بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
زیر نظر کتاب مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے صدرمؤسس اور تنظیم اسلامی کے امیر‘ محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ان سیاسی تجزیوں پر مشتمل ہے جو جنوری ۱۹۶۹ء سے فروری۱۹۷۳ء کے دوران ماہنامہ ’’میثاق‘‘کے اداریوں کے طور پر شائع ہوئے.
ایک دینی انقلابی تحریک کے داعی کا سیاسی امور کے بارے میں رائے زنی کرنا اگرچہ بظاہر کچھ عجیب اور کسی قدر ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے لیکن ہمیں قوی امید ہے کہ اس بارے میں امیر تنظیم کے نقطہ نگاہ سے اکثر احباب بخوبی آگاہ ہوں گے. اپنی کتاب ’’استحکام پاکستان‘‘میں محترم ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں اپنا مستقل موقف نہایت وضاحت اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے. کتاب کے مقدمے میں انہوں نے اس صراحت کے بعد کہ ’’میرے بارے میں یہ بات عام طور پر مشہور ہے اور خود میں نے بھی اس کا بار ہا اظہار کیا ہے کہ میں معروف معنی اور مروجہ مفہوم کے اعتبار سے ہرگز ایک سیاسی آدمی نہیں ہوں ‘‘اپنی تحریر و تقریر میں ملکی حالات پر گفتگو اور سیاسی امور پر رائے زنی کا سبب بایں الفاظ بیان فرمایا:
’’اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ’’سیاست‘‘ اگرچہ فی الاصل ایک نہایت وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے لیکن پوری دنیا میں بالعموم اور ہمارے یہاں بالخصوص اس کاایک ہی محدود مفہوم رائج ہے‘ یعنی انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کے حصول یا اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش. چنانچہ اس کے باوجود کہ پوری دنیا میں یہ امر مسلم ہے کہ صحافت سیاست کا اہم ترین شعبہ ہے‘اس لیے کہ یہ رائے عامہ کو ایک خاص رخ پر ہموار کرتی ہے جس کا براہ راست اثر انتخابات پر پڑتا ہے‘تاہم مروجہ معنی میں صحافیوں کو سیاسی آدمی کہیں بھی قرار نہیں دیا جاتا. اس اشکال کو اس طرح بآسانی حل کیا سکتا ہے کہ سیاست کو دو شعبوں میں منقسم سمجھا جائے. ایک نظری یا بالواسطہ سیاست اور دوسرے عملی یا براہ راست سیاست. ان میں جہاں تک مؤخر الذکر یعنی عملی سیاست کا تعلق ہے اس نے عہد حاضر اور بالخصوص مغربی ممالک میں ایک پیشہ (profession) کی حیثیت اختیار کرلی ہے‘ لہٰذا یہ ہر شخص کے کرنے کا کام نہیں بلکہ صرف پیشہ ور سیاستدانوں کی جولان گاہ ہے. البتہ جہاں تک مقدم الذکر یعنی نظری سیاست کا تعلق ہے تو کم از کم نظری اعتبار سے یہ ہر باشعور انسان کے لیے لازمی ہے‘اس لیے کہ ملک اور قوم کے معاملات پر غور و فکر اور ان کو درپیش مسائل کے لیے سوچ بچار اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے دامے‘درمے‘سخنے کوشش ہر باشعور شہری کا فرض عین ہے اور اس سے اغماض و اعراض یقیناملک اور قوم سے بد عہدی اور بے وفائی کے مترادف ہے.‘‘
حقیقت یہ ہے کہ کسی انقلابی جماعت کے کارکنوں کے لیے جہاں دینی و اخلاقی تربیت کا اہتمام ضروری ہوتا ہے وہاں ان کی سیاسی تربیت یعنی ملکی سیاسی حالات کا واضح شعور‘کار فرما سیاسی قوتوں کے پس منظر اور شجرۂ نسب کا صحیح صحیح ادراک بھی ایک ناگزیر ضرورت ہوتا ہے.
امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد مد ظلہ‘ کے زیرادارت ماہنامہ ’’میثاق‘‘کی اشاعت کا آغاز تو اگرچہ ۱۹۶۶ء کے وسط میں ہوگیا تھا جسے بجا طور پر تحریک رجوع الی القرآن کے ایک مؤثر آرگن کی حیثیت حاصل تھی جس کی کوکھ سے ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی برآمد ہوئی‘تاہم میثاق میں سیاسی تجزیوں پر مشتمل اداریوں کی اشاعت کا آغاز ۱۹۶۷ء سے ہوا. ان اداریوں میں امیر تنظیم نے تحریک پاکستان کے سیاسی پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس بارے میں اپنا نقطہ نظر بصراحت بیان کیا. پھر ۱۹۶۸ء میں بھی جب سابق صدر ایوب خان کا تخت حکومت ڈانواں ڈول تھا‘ملک کی سیاسی صورت حال کے بارے میں امیر تنظیم کے متعدد پر مغز ادارئیے ماہنامہ میثاق کی زینت بنے. ۱۹۶۷ء اور ۱۹۶۸ء کے دوران شائع ہونے والے یہ سیاسی تجزئیے اب ’’اسلام اور پاکستان‘‘نامی کتاب کی صورت میں دستیاب ہیں.
پاکستانی سیاست کے نئے دور کا آغاز ۱۹۶۹ء میں ہوا. ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے ایک طویل مدت بعد مختلف سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کو قسمت آزمانے کا موقع ہاتھ آیا تھا. اس دور میں بھی امیر تنظیم نے تسلسل کے ساتھ ’’میثاق‘‘ کے لیے سیاسی تجزیے تحریر کیے اور میدان سیاست میں باہم نبرد آزما مختلف کرداروں کے پس منظر اور ملکی سیاست میں ان کے حقیقی کردار کو عمدگی سے واضح کیا. پاکستانی سیاست کے اس دور کا اختتام ایک نہایت تلخ اور ذلت آمیز قومی سانحے یعنی سقوط مشرقی پاکستان پر ہوا. امیر تنظیم نے حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے بہت پہلے یعنی ۱۹۶۹ء میں اس بارے میں انتباہ کردیا تھا اور حالات جس رخ پر جا رہے تھے اس کی نشاندہی کردی تھی. انہوں نے جولائی ۱۹۶۹ء میں قومی سیاسی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ فوجی قوت اور جبرو تشدد کے بل پر مشرقی پاکستان کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے بجائے وہاں کے عوام سے استصواب کرایا جائے اور انہیں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں کہ آیا وہ حسب سابق پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد اور خود مختار حیثیت کے خواہاں ہیں. جولائی ۱۹۶۹ء کے ادارئیے میں امیر تنظیم نے اُس وقت ملک میں موجود سیاسی خلفشار کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے اصل اسباب کا تعین کرنے کے بعد اس پیچیدہ صورت حال کا جو حقیقت پسندانہ حل تجویز کیا تھا‘اسے اُس وقت تو ہمارے اہل سیاست و صحافت نے قطعاً در خور اعتناء نہ سمجھا بلکہ صورت حال کا مواجہہ کرنے کی بجائے قوم کو لوریاں دے کر سلاتے اور ’’محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے ‘‘کی نوید سناتے رہے‘ لیکن آج محترم ڈاکٹر صاحب کے اس تجزئیے اور مشورے کی اصابت کا ہر کسی کو اعتراف کرنا پڑتا ہے (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو کتاب ہذا میں شامل جولائی ۱۹۶۹ء کا اداریہ). زیرنظر کتا ب میں انہی سیاسی تجزیوں کو ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے.
ان ۲۷ برسوں کے دوران اگرچہ وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے‘کمیونزم اور USSR کی موت کے بعد عالمی حالات میں بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہے‘ پاکستان کی داخلی سیاست میں بھی بائیں بازو کے نمایاں سیاسی گروپ اب زیر زمین جا چکے ہیں‘چنانچہ پیپلز پارٹی بھی اب اپنے سابقہ نظریات میں سے اکثر سے اس حد تک تائب ہوچکی ہے کہ اسے بائیں بازو کی سیاسی جماعت قرار دینا اب کسی طور مناسب معلوم نہیں ہوتا‘تاہم ملکی سیاست کے میدان میں آج بھی بہت سے کردار وہی ہیں جو آج سے ستائیس اٹھائیس برس پہلے برسرِ عمل بلکہ برسر پیکار تھے. ان کرداروں کے پس منظر کو جاننے اور ملکی سیاست میں ان کے رول کو سمجھنے کے لیے زیر نظر کتا ب میں شامل مضامین ایک کلید کا درجہ رکھتے ہیں. ہمیں یقین ہے کہ قارئین ان مضامین کو دلچسپ اور مفید پائیں گے.
عاکف سعید
ناظم مکتبہ
مرکزی انجمن خدم القرآن لاہور
یکم ستمبر ۱۹۹۶ء