قرآن حکیم کی رُو سے جہاد فی سبیل اللہ ایمان کا جزوِ لازم ہے‘ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر ایمان نامکمل ہے. ایمان سے یہاں ایمانِ حقیقی مراد ہے. اس کے دو لوازم‘ہیں‘ ایک دل میں یقین اور دوسرے عمل میں جہاد. اس کے لیے سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ اور۱۵ ملاحظہ کیجیے. آیت ۱۴ کے آغاز میں ایمان اور اسلام کو علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا ہے:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ (الحجرات: ۱۴
’’یہ بدو دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے . (اے نبیؐ !) ان سے کہہ دیجیے تم ایمان ہرگز نہیں لائے‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے (یا ہم نے اطاعت قبول کر لی) جبکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘

مذکورہ بالا آیت میں اسلام کا اثبات کرتے ہوئے ایمان کی نفی کی گئی ہے. اس لیے کہ جس کسی نے زبان سے کہہ دیا 
’’اَشْھَدُ اَن لَّااِلٰہَ اِلَّا للہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللہِ‘‘ وہ قانونی طور پر مسلمان شمار ہو گا. لیکن فرمایا گیا کہ اس مغالطے میں نہ رہنا کہ اس سے تمہیں ایمان حاصل ہو گیا ہے. ’’اِذَااجْتَمَعَاتَفَرَّقَا‘‘ کی رو سے ایک ہی جگہ دونوں اصطلاحیں آئی ہیں تو مفہوم جدا ہو گیا. چنانچہ یہاں اسلام اور ہے‘ ایمان اور ہے.

جب یہ واضح ہو گیا کہ ایمان اور شے ہے‘ اسلام اور شے ہے تو فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایمان کیا ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ اس کے لوازم کیا ہیں؟ اس کی شرائط کیا ہیں؟ اس اعتبار سے سورۃ الحجرات کی یہ دو آیات ایمانِ حقیقی کی تعریف پر قرآن کا ذروۂ سنام ہیں. اس لیے کہ اس تمہید کے بعد کہ اسلام اور ہے‘ ایمان اور ہے‘ اور یہ کہ تمہارا اسلام تسلیم لیکن تمہارا ایمان کا دعویٰ قابل قبول نہیں‘ فرمایا:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحجرات)
’’(حقیقی) مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر ہرگز شک میں نہیں پڑے. اور انہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اپنی جانوں اور مال کے ساتھ‘ صرف یہی سچے لوگ ہیں.‘‘

نوٹ کیجیے اس آیت کے آغاز میں بھی اور اختتام پر بھی اسلوبِِ حصر ہے. اسلوبِِ حصر کو اس مثال سے سمجھئے کہ ایک جملہ تو یہ ہے کہ ’’زید عالم ہے.‘‘ اس 
سے ایک مفہوم آپ کے ذہن میں آ گیا کہ زید عالم ہے. اب اگر اس جملے میں ’’ہی‘‘ کا اضافہ ہو جائے کہ ’’زید ہی عالم ہے‘‘ تو اب یہاں گویا باقی کی نفی ہو گئی کہ جس گروہ کا ذکر ہو رہا تھا ان میں سے عالم صرف ایک ہے اور وہ زید ہے‘ باقی سب عالم نہیں ہیں. اس کو اسلوبِ حصر کہتے ہیں. ’’اِنَّمَا‘‘ کلمۂ حصر ہے اور آخر میں ’’اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ ‘‘ میں پھر حصر ہے. چنانچہ اس آیت میں ایمانِ حقیقی کی تعریف کو دو طرح سے حصر کے اندر لے کر بیان کیا گیا ہے. اس لحاظ سے یہ ایمان کی جامع اور مانع تعریف ہے.

یہ قرآن مجید کا واحد مقام ہے جہاں ایمان کے بعد 
ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا کا اضافہ ہے‘ جس سے معلوم ہوا کہ وہ ایمان مطلوب ہے جو یقین کی شکل اختیار کر گیا ہو ‘ اور یقین بھی ایسا کہ اس کے ساتھ شکوک و شبہات کا شائبہ تک نہ ہو. ایمانِ حقیقی کی پہلی شرطِ لازم تو یہ ہوئی. دوسری یہ کہ وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور یہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.

اس بات کو اب ذرا وضاحت سے سمجھئے. دیکھئے! اسلام کے پانچ ارکان ہیں جن میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی. یہ بات میں اس حوالے سے عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے بعض مفسرین نے ‘ خاص طور پر وہ جو کسی دعوتی جدوجہد کو لے کر کھڑے ہوئے‘ کوشش کی ہے کہ جہاد کو بھی ارکانِ اسلام میں داخل کر لیں. یہ اس کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا‘ لیکن میرے نزدیک یہ کوشش غلط ہے. ارکانِ اسلام معین ہیں. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ 
نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:

 بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَھَادَۃِ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ ‘ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْـتَـآئِ الزَّکٰوۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (۳)
’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : (۱) اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد  اس کے بندے اور رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ دینا(۴) حج کرنا (۵) رمضان کے روزے رکھنا.‘‘
ان پانچ ارکان میں سے ہم نہ کسی کو کم کر سکتے ہیں‘ نہ ان میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں.

میں یہ عرض کر چکاہوں کہ اسلام عام ہے اور ایمان خاص ہے. چنانچہ ’’ایمان‘‘ میں یہ پانچوں ارکانِ اسلام تو شامل رہیں گے‘ یہ اس کا جزوِ لازم ہیں‘ البتہ اس میں دو کا اضافہ ہو جائے گا. ایک یہ کہ’’شَھَادَۃِ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ کے ساتھ یقین قلبی کا اضافہ اور دوسرے عمل میں جہاد کا اضافہ. اس کے بعد ایک مثال یہ ہے کہ روشنی کی کرن جب منشور (Prism) میں سے گزرتی ہے تو اس کے ساتھ رنگ ظاہر ہو جاتے ہیں. لیکن ان سات کے ساتھ دو رنگ اور بھی ہوتے ہیں Infra Red اور Ultra violet جو نظر نہیں آتے.اسی طرح یہ پانچ ارکان تو رہیں گے. ’’اسلام‘‘ گویا پہلی منزل ہے جس کے یہ پانچوں ستون ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں. اس کے اوپر بالاتر منزل ’’ایمان‘‘ کی ہے‘ جہاں دو ستون مزید جمع ہو جائیں گے‘ قلب میں یقین اور عمل میں جہاد. یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایمانِ حقیقی کے سات ارکان ہیں : یقینِ قلبی‘ شہادتِ لسانی‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ. بہرحال مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ ایمانِ حقیقی کا جزو لازم ہے.