ہدایت کے دو حصے ہیں: ایک ہے انسان کے لیے نظری‘ فکری اور علمی ہدایت اور ایک ہے عملی‘ اخلاقی اور زندگی کے معمولات کے ضمن میں ہدایت. نظری‘ فکری اور علمی ہدایت کے اہم ترین حصے کو ہندی میں ’’ست است وویگ‘‘ کہتے ہیں. یعنی انسان میں یہ تمیز پیدا ہو جائے کہ کیا چیز حق ہے اور کیا باطل ہے. ہندو جب اپنے مردوں کی ’’اَرتھی‘‘ لے کر جاتے تھے تو کہتے تھے : ’’رام نام ست ہے‘‘. تو ’’ست‘‘ کے معنی ’’حق‘‘ کے ہیں. قرآن مجید میں آتا ہے: ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ .اسی طرح ہندی میں اس حق کے لیے لفظ ’‘ست‘‘ ہے. ہندی میں بعض الفاظ کے شروع میں اگر سابقے کے طور پر ’’الف‘‘ کا اضافہ کر دیں تو معنی اُلٹے ہو جاتے ہیں‘ مثلاً ’’ٹل‘‘ سے ’’اٹل‘‘. اسی طرح ’’مر‘‘ سے ’’امر‘‘ اور ’’ست‘‘ سے ’’است‘‘. ’’است‘‘ وہ شے ہے جو نظر تو آرہی ہے لیکن حقیقی نہیں ہے‘ جبکہ ’’ست‘‘ وہ شے ہے جو حقیقت پر مبنی ہے. سب سے بڑی بات یہی ہے. انگلستان کے بہت بڑے فلسفی ’’بریڈ لے‘‘ نے اپنی معرکۃ الآ راء کتاب "Appearance and Reality" میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ’’جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے‘ بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے‘‘. جو کوئی محض آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں میں الجھ گیا وہ درحقیقت باطل (falsehood) کا شکار ہے‘ جب تک کہ اس ظاہر کے پردے کو چیر کر باطن کو نہ دیکھا جائے. اقبال نے کہا ہے ؎
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
عربی کا ایک شعر ہے ؎
کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَھْمٌ اَوْ خَیَالٌ
اَوْ عُکُوْسٌ فِی الْـمَرَایَا اَوْ ظِلاَلٌ
’’کائنات میں یہ جو کچھ ہے وہم ہے یا خیال ہے‘ یا جیسے شیشوں کے اندر عکس ہوتا ہے یا جیسے سایہ ہوتا ہے.‘‘
اس کی کوئی حقیقت نہیں. یہ مادی دُنیا اور مادی عالم بڑا ٹھوس نظر آتا ہے‘ یہ محسوس بھی ہوتا ہے‘ اس میں ہمیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فوراً محسوس ہو جاتی ہے اور اس کی مسرت بھی فوراً محسوس ہوتی ہے. ہم اس کی تکلیف سے بھی متاثر ہوتے ہیں اور اس کی راحت سے بھی‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان سمجھ لے کہ یہ نمودِ بے بود ہے‘ یعنی اس کی نمود تو ہے‘ حقیقت کوئی نہیں. حقیقت صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے. قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ ’’الحق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.‘‘
انسان کے اندر یہ تمیز پیدا ہو جانا اس کی بھی درحقیقت مختلف corollaries ہیں.دراصل ہمارا ایک جسم ہے جو نظر آتا ہے‘ وزن رکھتا ہے اور اس کے تقاضے ہیں جو محسوس ہوتے ہیں. بھوک لگتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے. پھنسی نکلتی ہے تو درد ہوتا ہے. اس کی مسرت بھی اور اس کی تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے. لیکن ہمارا حقیقی وجود یہ نہیں ہے‘ حقیقی وجود وہ روحانی وجود ہے جو نظر نہیں آتا. وہ reality ہے‘ یہ appearance ہے. یعنی یہ ظاہر ہے اور وہ اصل حقیقت ہے. اسی طرح یہ دنیا کی زندگی ہے‘ عظیم کائنات ہے‘ کہکشائیں (galaxies) ہیں‘ ایسے ایسے ستارے ہیں جو سائز میں ہمارے سورج سے لاکھوں گنا بڑے ہیں. پوری کائنات کی وسعت کو دیکھیں تو یہ ہمارا سورج بھی ایک ذرّہ معلوم ہوتا ہے‘ اور ذرّے کا دل چیریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اند رپورا سورج موجود ہے ؏ ’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں!‘‘ ان ذرات کا دل چیر کر ایٹمی توانائی نکالی گئی ہے ؏ ’’مہر درخشاں ذرۂ فانی‘ ذرۂ فانی مہر درخشاں!‘‘لیکن یہ سب appearance ہے ‘ حقیقت نہیں ہے.
اگر یہ بات دل میں ٹھک جائے تو گویا انسان کی نظری‘ فکری اور علمی رہنمائی ہو گئی‘ اور اگر نگاہیں یہیں الجھی ہوئی ہیں اور دلچسپیاں انہی ظاہری چیزوں میں ہیں اور بھاگ دوڑ انہی کے لیے ہے‘ انہی کو زندگی سمجھا ہے‘ اپنے آپ کو اسی ظاہری جسم سے تعبیر کیا ہے تو آدمی چاہے فلسفی ہو‘ پی ایچ ڈی ہو‘ مفسر‘محدث‘ فقیہہ اور مفتی ہو‘ وہ درحقیقت اندھیروں (ظلمات) ہی میں ہے. اسی لیے قرآن کہتا ہے: یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ یعنی اللہ اہل ایمان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے. یہ جو ظواہر (appearances) ہیں ان کی بجائے حقائق پر توجہ اور نگاہیں مرکوز ہوں تو یہ نظری ہدایت ہے جس کے لیے رسول اللہﷺ کی بڑی پیاری دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ ’’اے اللہ! مجھے تو چیزوں کی حقیقت دکھا جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں‘‘. ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے. کتا بھی کارکو اگر اپنی طرف آتا دیکھ لیتا ہے تو راستہ بدل لیتا ہے. اگر ہم نے بھی یہ کر لیا تو کون سا بڑا تیر مار لیا .تو پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ نظری ہدایت یہی ہے کہ اس سے ظاہر و باطن کا فرق معلوم ہوجائے‘ حق اور باطل (reality and falsehood) پوری طرح واضح ہو جائیں. یہی بات سورۃ الکہف میں بھی بیان ہوئی ہے. جب حقیقت پر باطل کا ملمع ہو جائے تو یہی دجالیت ہے. دجل کسے کہتے ہیں؟ حقیقت پر کسی اور شے کا پردہ ڈال دینا. اسی اعتبار سے یہ دجالیت ہے کہ ان تین حقیقتوں یعنی ذاتِ باری تعالیٰ‘ روحِ انسانی اور حیاتِ اُخروی پر ان تین ظواہر یعنی کائنات‘ جسم حیوانی اور حیاتِ دنیوی کا پردہ پڑ جائے‘ اور یہی دجل اور فریب ہے. اور جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے یہ دجل بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ اس ظاہر کی دلکشی بڑھتی چلی جا رہی ہے. یہ appearance اور زیادہ دل کو موہ لینے والی چیز بنتی چلی جا رہی ہے. اس کی رونقیں بڑھتی جا رہی ہیں اوراس کی چمک دمک میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!
یہ جھوٹ اور "falsehood" ہے‘ حقیقت نہیں ہے.
بہرحال پہلی بات نظری‘ فکری اور علمی ہدایت ہے. میں نے اس وقت دینی اصطلاحات یعنی ایمان باللہ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرۃ کے حوالے سے بات نہیں کی‘ بلکہ ایک نئے زاویے سے وضاحت کی کوشش کی ہے. اگر انسان میں ست اَست وویگ reality and falshood ‘ کے مابین فرق و امتیاز‘ appearance and reality‘ حق اور باطل میں امتیازکا وصف قائم ہو گیا تو اسے نظری‘ فکری اور علمی ہدایت حاصل ہو گئی.
دوسری ہدایت عملی ہے. اس معاملے میں بھی قرآن کا فلسفہ سمجھ لیجئے کہ عملی ہدایت کا ایک درجہ انفرادی سطح پر ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں؟ اللہ تعالیٰ نے یہ انفرادی ہدایت ہر انسان کے دل میں ودیعت کر کے اسے دُنیا میں بھیجا ہے. اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ خیر ہے اور یہ شر ہے‘ یہ نیکی ہے اور یہ بدی ہے‘ یہ بھلائی ہے اور یہ برائی ہے: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ نفس ِانسانی کو معلوم ہے کہ سچ بولنا اچھا ہے اور جھوٹ بولنا برا ہے‘ وعدہ کر کے پورا کرنا اچھا ہے اور وعدہ خلافی کرنا بری بات ہے. بڑوں کی خدمت اور عزت کرنا اچھی بات ہے اور ان کے ساتھ بے عزتی کا معاملہ کرنا بری بات ہے‘ والدین کے ادب اور خدمت پر مبنی رویہ اچھا ہے اور اگر ان کا لحاظ نہ ہو تو یہ بری بات ہے. اسے کون نہیں جانتا؟ یہ دوسری بات ہے کہ انسان کا مزاج ہی بگڑ گیا ہو تو اس وجہ سے وہ اپنے اندر کی اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا. لیکن جس وقت وہ غلط کام کر رہا ہوتا ہے اسے اندر سے ضمیر متنبہ کرتا ہے کہ تم غلط کررہے ہو. اسی کا نام ’’نفس لوامہ‘‘ ہے کہ جس کی قسم کھائی گئی: لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ ’’نہیں! میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی. اور نہیں! میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گرکی.‘‘
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اس انفرادی معاملے پر اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا‘ بلکہ انہیں معروف ومنکر کہا گیا ہے کہ جو چیزیں معروف اور جانی پہچانی ہیں یہی اچھائیاں اور بھلائیاں ہیں‘ پس ان کی پیروی کرو. منکر وہ ہیں جن سے انسان کا نفس خود ہی نفرت کرتا ہے. یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنے کسی مفاد کی وجہ سے یا کسی وقتی جذبے کے تحت کسی منکر کا ارتکاب کر لیتا ہے‘ لیکن اس کی فطرت اس وقت بھی اسے ٹوک رہی ہوتی ہے کہ غلط کام کر رہے ہو. انسان کو اصل احتیاج اجتماعی زندگی میں ہدایت کی ہے. یہاں آکر جو پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کا حل عقل ِانسانی کے لیے محال مطلق اور ناممکن ہے. دُنیا میں آج تک تین اجتماعی مسائل کی نشاندہی ہوئی ہے:
۱) عورت اور مرد کے درمیان حقوق و فرائض کے ضمن میں کیا توازن ہو؟ بیوی کے کیا حقوق ہوں اور شوہر کے کیا حقوق ہوں؟ یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے. انسان اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار رہا ہے.
۲) دوسرامسئلہ اجتماعی نظامِ ریاست و حکومت کا ہے کہ ایک فرد اور عام شہری کو کتنی آزادی ہونی چاہیے اور اس پر کتنا جبر ہونا چاہیے؟ اور اجتماعیت کو کتنا اختیار ہونا چاہیے اور checks and balances کا کیا نظام ہونا چاہیے؟ پولیٹکل سائنس ساری کی ساری اسی مسئلے کے گرد گھومتی ہے. اسی طرح سرمایہ اور محنت‘ کارخانے دار اور مزدور کے حقوق و فرائض میں کیا توازن ہونا چاہیے؟ اس میں ذرا سے عدمِ توازن سے ظلم واستحصال کا بازار گرم ہوجاتا ہے. سرمایہ دار غریب کا خون چوستا ہے ؎
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دہ خدایاں کشت ِدہقاناں خراب!
’’سرمایہ دار نے مزدور کے خون سے شراب کشید کی ہے جسے وہ شام کو کلب میں بیٹہ کر پیتا ہے .اور زمیندار اور لینڈلارڈ کے ظلم و ستم سے کاشتکار کی کھیتی خراب ہے کہ اس کا بچہ فاقے سے ہے‘ حالانکہ محنت و مشقت اسی کاشتکار نے کی ہے.‘‘
یہاں آکر انسان بالکل گھٹنے ٹیک کر اللہ سے ہدایت کا طالب بنتا ہے. سورۃ الفاتحہ کے قرآن مجید کے بالکل شروع میں ہونے کی حکمت بھی یہی ہے کہ انسان پہلے خود کہہ رہا ہے:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾
’’تمام شکر اُس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے. بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. جزا و سزا کے دن کا مالک ہے. ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.‘‘
ان حقائق تک تو وہ خود پہنچ گیا ہے‘ لیکن اس کے بعد آگے کہتا ہے :
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ ’’اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے.‘‘
اس اجتماعی معاملے کو کہیں قرآن ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہتا ہے ‘کہیں ’’صراط السویٰ‘‘ اور کہیں ’’سواء السبیل‘‘ . مختلف الفاظ آئے ہیں. ان تمام پیچیدگیوں میں سے درمیانی‘ معتدل اور عدل پر مبنی راہ‘ جس میں افراط و تفریط نہ ہو‘ یہ اصل ہدایت ہے جس کے لیے قرآن نازل ہوا.
اس بحث کے حاصل کلام کے طور پر جان لیجئے کہ ہدایت نظری کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے حق اور باطل appearance and reality ‘ ست‘ اَ سَت کے درمیان امتیاز واضح ہو جائے. اللہ حق ہے‘ آخرت حق ہے. آپ نے وہ دعا پڑھی ہو گی: اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ وَالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌﷺ حَقٌّ یہ تمام امور حق ہیں. باقی جو نظر آ رہا ہے یہ سب باطل ہے. سورۃ الحشر میں متنبہ کیا گیا :
وَلاَ تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَـاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْط (الحشر:۱۹) ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی جانوں سے غافل کر دیا.‘‘
ہم اپنے مادی جسم کو محسوس کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں ‘حالانکہ حقیقت میں تو کوئی اور شے ہے کہ جو ہمارے وجود کی بنیاد بنتی ہے. اسی طرح فرمایا: یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج (الروم:۷) ’’یہ دنیا کی زندگی کے ظاہر (appearance) کو ہی جانتے ہیں‘‘. حقیقت کو نہیں جانتے. دنیا کی زندگی کی حقیقت معنوی کو جانتے تو اللہ کو پہچان لیتے ‘اور آخرت کو فوراً پہچان لیتے‘ لیکن یہ صرف دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں. یہ نظری ہدایت ہے.
جہاں تک عملی ہدایت کا تعلق ہے تو ہر انسان کے لیے اس کی جبلی ہدایت اس کے اندر موجود ہے‘ جیسے پیٹ کھانے کومانگتا ہے‘ جسم کے دوسرے تقاضے ہیں‘ ان کو پورا کیا جائے. اس میں اسے ہدایت صرف اس بات کی دینا ضروری ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ سڑک کے ذریعے جب آپ مری جاتے ہیں تو ہر موڑ پر نشان لگے ہوتے ہیں کہ یہاں سے آرام سے گزرنا‘ ورنہ کھائی میں گر جاؤ گے. سپیڈ کی حدود معین کر دی گئی ہیں. اس طرح سے زندگی کے مختلف معاملات میں حدود اللہ معین کر دی گئی ہیں کہ ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا‘ باقی یہ کہ خیر وشر کے بارے میں تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے‘ کیونکہ تمہیں خود ہی معلوم ہے. البتہ اجتماعی زندگی کے اندر تم محتاجِ محض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت تمہیں ملے.
اب اگلے لفظ پر آیئے: بَـیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فرقان کا مطلب ہے حق و باطل میں فرق‘ ست است میں فرق ‘ appearance and reality میں فرق. ’’بینات‘‘ وہ ہیں جو از خود روشن ہوں .سورۃ العنکبوت میں فرمایا: بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ’’بلکہ یہ (قرآن) تو وہ آیاتِ بینات ہیں جو اہل ِعلم کے سینوں میں (پہلے سے) موجود ہیں‘‘.اسی لیے قرآن اپنے آپ کو تذکرہ و تبصرہ کہتا ہے. ’’تبصرہ‘‘ کہتے ہیں کسی کو آنکھ کھول کر دکھا دینا اور ’’تذکرہ‘‘ کے معنی ہیں یاد دلا دینا کہ تمہارے اندر یہ سب کچھ موجود ہے. تمہارے اندر حق ہے‘ تمہارے اندر ذاتِ باری تعالیٰ کی تجلی ہے ؎
ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے!
چنانچہ قرآن مجید جو ’’بینات‘‘ کا لفظ لاتا ہے تو وہ اس اعتبار سے کہ یہ انسانی روح کے لیے جانی پہچانی شے ہے‘ اس میں کوئی نئی شے نہیں ہے. اسی لیے بڑے پیارے انداز میں مولانا روم نے کہا ؎
خشک تار و خشک مغز و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست!
قرآن مجید کو سنتے ہوئے وہ شخص جس کا دل قوی اور زندہ ہو اور روح بیدار ہو تو وہ یوں محسوس کرتا ہے جیسے یہ میرے دوست کی آواز آ رہی ہے‘ اور گویا یہ تو میرے اپنے دل کی آواز ہے. حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:’’قرآن کے پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ قرآن کو پڑھ رہے ہوتے ہیں تو یہ نہیں سمجھتے کہ ہم مصحف میں سے پڑھ رہے ہیں‘ بلکہ ایسے محسوس کرتے ہیں کہ جیسے قرآن ہمارے لوحِ قلب پر لکھا ہوا ہے اور ہم وہاں سے پڑھ رہے ہیں.‘‘ فطرت ِ انسانی اور قرآن حکیم میں اس قدر ہم آہنگی اسی لیے ہے. یہ قرآن بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ہے اور یہ ایسی روشن آیات ہیں جو علم والوں کے سینوں میں محفوظ‘ہیں.