وہاں فرمایا گیا ہے:
اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ:۸۵)
’’تو کیا تم کتاب (اورشریعت) کے ایک حصے کو تو مانتے ہو اور ایک کو رد کرتے ہو؟ تو جو لوگ بھی تم میں سے یہ طرزِ عمل اختیار کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں وہ ذلیل و خوار کر دیے جائیں اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیے جائیں ‘اور اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کرتے ہو.‘‘
جزوی اطاعت کی حقیقت کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی اہم ترین آیت ہے. یہاں ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے والوں کے لیے ’’اَشَدَّ الْعَذَابِ‘‘ (شدید ترین عذاب) کا تذکرہ ہے. اللہ کی جزوی اطاعت کرنے والوں کا حشر کفار سے بدتر ہو گا. یہی وجہ ہے کہ منافقین کے بارے میں فرمایا گیا:
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵)
’’منافق آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے.‘‘
یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان سے کہا گیا ہے:
لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ (الصف:۲،۳) ’’کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے غضب کو بھڑکانے اور اس میں بیزاری پیدا کرنے والی ہے یہ بات کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں.‘‘
اللہ تعالیٰ کو تو پوری اطاعت چاہیے‘ اسے جزوی اطاعت قبول نہیں. ایسی اطاعت مردود ہے‘ لوٹا دی جاتی ہے‘ منہ پر مار دی جاتی ہے. یہ نکتہ اگر پورے طور پرآپ کے ذہن نشین ہو جائے تو میری اگلی بات کا منطقی ربط آپ کی سمجھ میں آ جائے گا.