جب قتال اور جہاد کو مترادف قرار دے دیا گیا اور جہاد کے معنی جنگ بنا لیے گئے تو اب ؎
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تاثریّامی روددیوارکج
کے مصداق اس مفروضے پر مبنی نتائج بھی غلط نکلے. اگر جہاد کا مطلب قتال ہے تو ظاہر بات ہے کہ قتال تو ہر وقت نہیں ہوتا‘ اور قتال کے بارے میں یہ بھی طے ہے کہ یہ فرضِ کفایہ ہے‘ اِلاّ یہ کہ کوئی استثنائی صورت ہو جائے‘ جیسے کہ غزؤ ہ تبوک کے موقع پر نفیر عام کا اعلان کیا گیا کہ ہر شخص جنگ کے لیے نکلے. گویا عام حالات میں قتال فرضِ عین نہیں ہے‘ فرضِ کفایہ ہے. اگر کسی مہم کے لیے ایک سو آدمیوں کی ضرورت ہے اور سو آدمی نکل آئیں تو باقی مسلمانوں کی طرف سے فرض ادا ہو گیا. جیسے ہمارے ہاں نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ادا کر لی ہے تو سب کی جانب سے ادا ہو جائے گی‘ اور اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ کسی نے بھی ادا نہ کی تو سب گنہگار ہوں گے.یہی معاملہ قتال کا ہے. جیسے خلافت راشدہ میں ہوتا تھا کہ مثلاً اگر شام کے محاذ پر جنگ ہو رہی ہے اور وہاں سے مطالبہ آیا کہ دس ہزار آدمیوں کی ضرورت ہے‘ تو اگر دس ہزار مجاہدین نکل آئیں اور باقی سب آرام سے گھروں میں رہیں تو ان پر کوئی الزام نہیں ہے.
جہاد اور قتال کو مترادف سمجھ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود جہاد کو فرضِ عین کی بجائے فرضِ کفایہ سمجھ لیا گیا. اس کے نتیجے میں جہاد کا تصور ہمارے دینی تصورات سے بحیثیت مجموعی خارج ہو گیا اور اس کی کوئی اہمیت نہ رہی.