سے آیا ہوا ہے. ہماری مراد جناب شمیم احمد صدیقی صاحب سے ہے جو تحریک اسلامی کے ساتھ نہایت قدیمی اور گہرا تعلق رکھتے ہیں. موصوف کا آبائی تعلق سرزمین لکھنؤ سے ہے. وہاں سے وہ مشرقی پاکستان منتقل ہوئے جہاں وہ جماعت اسلامی کے نہایت سرگرم اور صف اول کے کارکنوں میں شامل رہے. ۷۰- ۱۹۷۱ء کے حوادث سے دل برداشتہ ہو کر امریکہ ’’ہجرت‘‘ کر لی. اب نیو یارک میں مقیم ہیں اور وہاں مقامی طور پر امریکی نژاد مسلمانوں میں وہاں کے مقامی ماحول اور مخصوص مزاج کے مطابق تحریک اسلامی کا ایک نیا قافلہ تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف ہیں. جماعت اسلامی کی تحریک سے گہری قلبی و ذہنی وابستگی اور مولانا مودودی مرحوم کی ذات سے شدید محبت و عقیدت کے ساتھ ساتھ راقم الحروف سے بھی ذہنی مناسبت اور دلی محبت رکھتے ہیں. ان کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے مابین خلیج پاٹ دی جائے اور یہ دونوں تنظیمیں اول تو باہم مدغم ہو کر ورنہ کم از کم یک جان دو قالب ہو کر فریضہ ٔ اقامت دین کے لیے شانہ بشانہ جدو جہد کریں. گزشتہ سال ڈٹرائٹ (میشی گن- امریکہ) میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام جو سات روزہ تربیت کیمپ منعقد ہوا تھا اس میں وہ از اول تا آخر شریک رہے تھے اور اس میں جو اختتامی تقریر راقم نے کی تھی اسے بے حد سراہا تھا. پاکستان کے بھی انہوں نے بعض سفر اسی ارادے سے کئے کہ جماعت اسلامی کے قائدین‘ جن میں سے اکثر کے ساتھ ان کی دیرینہ شناسائی ہے‘ سے ملاقات کر کے جماعت اور تنظیم کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کریں اگرچہ اس میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی.
صدیقی صاحب کے لیے ’’نقض غزل‘‘ جس صدمہ کا باعث بنا ہو گا ہمیں اُس کا پورا اندازہ ہے‘ اس لیے کہ اس سے ایک جانب قلبی محبت و عقیدت کو ٹھیس پہنچی ہو گی تو دوسری جانب اُس خواہش کے ضمن میں بھی کہ ہمارے اور جماعت اسلامی کے مابین بُعد و فصل کم ہو‘ کم از کم وقتی طور پر ؏’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘ کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہو گی. چنانچہ ان کا ایک بہت مفصل خط برادرم قمر سعید صاحب کے نام موصول ہوا جس کے دو اقتباسات درج ذیل ہیں:
۱. ’’ ’نقض غزل‘ دین کی کوئی اچھی خدمت نہیں ہے. اس سے دلوں میں اور بُعد پیدا ہو گا‘ تلخیاں ابھر کر کشمکش حیات میں مزید زہر گھول دیں گی اور اس سے دین کی راہ اور کھوٹی ہو گی. اگر مولانا مرحوم نے بقول ڈاکٹر صاحب کے کچھ غلطیاں کی تھیں تو وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں. ڈاکٹر صاحب کا کام تاریخ سازی ہے‘ تاریخ کا لکھنا نہیں ہے. غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ مستقبل کا مؤرخ کرے گا‘ جس کے پاس ذاتی پسند و ناپسند جیسی کوئی چیز نہ ہو گی‘ اس کے ہاں جذبات کی آمیزش نہ ہو گی. اُس وقت تاریخ اپنابے لاگ تبصرہ دے گی اور پھر آنے والی نسلیں مولانا مرحوم اور ڈاکٹر صاحب دونوں کے تاریخ میں پیش کردہ کردار پر رائے زنی کریں گی‘‘.
۲. ’’میں نے اپنے پچھلے خطوط میں بھی ڈاکٹر صاحب سے یہ مؤدبانہ عرض کیا تھا اور اب پھر عرض کر رہا ہوں کہ آپ صرف مثبت انداز میں اقامت دین کی جدو جہد میں لگے رہیں. آپ کا اخلاص‘ آپ کی دینی خدمات اور آپ کی جانفروشانہ ٱ کوششیں حق کے مثبت کارکنوں کو کھینچ کھینچ کر آپ کے کارواں کی گردِ راہ بنا دیں گی. آپ کا کارواں چلتا رہے گا‘ لوگ ملتے رہیں گے. اگر منزل سر کر لی تو فبہا‘ اور اگر شہادت علی الناس کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے شہید راہ ہو گئے تو عین کامیابی! پھر اس قافلہ کی قیادت کچھ اور لوگ آگے بڑھ کر سنبھال لیں گے. دوسروں پر انگشت نمائی کرنا ایک داعی کا شیوہ نہیں. دوسروں کا چراغ بجھا کر اپنا چراغ جلانے میں دنیا میں کوئی کامیاب نہیں ہوا ہے. ڈاکٹر صاحب کی پوزیشن تو اس سے بہت سوا ہے. ان کا کام تو عقابوں کے نشیمن پر کمندیں ڈالنا ہے‘ نہ کہ گرے ہوئے پرندوں پر ٹھونگیں مارنا. یہ ان کے رتبہ سے بہت فروتر کام ہے. ان کی آواز تو مکہ و مدینہ میں گونج رہی ہے‘ اور اب تو ساتوں سمندر پار اقصائے عالم میں ہر سُو پھیل چکی ہے. ان کے سوچنے کا انداز عالمی ہے‘ نہ کہ مقامی. وہ اپنی اَن تھک کوششوں سے تحریک اسلامی کے قافلے کو ایک آفاقیت کا روپ دے چکے ہیں. دوسری طرف مولانا مرحوم کا اپنا ایک مقام ہے جس کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا. وہ ایک فکر کے حامل تھے. انہوں نے ایک تحریک چلائی‘ ایک کارواں تیار کیا اور آگے چل پڑے. وہ اپنا کام پورا کر کے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئے. اب ہم ان کے کاموں میں کیڑے ڈالنے کے لیے نہیں‘ بلکہ ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کے لیے آگے بڑھے ہیں. اگر ان کی چلائی ہوئی تحریک بقول ڈاکٹر صاحب کے اب گم کردہ راہ ہو گئی ہے تو آپ اس راہ پر گامزن ہو کر اسے مہمیز لگائیں. وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا. وہ کب فرصت دیتا ہے کہ آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں‘ پلٹ پلٹ کر ماضی میں گم رہیں. ایک بار ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں تجزیہ کر کے ڈاکٹر صاحب نے اپنا فرض پورا کر دیا اب بار بار نشتر زنی کرنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا. وہ اپنا وقت ضائع کریں گے اور دوسروں کے منہ کے مزوں کو کڑوا اور کسیلا کر دیں گے ……… شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ وہ اس طرح حق کی راہ کھوٹی کر کے حق کے شہ سواروں کو آپس ہی کی چشمک زنی میں الجھا دے‘ تاکہ اپنے حیرت بداماں رہیں‘ غیر تماشا دیکھتے رہیں اور وہ پوری بازی جیت کر یا الٹ کر چلتا بنے‘‘.
صدیقی صاحب کی نصیحت و فہمائش کے ضمن میں ہمارا موقف کسی حد تک دوسرے خطوط کے سلسلے میں جو گزارشات پیش کی جا چکی ہیں اُن میں بیان ہو چکا ہے‘ تاہم تین نکات کی جانب مزید توجہ منعطف کرانی ضروری ہے.
ایک یہ کہ مستقبل کے مؤرخ پر آسمان سے وحی تو ہرگز نازل نہیں ہو گی اور اگر اُسے اپنی تحقیق و تفتیش کے لیے ضروری مواد حاصل نہ ہو سکا تو وہ صحیح فیصلے تک کیسے پہنچے گا؟ ادھر ۵۷- ۱۹۵۶ء کے حوادث و واقعات سے متعلق ریکارڈ کو جماعت اسلامی نے ایسے دفن کیا ہے کہ ایک طرف اُس رپورٹ کو صفحۂ ہستی سے نابود کر دیا جو جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کی نامزد کردہ جائزہ کمیٹی نے ایک سال کی محنت و مشقت سے تیار کی تھی جس پر جائزہ کمیٹی کے ارکان کی توانائیوں اور اوقات کے صرفِ کثیر کے علاوہ جماعت اسلامی کے بیت المال کا بھی زرِ کثیر صَرف ہوا ہو گا. پھر ماچھی گوٹھ کی اختلافی تقاریر کو نسیاً منسیاً کرنے کے لیے جماعت کی رُودادوں کی اشاعت کا سلسلہ ہی ختم کر دیا گیا. حد یہ ہے کہ خود مولانا مودودی مرحوم نے تحریک اسلامی کی قیادت اور امارت کے سلسلے میں اپنے ذہن کو جس تقریر میں کھول کر بیان کیا تھا اسے بھی ایسے غائب کیا کہ میں سالہا سال کی تلاش کے باوجود اس تک رسائی حاصل نہ کر سکا‘ اور وہ سامنے آئی بھی تو ایک خالص خدائی بدبیر‘ اور ایک مخلص اور پُر جوش لیکن نا سمجھ کارکن کی ’’غلطی‘‘ کے نتیجے میں.
راقم کے بارے میں صدیقی صاحب کا یہ فرمانا کہ میرا کام تاریخ نگاری نہیں صد فی صد درست ہے (اگرچہ مجھ ایسے ناچیز اور نااہل کے لیے ’’تاریخ سازی‘‘ کے لفظ کا استعمال محض اُن کے حسن ظن کا مظہر ہے) خود راقم نے بھی اگر ’’نقض غزل‘‘ کے ضمن میں ’’تاریخ کا حق ادا کرنے‘‘ کا ذکر کیا ہے تو ثانوی اعتبار سے. راقم کو اصل تشویش اس امر کی لاحق تھی کہ ان حوادث کے اصل اسباب کے متعین نہ ہونے کا نہایت مضر نتیجہ یہ نکل سکتا ہے (جو بالفعل بہت سے لوگوں کے رویہ میں ظاہر ہو بھی چکا ہے) کہ نہ صرف یہ کہ تحریک اسلامی کے اصول و مبادی اور اساسی نظریات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں بلکہ اقامت دین کی جدو جہد ہی کی جانب سے مایوسی اور بد دلی پیدا ہو جائے. جبکہ اس کے برعکس اگر متعین کر دیا جائے کہ غلطی کیا اور کب ہوئی تو باقی سارے اصول و مبادی اور کُل صغریٰ کبریٰ شکوک و شبہات کی زد میں آنے سے بچ جاتے ہیں! وھُوَ المطلوب!!
دوسرے یہ کہ صدیقی صاحب غور فرمائیں کہ کیا دنیا میں کبھی کوئی مثبت کام تنقید کا ناگزیر مگر ناخوشگوار فریضہ سر انجام دیئے بغیر ہوا ہے؟ گویا کیا قرآنی اصطلاح میں ’’احقاقِ حق‘‘ اور ’’ابطالِ باطل‘‘ لازم و ملزوم نہیں ہیں؟ کیا قرآن میں پہلے مشرکین اور پھر اہل کتاب اور منافقین پر شدید تنقید بلا ضرورت کی گئی ہے؟ کیا خود مولانا مودودی مرحوم نے کانگریس کے ہم نوا علماء پر شدید تنقید نہیں کی تھیَ؟ در آنحالیکہ ان کی دینی تعلیم و تربیت اُن ہی کے حلقے میں ہوئی تھی اور انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز بھی جمعیت علماء ہند کے جریدے ’’الجمعیّت‘‘ کے حلقہ ٔ ادارت سے وابستگی ہی کے ذریعے کیا تھا. پھر کیا انہوں نے متحدہ قومیت کے خلاف مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے مؤثر اور مدلل اثبات کے باوجود ’’مسلم قو م پرستی‘‘ کو اُسی طرح کا بُت قرار دے کر اس پر اسی شدت سے سنگ باری نہ کی تھی جیسی کہ علامہ اقبال مرحوم نے ’’وطنیّت‘‘ کے بت پر کی تھی ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے طن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قصہ مختصر عالم واقعہ میں ’’صرف مثبت‘‘ کا م کی کوئی مثال ہو تو ضرور پیش کریں.
صدیقی صاحب اور ان کے ہم خیال لوگ ذرا غور فرمائیں تو یہ حقیقت بالکل واضح اور مبرہن نظر آئے گی کہ محض مثبت کام تو صرف انفرادی نیکی اور پارسائی کے ضمن میں ہو سکتا ہے‘ اس سے بڑھ کر آپ دعوتِ حق اور تبلیغ دین کی بات کریں گے‘ تو کم از کم پاک و ہند کے ماحول میں یا تو آپ کو تبلیغی جماعت میں شامل ہونا ہو گا ورنہ اس سے اپنے نظری اور عملی فرق و امتیاز کو واضح کرنا ہو گا. اسی طرح اگر آپ یہاں اقامت دین اور غلبہ ٔ دین حق کی بات کریں گے تو بھی دو ہی صورتیں ممکن ہیں یعنی یا آپ جماعت اسلامی میں شامل ہو جائیں! ورنہ پھر اس سے اپنے اختلاف کو پوری وضاحت اور شد و مد کے ساتھ بیان کریں! اور اگر کسی نیک اور مرنجان مرنج آدمی کو یہ ’’منفی‘‘ کام برا لگے تو اس کے لیے واحد راہ یہ ہے کہ دعوت و اقامت دین کی جدو جہد سے کنارہ کش ہو کر اول تو کلیۃً انفرادی نیکی اور پارسائی کے دامن میں پناہ لے لے‘ ورنہ زیادہ سے زیادہ کسی علمی مشغلے یا محض تعلیمی و تدریسی خدمت میں مصروف ہو جائے‘ اور راقم کا اصل ’’جرم‘‘ یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر مطمئن نہیں کر سکا. اس لیے کہ سر سید احمد خان مرحوم کے الفاظ ’’قرآنے کہ من دارم‘‘ کے مصداق مَیں جس قرآن سے واقف ہوں وہ تو شہادت علی الناس کو امت مسلمہ کا اجتماعی فریضہ‘ اقامت دین کی جدو جہد کو فرض عین‘ اور ان دونوں فرائض کی ادائیگی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کو ایمانِ حقیقی کا رکن لازم قرار دیتا ہے‘ لہٰذا ہمارے لیے تو صورت وہی ہے کہ ٍ ؎
جزدار اگر کوئی مفر ہو تو بتاؤ
ناچار گنہگار سوئے دار چلے ہیں!
تیسرے یہ کہ صدیقی صاحب ماچھی گوٹھ میں پیش کردہ ’’تجزیئے‘‘ کو کسی حد تک مناسب اور ضروری قرار دے رہے ہیں‘ لیکن اول تو فی الواقع اسے ماچھی گوٹھ میں پیش ہونے ہی نہیں دیا گیا‘ پھر اسے اس وقت اس سے بھی زیادہ نا پسند قرار دیا گیا تھا جیسا کہ آج صدیقی صاحب کو ’’نقض غزل‘‘ نا پسند ہوا ہے‘ یہاں تک کہ جب دس سال بعد اس کی اشاعت ہوئی تو راقم کے ایک نہایت قریبی اور مخلص دوست‘ پرائمری کے زمانے سے کلاس فیلو‘ یکے از مؤسسین مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور انجمن کے نمایاں اور مستقل معاون نے اسے سخت نا پسند کیا تھا. اور باصرار یہ پیشکش کی تھی کہ ’’پوری کتاب میں یکمشت خرید لیتا ہوں‘ گویا تمہاری کُل لاگت مع نفع کے تمہیں مل جائے گی. لیکن خدارا اِس کتاب کو عام نہ کرو!!‘‘ پھر جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ اس کے ذریعے مقدمے کا صرف ایک حصہ سامنے آیا تھا‘ یعنی یہ کہ میرا جماعت کی موجودہ پالیسی سے اختلاف کیا ہے؟ ....مقدمے کا دوسرا اور اہم تر حصہ یعنی یہ کہ میں نے جماعت سے علیحدگی کیوں اختیار کی؟ ابھی تک پردۂ خفا میں تھا. اس کا کوئی ذکر ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ میں موجود نہیں ہے.اس لیے کہ وہ تو جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوئے سے چھ ماہ قبل ضبط تحریر میں آئی تھی‘ اور جیسے کہ اس تحریر کے بالکل آغاز میں بیان ہو چکا ہے اس سوال کے تشفی بخش جواب کے لیے ’’نقض غزل‘‘ کی اشاعت ناگزیر تھی.
رہا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد و اتفاق یا کم از کم تعاون و تناصر کی فضا پیدا کرنے کا معاملہ جس کی خواہش مختلف گوشوں سے اس سے قبل بھی سامنے آتی رہی ہے‘ اور ان دنوں کچھ زیادہ ہی شد و مد کی صورت اختیار کر گئی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ شاید پوری دنیا میں اس کا راقم الحروف سے بڑھ کر خواہش مند کوئی نہ ہو. لہٰذا جب بات چل ہی نکلی ہے تو مناسب ہے کہ اس معاملے سے متعلق بعض حقائق و واقعات بھی اپنے بہی خواہوں کے سامنے رکھ دیئے جائیں.
جہاں تک اتحاد اور ادغام کا تعلق ہے اگرچہ وہ بظاہر احوال ع ’’حلول و اتحاد ایں جا محال است!‘‘ کا مصداقِ کامل نظر آتا ہے لیکن میری یہ پیشکش تمام واقفانِ حال کے علم میں ہے (اور کئی سال سے ہے) کہ اگر جماعت انتخابی سیاست کے میدان سے کنارہ کشی اختیار کر لے تو میں اور میرے رفقاء فوراً جماعت میں شامل ہو جائیں گے. اس میں‘ میں یہ تخفیف مزید کئے دیتا ہوں کہ اگر جماعت کو انتخابات سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی بہت شاق محسوس ہو‘ اور گویا کہ اس کے مترادف نظر آئے کہ جماعت اپنی چالیس سالہ پالیسی کے غلط ہونے کا اقرار کر لے‘ تو میں اُس تجویز کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہوں جو حال ہی میں ڈاکٹر محمد امین صاحب (جنہیں جماعت سے خارج کر دیا گیا) نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ جماعت آئندہ پچیس سال کے لیے ہی یہ طے کر لے کہ وہ ملکی انتخابات میں حصہ نہیں لے گی. البتہ اس صورت میں جماعت کے تنظیمی ڈھانچے میں ایسی تبدیلی لانی ضروری ہو گی جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اظہار رائے پر کوئی قدغن نہ رہے اور اختلاف رائے کے راستے (Channels) معین صورت میں کھول دیئے جائیں‘ بلکہ اختلافی آراء کے پنپے اور پروان چڑھنے کے امکانات بھی موجود ہوں (اس ضمن میں قارئین اگر اس نظام العمل کا مطالعہ کریں جو ہم نے تنظیم اسلامی کے لیے اختیار کیا ہے تو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم نے بیعت کے نظام میں بھی اِن دونوں باتوں کا کس قدر اہتمام کیا ہے. یہ نظام العمل مئی ۱۹۹۰ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا جا چکا ہے) اور اگرچہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس شرط کا پورا ہونا اللہ کی قدرت سے بعید نہ ہوتے ہوئے بھی‘ موجودہ حالات میں کم از کم بظاہر احوال نا ممکنات میں شامل ہے‘ تاہم ہماری پیشکش قائم ہے.
؏ ’’کہ عنقا را بلند است آشیانہ!‘‘ کے مصداق اس مقام سے نیچے اتر کر جہاں تک باہمی تعاون کا تعلق ہے‘ ہم اس کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہے ہیں اور ریکارڈ پر ایسے متعدد واقعات موجود ہیں کہ اس ضمن میں ہماری بار بار کی پیشکشوں کو سختی کے ساتھ ردّ کیا گیا. مثلاً:
۱. ۱۹۷۳ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی سالانہ قرآن کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا تو راقم خود چل کر نعیم صدیقی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اس میں شرکت کی دعوت دی. انہوں نے فرمایا کہ آپ کے ساتھ تو ہمارا شدید اختلاف ہے. میں نے عرض کیا کہ کیا خان عبد الولی خان صاحب سے آپ کا کامل اتفاق ہے؟ پھر اگر آپ سیاسی پلیٹ فارم پر ولی خان اور اصغر خان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو قرآنی پلیٹ فارم پر میرے ساتھ کیوں تشریف نہیں رکھ سکتے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں جانتا تھا کہ آپ یہ دلیل دیں گے. تاہم آپ کی کانفرنس میں میری شرکت ناممکن ہے! اس کے بعد بھی مسلسل دو سال تک راقم دعوت نامہ ارسال کرتا رہا‘ اور اس کا سلسلہ اُس وقت بند کیا جب اُن کی جانب سے ایک تلخ خط موصول ہوا کہ جب ہم نے آپ کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ہم شرکت نہیں کر سکتے تو آپ خواہ مخواہ ہمیں دعوت نامے کیوں ارسال کرتے ہیں.
۲. اسی طرح کی ایک دعوت تنظیم اسلامی کی ایک تربیت گاہ کے سلسلے میں جناب اسعد گیلانی صاحب کو دی گئی تو انہوں نے فی الفور آمادگی ظاہر فرما دی. لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وقت کے امیر جماعت نے انہیں منع فرما دیا!!
۳. ۱۹۸۲ء میں جماعت اسلامی نے تعلیم قرآن کانفرنس منعقد کی اور اس میں میاں طفیل محمد صاحب نے دعوتِ عام دی کہ ’’ہمیں قرآن کی بنیاد پر جمع ہو جانا چاہیے‘‘ تو راقم نے فوری طور پر پیشکش کی کہ اگر آپ کے سامنے اشتراکِ عمل اور تعاونِ باہمی کا کوئی پروگرام ہے تو واضح فرمائیں اس کے لیے سب سے پہلے میں اور میری تنظیم لبیک کہتی ہے. جس کے جواب میں مشترکہ لائحہ عمل اور اس کے حدود و خطوط معین کرنے کی بجائے گول مول نصیحت کے ساتھ ہمارے دست تعاون کو جھٹک دیا گیا (اس سلسلے میں جو خط راقم نے لکھا تھا اور اس کا جو جواب میاں صاحب کی جانب سے موصول ہوا‘ دونوں شامل اشاعت کئے جا رہے ہیں).
۴. اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سالانہ اجتماعات کئی سال سے پنجاب یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں منعقد ہوتے ہیں اور ان میں جماعت اسلامی کے زعماء کے علاوہ دیگر علماء یا دانشور حضرات کو بھی دعوتِ خطاب دی جاتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود کہ راقم کیمپس کا قریب ترین پڑوسی بھی ہے‘ اور جمعیت کا سابق ناظم اعلیٰ بھی‘ آج تک اُسے ان اجتماعات میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی.
جمعیت کے اس طرز عمل کے مقابلے میں راقم الحروف کی روش ہمیشہ یہ رہی کہ جب بھی کسی کالج میں منعقد ہونے والی کسی محدود تقریب میں دعوتِ خطاب دی گئی سر کے بل حاضر ہوتا رہا‘ اور کبھی اسے اپنی ’’انا‘‘ یا Prestige کا مسئلہ نہیں بنایا کہ جب آپ اپنے بڑے اجتماعات میں مجھے مدعو نہیں کرتے تو میں ان چھوٹے چھوٹے اجتماعات میں کیوں آؤں؟
۵. یہی معاملہ حال ہی میں لاہور میں پیش آیا کہ جب مرکز کے اہتمام میں ایک ’’عظیم الشان‘‘ بین الاقوامی کشمیر کانفرنس ’’الحمراء‘‘ میں منعقد کی گئی تو اس میں شرکت کی دعوت مجھے نہیں دی گئی. اس کے باوجود جب لاہور کی جماعت نے ’’ہفتہ ٔ انسدادِ منکرات‘‘ کے سلسلے میں ایک سیمینار جناح ہال میں منعقد کیا اور اس میں مجھے بلایا تو میں بلا چون و چرا حاضر ہو گیا.
۶. ستم بالائے ستم یہ کہ جماعت کا جو کُل پاکستان اجتماع چند ماہ پیشتر مینارِ پاکستان کے سائے میں منعقد ہوا تھا اس کے بارے میں جماعت کے بعد قریبی لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہ مشہور کیا گیا ہے کہ ’’انہیں (یعنی راقم کو) بھی دعوتِ خطاب دی گئی تھی لیکن وہ خود نہیں آئے‘ اور ان سے اپنا سٹال لگانے کو بھی کہا گیا تھا لیکن انہوں نے خود نہیں لگایا‘‘ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ میرے نام صرف وہ دعوت نامہ موصول ہوا تھا جو عام سامعین کو رسماً بھیجا جاتا ہے. اس میں کسی تقریر یا خطاب کا کوئی ذکر تک نہ تھا. اور سٹال کے ضمن میں جب ہم نے خود رابطہ کیا تھا تو بتایا گیا تھا کہ ساری جگہ پہلے ہیالاٹ ہو چکی ہے اور اب کسی سٹال کی گنجائش باقی نہیں رہی.
اب محبین اور مخلصین خود غور فرمائیں کہ کمی ہماری جانب سے ہے یا دوسری جانب سے!
٭٭٭
اور جب بات اس حد تک پہنچ ہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ’’تکملہ‘‘ کے طور پر چند اور باتیں بھی‘ طوالت کے خوف سے باوجود گوش گزار کر دی جائیں.
راقیم الحروف اپنی دعوت اور تحریک کے اعتبار سے مولانا مودودی مرحوم اور جماعت اسلامی کو اپنے معنوی ’’والدین‘‘ سمجھتا ہے. چنانچہ راقم نے بارہا صراحتاً عرض کیا ہے اپنی دانست میں راقم جس تحریک اور دعوت کے تسلسل کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اس کی اس بیسویں صدی عیسوی میں پہلی کڑی کی حیثیت حاصل ہے مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور ان کی حزب اللہ کو‘ اور دوسری کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے معنوی جانشین مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی اگرچہ میری تحریک کا سلسلہ ٔ نسب مولانا آزاد مرحوم کی زندگی کے بھی صرف آٹھ سالوں سے جڑتا ہے یعنی ۱۹۱۲ء تا ۱۹۲۰ء اور مولانا مودودی مرحوم کی تحریک کے بھی صرف آٹھ ہی سالوں سے متعلق ہے یعنی ۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۷ء. اسی طرح جماعت اسلامی کے بارے میں ۱۹۶۶ء کی تحریر کا یہ اقتباس تو اسی تحریر میں آ چکا ہے کہ جیسے ایک بچہ سب کچھ اپنی ماں سے سیکھتا ہے اسی طرح میں نے اکابرین جماعت سے دیکھنا‘ سننا‘ سوچنا اور بولنا سیکھا ہے. اس کے علاوہ میں نے اپنے ان ہی جذبات کا اظہار کے لیے ایک موقع پر علامہ اقبال مرحوم کی مشہور نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے اس شعر کو ذریعہ بنایا تھا کہ ؎
تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی
شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی!
جس پر بعض احباب بالخصوص مکہ مکرمہ سے زبیر عمر صدیقی صاحب کا بڑا جذبات ردّ عمل موصول ہوا تھا.
تاہم از روئے قرآن والدین کا حق ادب و احترام اور حسن سلوک اور مصاحبت معروف ہی کا ہے‘ ان کی اطاعت یا اتباع ہر حال میں لازم نہیں (سورۂ بنی اسرائیل آیات ۲۳ تا ۲۵‘ سورۂ عنکبوت آیت ۸‘ سورۂ لقمان آیات ۱۴ تا ۱۵) چنانچہ کسی معاملے کی نوعیت کی مناسبت سے ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے‘ اور حکم عدولی بھی کی جا سکتی ہے‘ اور عدل و انصاف کی بات ان کے خلاف پڑ رہی ہو تو بھی ڈنکے کی چوٹ کہنا ضروری ہے (سورۂ نساء آیت ۱۳۵). چنانچہ میں نے مولانا مودودی مرحوم کے دینی فکر میں جو کمی نظر آئی اس کی بھر پور نشان دہی کی (اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ نامی کتابچے میں ’’تعبیر کی کوتاہی‘‘ کے عنوان سے بحث اور ’’عظمت صوم‘‘ نامی تحریر میں ’’اسلام کا روحانی نظام‘‘ کے موضوع پر مولانا مرحوم کے نظرئیے کی نفی) اسی طرح قیام پاکستان کے بعد کی مجموعی پالیسی میں جو کجی نظر آئی اس پر بھی مبسوط مقالہ لکھا (’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی جائزہ‘‘). پھر ۵۷- ۱۹۵۶ء کے بحرانی دَور کے جو اقدامات تباہ کن محسوس ہوئے ان پر بھی گرفت کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ نامی کتاب میں بعض نہایت جلیل القدر صحابہرضی اللہ عنہم پر جو جارحانہ تنقید وارد ہوئی اُس سے بھی اعلانِ برأت اور اظہارِ بیزاری کیا‘ اور بالآخر تحریک اور تنظیم کی قیادت و امارت کے تصور کے ضمن میں جو غلطی نظر آئی اُس کی بھی نشان دہی کر دی. لیکن بحمد اللہ آج تک نہ ان کی ذات پر کوئی حملہ کیا اور نہ ان کی نجی اور گھریلو زندگی کو کبھی موضوعِ گفتگو بنایا‘ بلکہ ایک خاص دَور میں مقدم الذکر امور کے ضمن میں بھی اگر لہجہ تیز اور زبان سخت ہو گئی تھی تو اس پر بھی علیٰ رؤس الاشہاد معذرت کر لی!
تاہم چونکہ والدین سے خواہ کتنا بھی اختلاف کیوں نہ ہو جائے‘ رہتے تو وہ والدین ہی ہیں‘ اور ان کی احسان مندی کا جذبہ ہر سلیم الفطرت انسان میں بہر حال برقرار رہنا چاہیے‘ لہٰذا میں نے بھی جماعت سے علیحدگی کے بعد کے تینتیس سالوں میں سے صرف ایک آٹھ سالہ دَور (۶۲ء تا ۱۹۷۰ء) کے علاوہ نہ اس سے قبل کے پانچ سالوں کے دوران اپنے قلب میں اس جذبہ و احساس کی کوئی کمی محسوس کی‘ نہ ہی بعد کے بیس سالوں کے دوران ان میں کمی کا کوئی شائبہ محسوس کیا! فالحمد للہ علیٰ ذٰلک!
عجیب اتفاق ہے کہ میرے صلبی و جسمانی والد شیخ مختار احمد مرحوم کا سن پیدائش بھی ۱۹۰۳ء تھا‘ اور میرے تحریکی و معنوی والد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کی ولادت بھی اُسی سال ہوئی تھی. پھر وہ دونوں ہی عرصہ ہوا کہ اس دنیا سے رخصت اور ’’تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ‘‘ کے مصداق بن چکے ہیں. جبکہ میری والدہ ماجدہ بھی تاحال بقید حیات ہیں اور میری معنوی ماں جماعت اسلامی بھی قائم اور موجود ہے! اور میں جیسے یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ والدہ صاحبہ کا سایہ تا دیر سلامت رکھے‘ ایسے ہی قلب کی گہرائیوں سے یہ دعا بھی مسلسل نکلتی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے اربابِ حل و عقد کو توفیق دے کہ وہ حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہوئے پوری جرأتِ رندانہ کے ساتھ اپنے سابقہ طریق کار کی طرف مراجعت کر لیں. تاکہ ؏ ’’آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک!‘‘ کی صورت پیدا ہو جائے.
’’وَ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ!!‘‘ لہٰذا ’’اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ!!‘‘
الغرض یہ ہیں مولانا مودودی مرحوم اور جماعت اسلامی کے بارے میں میرے قلبی احساسات و جذبات جن کے اظہار میں مجھے ہرگز کوئی باک نہیں‘ خواہ اسے کوئی ارشاد احمد علوی یا اُن کے ہم خیال جماعت کی خوشامد اور ع ’’میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب!‘‘ کا مصداق قرار دیں‘ خواہ کوئی صفدر میر یا اُن کے ہم نوا Kowtowing Before The Jamaa سے تعبیر کریں.
تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں جملہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مولانا مودودی کی ہر بات سے متفق ہونے کا اعلان کر دوں‘ یا ان کے ہر اقدام کو درست قرار دے دوں‘ یا ان کو معاذ اللہ تنقید سے بالاتر سمجھنے لگوں. ان سے میرے علمی اختلافات بے شمار ہیں‘ یہاں تک کہ ان کے بعض نظریات و خیالات کو میں گمراہی سے تعبیر کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا!
مزید برآں جس طرح والدین معناً ایک وحدت ہوتے ہوئے بھی اپنا اپنا جداگانہ مقام رکھتے ہیں چنانچہ حدیث نبویصلی اللہ علیہ وسلم کی روسے والدہ کا حق والد پر تین درجہ فائق ہے‘ اسی طرح مولانا مودودی اور جماعت اسلامی خواہ ایک اعتبار سے ایک حیاتیاتی اکائی اور وحدت ہوں اپنی اپنی جداگانہ حیثیت بھی رکھتی ہیں‘ بالخصوص اب جبکہ مولانا مودودی مرحوم کی وفات پر دس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے ان کے علمی نظریات اور ذاتی خیالات کا کوئی لازمی تعلق جماعت اسلامی کے ساتھ نہیں ہے (چنانچہ اصولاً تو اس کا واضح فیصلہ اور برملا اعلان بھی ۱۹۵۶ء میں کر دیا گیا تھا). لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ ’’جماعت اسلامی‘‘ سے میرا اختلاف صرف ’’طریق کار‘‘ کا ہے‘ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ جماعت کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگ ’’وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ‘‘ (النمل: ۱۴) کے مصداق خواہ برملا تسلیم کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہوں‘ دل سے قائل ہو چکے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے اقامت دین کی منزل کی جانب کوئی پیش قدمی ممکن نہیں ہے! (بلکہ سننے میں آیا ہے کہ جماعت کے موجودہ امیر قاضی حسین احمد صاحب نے تو بعض اجتماعات میں اس کا برملا اعلان بھی کر دیا ہے. اگرچہ اگر ہماری اطلاعات صحیح ہیں تو اس کے متبادل کے طور پر جس راستے کی وہ نشان دہی کر رہے ہیں وہ ایک خطرناک داؤ کے مترادف ہے!! جس کے ضمن میں نصح و اخلاص کا حق راقم نے اپنی اس تقریر کے بین السطور میں ادا کر دیا ہے جو جماعت کے حالیہ سیمینار میں ہوئی تھی.) (۱)
’’میثاق‘‘ کا یہ شمارہ بھی جنوری اور مارچ کے شماروں کے مانند ’’نقض غزل‘‘ ہی کے سلسلے کی کڑی بن گیا ہے اگرچہ یہ کڑی ہے اور آئندہ ان صفحات میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں آئے گا. بلکہ ’’نقض غزل‘‘ کو کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے گا. تاہم ’’نقض غزل‘‘ کے اس تکملہ کے ساتھ بطور ضمیمہ راقم کا جماعت کی رکنیت سے ’’استعفاء‘‘ شائع کیا جا رہا ہے جو ۲۶؍ اپریل ۱۹۵۷ء مطابق ۲۹؍ رمضان المبارک ۱۳۷۶ھ کو بحالت
(۱): جماعت اسلامی کے زیر اہتمام یہ سیمینار انسدادِ منکرات کی مہم‘ کے سلسلے میں مئی ۱۹۹۰ء میں جناح ہال لاہور میں ہوا تھا، جس میں محترم ڈاکٹر صاحب کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی. ڈاکٹر صاحب کے خطاب کا موضوع تھا: ’’انسدادِ منکرات اور اسوۂ رسولصلی اللہ علیہ وسلم ‘‘. ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب جون ۱۹۹۰ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوا تھا. صوم و اعتکاف لکھا گیا تھا جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ آج سے ثلث صدی قبل جب راقم نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی تھی تو اس وقت اس کے جذبات و احساسات کیا تھے! اور یہ کہ اگر میں یہ کہتا رہا کہ ؎
تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی
شرکت غم سے یہ الفت اور محکم ہو گئی
اور عملاً اس شعر کی تصویر بنا رہا کہ ؎
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا !
تو ’’وَ مَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ‘‘ کے مصداق اس میں نہ کوئی تصنع ہے نہ تکلف بلکہ یہ میرے فکر و نظر کی حقیقی ترجمانی اور میرے جذبہ و احساس کا واقعی انعکاس ہے! ؏ ’’کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے!‘‘
٭٭٭ تنظیم اسلامی کی تأسیس اول کے موقع پر اکتوبر ۱۹۶۷ء کے ’میثاق‘ کی پشت پر شائع شدہ