اس بیعت کے بارے میں اب میں آخری بات کہہ رہا ہوں. مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا.‘‘
گویا یہ بیعت ایسے ہی ہے جیسے آپ نے اپنی بکری کے گلے میں رسی ڈالی ہوئی ہے اور رسی کاایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہے. چنانچہ اب وہ بکری آپ کے پاس سے کہاں جا سکتی ہے؟ اس طرح سے گویا رسّی کاایک سرا بیعت کرنے والے کی گردن میں ہے اور دوسرا بیعت لینے والے کے ہاتھ میں ہے. صاف صاف بات کر رہا ہوں کہ گردن میں بیعت کے قلادے کے بغیر موت اسلام کی موت نہیں‘ بلکہ جاہلیت کی موت ہے.
میری ان گزارشات کا تجزیہ کریں تو ظاہر ہو جائے گا کہ اقامت دین کے حوالے سے عملاً دو ہی صورتیں ممکن ہیں: یا تو اسلام کا نظام قائم ہے‘ نظام خلافت ہے‘ تو جوخلیفہ ہے اس کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. اگر نہیں کریں گے تو جہنم میں جائیں گے .اور اگر اسلام کا نظام قائم نہیں ہے تو ظاہر ہے وہ نظام خودبخود تو نہیں آئے گا‘ اس کے لیے محنت کرنا پڑے گی‘ جماعت بنانا ہو گی‘ کوشش کرنا ہو گی‘ چنانچہ جماعت کے امیر سے بیعت کرنا ہو گی. ان دو کے علاوہ تیسری شکل ممکن نہیں. اگر نظام خلافت ہے تو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت‘ جیسے حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھ پربیعت کی گئی تھی. اور اگر نظام خلافت نہیں ہے تو جو جماعت اس کو قائم کرنے کے لیے کھڑی ہو اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ اسلام کی موت مرنا چاہتا ہے تو اسے بیعت کرنا ہوگی:
اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام:۱۶۲)
’’بیشک میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی میری موت اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے.‘‘
میں نے جو دین کا تقاضا سمجھا وہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے. اب آپ میں سے ہر شخص کے دل و دماغ کا فیصلہ ہے. دل ودماغ گواہی دیں کہ بات ٹھیک ہے تو اس کو قبول کرنا آپ پر لازم ہے. اور اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو بے شک رد کر دیں ‘یا اگر بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ یہ کام تو صحیح ہے لیکن یہ تنظیم صحیح نہیں ہے تو کسی اور تنظیم کو دیکھیں. کسی نبی کی تنظیم تو آج موجود نہیں ہے. لہذا آپ کو اس کام کے لیے جو بھی بہتر نظر آئے اور آپ کے خیال میں جو بھی جماعت بہتر طریقے پر جدوجہد کر رہی ہے ا س میں شریک ہو جایئے‘ لیکن کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے فارغ نہ سمجھے. اس لیے کہ غلبہ ٔباطل کے تحت زندگی گزارنے والے شخص کے لیے اقامت دین اور غلبہ ٔدین کی جدوجہد فرضِ عین ہے .اور یہ وہ فرض ہے کہ اگر اس کی طرف انسان توجہ نہیں دے رہا اور اس کے ضمن میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا تو میرے نزدیک ایسا شخص باقی فرائض کی ادائیگی کے باوجود اللہ کے ہاں اپنی اس کوتاہی پر جواب دہ ہو گا.
اقول قولی ھذا واستغفراللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات