چنانچہ اب ہمارے لیے کرنے کا کام کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ میں اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا.اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سو پچاس یا ہزار دو ہزار آدمی مل کر بھی نہیں کر سکتے. لیکن جدوجہد اور کوشش تو کر سکتے ہیں. اپنی توانائیاں‘ صلاحیتیں‘ قوتیں‘ اپنے اوقات‘ اپنے وسائل اور اپنی اولاد کو تو اس کام کے لیے لگا سکتے ہیں. اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے تو پھر یقینا اس وعید کا شکار ہو جاتے ہیں کہ:
اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ:۸۵) ’’کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کو نہیں مانتے؟ (یعنی کچھ احکام پر عمل کرتے ہو اور کچھ پر نہیں کرتے؟) تو جان لو کہ تم میں سے جو کوئی یہ حرکت کرے اس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے. اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے.‘‘
اس سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے. وہ یہ کہ غلبہ چونکہ باطل اور طاغوت کا ہے اور اللہ کا دین مغلوب ہے‘ میں اور آپ اس کے تحت رہنے پر مجبور ہیں‘ ہم سودی نظام کے اندر سانس لے رہے ہیں‘ میرے اور آپ کے سانس کے ساتھ سود اندر جا رہا ہے‘ تو پھر اس سب کے کفارے کے لیے ہمیں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ جواب اس کا صرف یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے ہمیں اپنی توانائیوں‘ قوتوں‘ صلاحیتوں‘ اوقات اور وسائل و ذرائع کا کم سے کم حصہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر اور زیادہ سے زیادہ حصہ ایسی جدوجہد میں لگا دینا چاہیے جس کے ذریعے دین کے نظام کو قائم کیا جا سکے. اگر یہ کر لیا تو کفارہ ادا ہو جائے گا‘ جو گناہ اندر جا رہا ہے وہ دھل جائے گا. اسے آپ اقامت دین یا نظام خلافت کہہ لیں‘ قرآن کا قائم کرنا کہہ لیں‘ دین کا قیام یا نظامِ مصطفیﷺ کا قیام کہہ لیں. یہ نام مختلف ہو سکتے ہیں‘ لیکن کام کی نوعیت ایک ہی ہے. ’’عِبَاراتُنَا شَتّٰی وَحُسْنُکَ وَاحِدٌ‘‘.
پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر آپ باطل نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں تو اس صورت میں آپ پر اقامت دین کی جدوجہد فرضِ عین ہے. میں یہ بات سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں. میری پوری زندگی قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہے. یہ بات میں اپنے مطالعہ قرآنی کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ جو آدمی اس جدوجہد میں شریک نہیں ہے‘ اس کی نماز‘ نماز نہیں ہے‘ روزہ‘ روزہ نہیں ہے. اس لیے کہ جب تک طاغوت کا کفر نہیں کرتا اس وقت تک اس کا اللہ پر ایمان معتبر ہی نہیں ہوتا.
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ سْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی (البقرۃ: ۲۵۶)
’’پھر جو کوئی طاغوت کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک مضبوط کنڈے کو تھام لیا.‘‘
طاغوت کا کفر پہلے ہے اور اللہ پر ایمان بعد میں ہے. اگر انسان طاغوت کے خلاف جدوجہد نہیں کر رہا اور ا س کے تحت پھلنے ‘پھیلنے اور پھولنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جائیداد بنا رہا ہے‘ کاروبار بڑھا رہا ہے‘ تو اس کا مطلب ہے طاغوت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ہے‘ وہ اسے ذہناً قبول کر چکا ہے او ردل سے اسے مان چکا ہے. لہذا اس کی نماز منہ پر دے ماری جائے گی.