اب میرا اگلا نکتہ سمجھ لیجیے! اور یہ بھی ہمارے مجموعی دینی فکر سے اوجھل اور بالکل غائب ہے. یوں سمجھئے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہے. اس فرضِ عین کے لیے شرطِ لازم ہے التزامِ جماعت. جیسے نماز فرضِ عین ہے‘ اس کے لیے وضو شرطِ لازم ہے اور اگر پانی نہ ہو تو تیمم ضروری ہے (یہ دونوں الفاظ آپ نوٹ کر لیں)‘ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہو گی‘ اسی طرح اگر آپ باطل کے غلبے کے تحت رہ رہے ہیں تو طاغوت کا انکار‘ نظامِ باطل کو ذہناً اور قلباً تسلیم نہ کرنا‘ اس کی چاکری نہ کرنا‘ اس کے تحت پھلنے پھولنے کی کوشش نہ کرنا‘ بلکہ اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کم سے کم پر قناعت کرتے ہوئے اپنے باقی اوقات اور صلاحیتوں اور وسائل و ذرائع کو اللہ کے دین کے لیے کھپا دیناآپ کے لیے فرضِ عین ہے. میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ اس کا کفارہ ہے.لیکن اس کے لیے التزامِ جماعت ناگزیر ہے ‘جماعت کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا. رسول اللہ‘ﷺ نے التزامِ جماعت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور یہ جوامع الکلم قسم کی احادیث ہیں. فرمایا: عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ(ترمذی) ’’تم پر جماعت سے وابستگی لازم ہے‘‘. یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ (مجمع الزوائد) ’’اللہ کا ہاتھ‘ یعنی اس کی تائید و نصرت جماعت پر آتی ہے‘‘.
اس ضمن میں عظیم ترین حدیث وہ ہے جو حضرت حارث الاشعری ؓ سے مروی ہے. یہ مشکوٰۃ شریف (کتاب الامارۃ )میں بھی ہے اور یہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی روایت ہے.
حضور ﷺ نے فرمایا:
اِنِّیْ آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ [اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ] بِالْجَمَاعَۃِ‘ وَالسَّمْعِ‘ وَالطَّاعَۃِ‘ وَالْھِجْرَۃِ‘ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
’’(دیکھو مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں. (ایک روایت میں اضافی الفاظ ہیں : اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے) جماعت کا‘ سننے اور ماننے کا اور ہجرت اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا.‘‘
خود حدیث میں وضاحت فرما دی گئی کہ جماعت محض لوگوں کا انبوہ نہ ہو‘ بلکہ سمع و طاعت والی جماعت ہو. وہ جماعت Listen and Obey والی ہو‘ اس کا ڈسپلن مضبوط ہو.
?Theirs not to reason why
!Theirs but to do and die
یہ چیزیں عوام کے ذہنوں سے نکل گئی تھیں‘ خواص بھی ان احادیث کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں کہ بس جی پوری امت جماعت ہے. لَا حولَ ولا قوَّۃ اِلاَّ باللّٰہ. جماعت کا تو ایک امیر یا امام ہوا کرتا ہے‘ بغیر امام کے جماعت نہیں ہوتی. اس جماعت کا امیر کون ہے؟شاہ فہد صاحب ہیں یا پرویز مشرف صاحب ہیں؟ کسی نے کہا جو ہماری حکومتیں ہیںوہی ہماری جماعتیں ہیں. تو گویا آپ کی بیعت پرویز مشرف صاحب سے ہے‘ یاکبھی بھٹو صاحب سے تھی. یہ چور دروازے ہیں‘ اِدھر سے اُدھر بھاگنا ہے‘ ذمہ داریوں سے کترانا ہے اور اس کے لیے اس طرح کے عذرات تراشنا ہیں. حضرت عمرص فرماتے ہیں کہ جماعت کے بغیر اسلام ہی نہیں. نوٹ کیجیے یہ بھی حدیث شمار ہوتی ہے. حدیث اخبار اور آثار کا مجموعہ ہے. ’’خبر ‘‘رسول اللہﷺ کے قول‘ فعل یا تقریر کا نام ہے (تقریر سے مراد ہے کہ کوئی کام حضورﷺ کے سامنے ہوا اور آپؐ نے اسے نہیں روکا) جبکہ صحابیؓ کے قول و فعل اور تقریر کو ہم ’’اثر‘‘ کہتے ہیں. خبر کی جمع اخبار اور اثر کی جمع آثار ہے. چنانچہ یہ بھی حدیث ہے. حضرت عمر ؓ ‘فرماتے ہیں:
اِنَّــہٗ لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعَۃٍ وَلَا جَمَاعَۃَ اِلاَّ بِاِمَـــارَۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلاَّ بِطَاعَۃٍ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام نہیں ہے اور امارت کے بغیر جماعت نہیں ہے اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں ہے.‘‘
اب آپ پر لازم ہے کہ فریضہ ٔاقامت دین کی جدوجہد کے لیے جو بھی موجودہ (existing) جماعتیں ہیں ان میں سے جس پر آپ کا دل مطمئن ہو‘ اسے قبول کریں اور اس میں بلاتاخیر شامل ہو جائیں. اس کے لیے میں آپ کے سامنے چار معیارات (Cardinal Characteristics) رکھ رہا ہوں.ان کی راہنمائی میں آپ تلاش کریں‘ یہ آپ کا کام ہے. ہماری دسویں جماعت کی عربی کی کتاب میں آخری نظم یہ تھی : ’’ فَتِّشْ لِقَلْبِکَ عَنْ رَفِیْقٍ!‘‘ یعنی ’’اپنے دل کے لیے کوئی رفیق تلاش کرو!‘‘ کوئی تو ہو جس سے تم دل کی بات کر سکو. میں آپ سے کہتا ہوں ؏ ’’ فَتِّشْ لِنَفْسِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ ! کہ اپنے لیے کوئی جماعت تلاش کرو!
اگر کوئی جماعت آپ کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو آپ کو ارادہ کرنا ہو گا کہ کھڑے ہوں اور خود جماعت قائم کریں. اس میں جو وقت بھی گزرے گا وہ ’’تیمم‘‘ کے درجے میں ہو گا. تیمم کے لفظی معانی ارادہ کرنے کے ہیں. قرآن حکیم میں ارشاد ہے : فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (المائدۃ:۶) یعنی ’’(اگر پانی موجود نہیں ہے) تو قصد کرو پاک مٹی کا‘‘. امام اور تیمم ‘ان الفاظ کا مادہ تو ایک ہی ہے. تیمم یہ ہو گا کہ جو انسان طے کر لے کہ کوئی جماعت اس کے معیار پر پوری نہیں اتر رہی وہ ارادہ کر لے کہ مجھے اس جدوجہد کے لیے خود جماعت قائم کرنی ہے. جو شخص ہر جماعت کو کسی دلیل کی بنا پر رد کرتا ہے کہ اس میں یہ خرابی ہے‘ اس کا مطلب ہے اس کے ذہن میں جماعت کا ایک تصور موجود ہے‘ ایک معیار ہے‘ ایک ہیولا ہے‘ ایک فریم آف ریفرنس ہے. اب اس کو چاہیے کہ اپنے اس ہیولے کو سامنے لائے اور لوگوں سے کہے کہ آؤ میرے دست و بازو بنو! میرے ساتھ جمع ہو جاؤ! ہم جماعت بنیں گے. ایک اکیلا ہوتا ہے اور دو کی حیثیت جماعت کی ہوتی ہے. ایک امام اور ایک مقتدی ہو تو جماعت بن جائے گی.
میں اپنی زندگی کا ہلکا سا نقشہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. تقریباً ۱۸ برس کی عمر میں مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی جو اب میں آپ کے سامنے ۶۸ برس کی عمر میں رکھ رہا ہوں.
پچاس سال سے میں خود بھی اس پر کاربند ہوں اور میں نے حتی الامکان اسے عام بھی کیا ہے. میں زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن رہا اور جس دن میرا ایم بی بی ایس فائنل ایئر کا رزلٹ آیا تو میں اسی دن چاہتا تھا کہ جماعت اسلامی کی رکنیت کی درخواست لکھ دوں تاکہ کوئی ایک رات بھی مجھ پر بغیر جماعت کے نہ آئے. پندرہ دن کی تاخیر صرف اس وجہ سے ہوئی کہ مولانا اصلاحی صاحبؒ اس وقت قائم مقام امیر جماعت تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ میں لاہور ہی میں مقیم رہوں جب کہ میرا خیال تھا کہ میں منٹگمری (ساہیوال) چلا جاؤں. پندرہ دن اسی معاملے میں گزر گئے‘ ساہیوال جاتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا کہ جماعت کی رکنیت کی درخواست دے دی. اس میں لکھ دیا کہ چاہتا تو میں یہ تھا کہ ایک دن بھی مجھ پر جماعتی زندگی کے بغیر نہ گزرے‘ لیکن صرف اس وجہ سے کہ معلوم نہ تھا کہاں settle ہوں گا اور کہاں درخواست دینی چاہیے (حلقہ لاہور میں یا حلقہ اوکاڑہ میں) تقریباً پندرہ دن کی تاخیر ہو گئی ہے.
پھر جب جماعت سے علیحدہ ہوا تو مسلسل چار سال تک مولانا امین احسن اصلاحی‘ مولانا عبدالغفار حسن اور مولانا عبدالرحیم اشرف جیسے بزرگوں کے پیچھے دن رات ایک کیا. میری کوشش تھی کہ یہ اکابر ایک جماعت بنا لیں. میری عمر تو اُس وقت صرف پچیس برس تھی. تاہم جب ان سے مایوس ہوا تو طے کر لیا تھا کہ میں اب خود کھڑا ہوں گا. اُس وقت سے میں ’’تیمم‘‘ پر تھا. یہاں تک کہ جب میں نے ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن قائم کی تو اُس وقت بھی واضح کر دیا تھا کہ میرے پیشِ نظر صرف انجمن نہیں ہے‘ جماعت کا قیام ہے. اس کے بعد ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی قائم کر لی. چنانچہ ’’وضو‘‘ والا درجہ تو یہ ہے کہ ایک شخص جماعت میں شامل ہے اور ایک درجہ یہ ہے کہ جماعت کا متلاشی ہے‘ یا یہ کہ طے کر چکا ہے کہ اس وقت مطلوبہ جماعت موجود نہیں ہے اور مجھے خود جماعت بنانی ہے. یہ گویا قائم مقام ہو گا‘ جیسے تیمم وضو کے قائم مقام ہے. لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں تو پھر وہی بات ہے کہ آپ بغیر جماعت کے ہیں‘ بغیر جماعت کے ہیں تو آپ اس اقامت دین کی جدوجہد میں شریک نہیں ہیں. اور اگر آپ اس جدوجہد میں شریک نہیں ہیں تو کفارہ ادا نہیں کر رہے. اس کا مطلب ہے کہ آپ کی بندگی جزوی ہے اور آپ کے لیے سورۃ البقرۃ کی یہ آیت تلوار بن کر سر پر لٹکی ہے:
فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾
جہاں تک ’’خِزْیٌ فِی الْحَیٰــوۃِ الدُّنْیَا‘‘ یعنی دنیا کی رسوائی کا معاملہ ہے اسے تو ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں. اس آیت کے آخر میں فرمایا: ’’اللہ اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کر رہے ہو‘‘.
تمہاری داڑھیوں سے‘ حج و عمرہ سے اور تمہارے اعتکافوں سے اللہ دھوکہ نہیں کھائے گا. وہ جانتا ہے تمہاری کمائی حلال کی ہے یا حرام کی ‘ تمہارے گھر میں پردہ بھی نافذ ہے یا نہیں. تم تو شریعت کے اتنے حصے پر بھی عمل پیرا نہیں ہو جتنے پر عمل کر سکتے ہو‘ کجا یہ کہ جس پر عمل کر ہی نہیں سکتے اس کا کفارہ ادا کرو.