جماعت سازی کی مسنون اساس

جماعت سازی کے کئی طریقے ہیں. ایک طریقہ ہمارے ہاں انگریزوں کے ساتھ آیا. مثلاً جب نئی تہذیب آئی تو میز کرسی پر بیٹہ کر کھانا کھانا بھی اس کے ساتھ آیا. ظاہر ہے کہ یہ ہماری تہذیب تو نہیں ہے. حضوراکرم  کا طریقہ تو حدیث میں یوں مذکور ہوا ہے: مَا اَکَلَ النَّبِیُّ عَلٰی خِوَانٍِ قَطُّ (صحیح البخاری) کہ نبی کریم نے کبھی خوان پر رکھ کر کھانا نہیں کھایا. حضوراکرم کے زمانے میں میز کرسی تو تھی نہیں‘ البتہ اونچے گھرانوں میں ایک رواج تھا کہ ان کے پاس چھ سات انچ اونچی چوکیاں ہوتی تھیں. زمین پر بیٹہ کر کھا رہے ہوتے لیکن آگے چھ انچ اونچی چوکی رکھی ہوتی‘ جسے ’’خوان‘‘ کہتے تھے. اب بھی بعض گھرانوں میں یہ رواج موجود ہے. حضوراکرم نے کبھی ’’خوان‘‘ پر بھی کھانا نہیں کھایا‘لیکن اس کرسی میز کو کسی نے حرام نہیں کہا. یہ نئی شے تو ہے لیکن حرام نہیں ہے. کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں اس کی ممانعت آ گئی ہو. 

اسی طرح ہندوستان میں انگریزوں کے آنے کے بعد جماعتیں بنانے کا طریقہ یہ بنا کہ پہلے اس کے مقاصد (aims) اور اہداف (objects) لکھ لیے جائیں. اس کے articles of association اور قواعد وضوابط کا تعین کر لیا جائے. گویا پورا دستور (constitution) بنا لیا جائے. اب جو شخص بھی اس دستو رکو مان لے گا وہ اس جماعت کا رکن بن جائے گا. پھر یہ ارکان اس جماعت کے امیر یا صدر کا انتخاب دو یا چار سال کے لیے کریں گے. جماعت بنانے کے اس طریقے کو بھی میں مباح و جائز سمجھتا ہوں. اگرچہ یہ مسنون نہیں ہے‘ لیکن حرام بھی نہیں ہے. جیسے میز کرسی پر کھانا کھانا مسنون نہیں ہے لیکن حرام بھی نہیں ہے‘اسی طرح یہ طریقہ نہ مسنون ہے‘ نہ منصوص ہے اور نہ ماثور ہے‘ لیکن حرام بھی نہیں ہے. دستوری تنظیم (constitutional organization) بھی ٹھیک ہے‘ اگر منظم اور سمع و طاعت والی ہو. لیکن جس جماعت کا قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ سنت‘ خلافت راشدہ اور ہماری پوری تاریخ میں ذکر ہے وہ بیعت کا نظام ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا ہو جس پر آپ کو اعتماد ہو کہ یہ آدمی مخلص ہے‘ دین کو جانتا ہے اور حقیقتاً یہ دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو آپ اس سے شخصی طور پر بیعت کر لیں کہ میں آپ کا ساتھی ہوں‘ جو حکم آپ مجھے دیں گے میں کروں گا. میں خود بھی مشورہ دوں گا‘ اپنی رائے دوں گا‘ لیکن یہ کہ فیصلہ گنتی سے نہیں ہو گا کہ یہ اکثریت ہے اور یہ اقلیت ہے‘ نو آدمیوں کی رائے لازماً غلط ہے او ردس کی لازماً صحیح ہے. حالانکہ یہ ضروری نہیں. ہو سکتا ہے کہ آٹھ آدمیوں کی رائے صحیح ہو اور بیس کی غلط ہو. نظام بیعت میں فیصلہ امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے. قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ… فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ (التوبۃ: ۱۱۱)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں…… پس اس بیع پر کہ جو تم نے اللہ سے کی ہے خوشیاں مناؤ.‘‘

یہ بیعت اللہ سے بھی ہے او ر اللہ کے نبی سے بھی. سورۃ الفتح میں دو جگہ ذکر آ گیا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ
(آیت ۱۰)
’’بے شک جن لوگوں نے آپؐ سے بیعت کی تو یقینا انہوں نے اللہ سے بیعت کی. اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے.‘‘

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ
(آیت ۱۸)
’’بے شک اللہ مؤمنوں سے اس وقت راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپؐ سے بیعت کر رہے تھے.‘‘

سورۃ الممتحنہ میں خواتین کی بیعت کا ذکر آیا ہے. یہ نظام ہے کہ جو قرآن نے دیا‘ حدیث نے دیا اور سیرت میں بھی یہی نظام ہے. بیعت عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ ہوئیں‘ بیعت رضوان بیعت علی الموت ہو رہی ہے. اسی بیعت پر خلافت راشدہ کا نظام چلا. حضرات ابوبکر‘عمر‘ عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیعت ہوئی ‘اور جس وقت خلافت ملوکیت میں بدلنے لگی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان میں آئے تو انہوں نے بھی بیعت لی کہ آؤ میرے ساتھ‘ ہم اس ملوکیت کے راستے کو بند کریں. یہ دوسری بات ہے کہ بیعت کرنے والے گھبرا گئے اور ابن زیاد کے تشدد سے خوف زدہ ہو کر انہوں نے بیعت توڑ دی. اس کا کوئی الزام حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر تو نہیں. ہمارا یہ نظام تھا جس کو ہم نے انگریزوں کے آنے کے بعد پس پشت ڈال دیا. حالانکہ ۱۹۱۳ء میں مولانا ابوالکلام آزاد نے جماعت ’’حزب اللہ‘‘ بنائی تو وہ بیعت کی بنیاد پر تھی. کچھ عرصہ کے بعد بیس کی دہائی میں شیخ حسن البناء ؒ نے مصر میں جو جماعت ’’الاخوان المسلمون‘‘ بنائی وہ بھی بیعت کی بنیا دپر تھی. لیکن مولانا مودودیؒ نے جب جماعت اسلامی بنائی وہ بیعت کی بنیاد پر نہیں تھی. البتہ ۱۹۳۰ء میں جب قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے علماء جمع ہوئے اور انہوں نے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت بنایا تو ان سے بیعت کی. رسول اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو بیعت لی اس کے الفاظ سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی گھمبیر بیعت ہے. یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے. حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ‘ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ ‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ‘ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ‘ وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ‘ وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَ مَا کُنَّا ‘ لاَ نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ
’’ہم نے اللہ کے رسول سے بیعت کی تھی کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے (اطاعت کریں گے) چاہے کتنا ہی مشکل ہو اور خواہ آسان ہو‘ چاہے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں اور چاہے ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے آپ ہم پر دوسروں کو ترجیح دے دیں (ہم یہ نہیں کہیں گے کہ میں آپ کا پرانا ساتھی تھا‘ آپ نے نو وارد کو مجھ پر امیر بنا دیا) جنہیں آپؐ امیر بنائیں گے ہم ان سے جھگڑیں گے نہیں ‘اور جہاں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے (اپنی رائے پیش کر دیں گے). اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے.‘‘

اسی بیعت کے نظام پر ہم نے تنظیم اسلامی قائم کی ہے. ہماری بیعت میں صرف ایک لفظ کا اضافہ ہے. وہ اس طرح کہ حضور کا ہر حکم واجب الاطاعت تھا. حضور کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھی ہر حکم واجب الاطاعت نہیں ہے. ان سے بھی کتاب وسنت کی دلیل پوچھی جائے گی. کتاب و سنت کے خلاف وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے. چنانچہ ہم نے بیعت کے الفاظ یہ رکھے ہیں: ’’اِنِّیْ اُبَایِعُکَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ یعنی اس میں صرف د ولفظ (فِی الْمَعْرُوْفِ) بڑھا دیے ہیں‘ باقی وہی بات ہے.

اس بیعت کے بارے میں اب میں آخری بات کہہ رہا ہوں. مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا.‘‘

گویا یہ بیعت ایسے ہی ہے جیسے آپ نے اپنی بکری کے گلے میں رسی ڈالی ہوئی ہے اور رسی کاایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہے. چنانچہ اب وہ بکری آپ کے پاس سے کہاں جا سکتی ہے؟ اس طرح سے گویا رسّی کاایک سرا بیعت کرنے والے کی گردن میں ہے اور دوسرا بیعت لینے والے کے ہاتھ میں ہے. صاف صاف بات کر رہا ہوں کہ گردن میں بیعت کے قلادے کے بغیر موت اسلام کی موت نہیں‘ بلکہ جاہلیت کی موت ہے.

میری ان گزارشات کا تجزیہ کریں تو ظاہر ہو جائے گا کہ اقامت دین کے حوالے سے عملاً دو ہی صورتیں ممکن ہیں: یا تو اسلام کا نظام قائم ہے‘ نظام خلافت ہے‘ تو جوخلیفہ ہے اس کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. اگر نہیں کریں گے تو جہنم میں جائیں گے .اور اگر اسلام کا نظام قائم نہیں ہے تو ظاہر ہے وہ نظام خودبخود تو نہیں آئے گا‘ اس کے لیے محنت کرنا پڑے گی‘ جماعت بنانا ہو گی‘ کوشش کرنا ہو گی‘ چنانچہ جماعت کے امیر سے بیعت کرنا ہو گی. ان دو کے علاوہ تیسری شکل ممکن نہیں. اگر نظام خلافت ہے تو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت‘ جیسے حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھ پربیعت کی گئی تھی. اور اگر نظام خلافت نہیں ہے تو جو جماعت اس کو قائم کرنے کے لیے کھڑی ہو اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ اسلام کی موت مرنا چاہتا ہے تو اسے بیعت کرنا ہوگی:

اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام:۱۶۲)
’’بیشک میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی میری موت اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے.‘‘
 
میں نے جو دین کا تقاضا سمجھا وہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے. اب آپ میں سے ہر شخص کے دل و دماغ کا فیصلہ ہے. دل ودماغ گواہی دیں کہ بات ٹھیک ہے تو اس کو قبول کرنا آپ پر لازم ہے. اور اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو بے شک رد کر دیں ‘یا اگر بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ یہ کام تو صحیح ہے لیکن یہ تنظیم صحیح نہیں ہے تو کسی اور تنظیم کو دیکھیں. کسی نبی کی تنظیم تو آج موجود نہیں ہے. لہذا آپ کو اس کام کے لیے جو بھی بہتر نظر آئے اور آپ کے خیال میں جو بھی جماعت بہتر طریقے پر جدوجہد کر رہی ہے ا س میں شریک ہو جایئے‘ لیکن کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے فارغ نہ سمجھے. اس لیے کہ غلبہ ٔباطل کے تحت زندگی گزارنے والے شخص کے لیے اقامت دین اور غلبہ ٔدین کی جدوجہد فرضِ عین ہے .اور یہ وہ فرض ہے کہ اگر اس کی طرف انسان توجہ نہیں دے رہا اور اس کے ضمن میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا تو میرے نزدیک ایسا شخص باقی فرائض کی ادائیگی کے باوجود اللہ کے ہاں اپنی اس کوتاہی پر جواب دہ ہو گا.

اقول قولی ھذا واستغفراللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات