اب آیئے ذرا لغوی طور پر جائزہ لیں کہ یہ لفظ کہاں سے بنا ہے اور اس نے درجہ بدرجہ ایک اصطلاح کی شکل کیسے اختیار کی ہے. ظاہر بات ہے ہمارے دین کی اصطلاحات عربی زبان ہی سے اختیار کی گئی ہیں اور پہلے سے مستعمل الفاظ میں کچھ اضافی معانی داخل کر کے انہیں اصطلاحات کی شکل دی گئی ہے. ’’جہد‘‘ کے لفظ سے ہر شخص واقف ہے کہ اس کا مادہ’’ج‘ ھ‘د‘‘ ہے. جہد کے معانی کسی چیز کے حصول کے لیے محنت اور کوشش کرنے کے ہیں. یعنی to strive for something لیکن جب یہ لفظ باب مفاعلہ میں آئے گا (جہاد؍/مجاہدہ) تو یہاں اب دو طرفہ عمل ہو جائے گا‘ یعنی جہد کے مقابلے میں جہد‘ کسی رکاوٹ کے مقابلے میں محنت اور کوشش. انگریزی میں اسے to struggle against something کے الفاظ سے تعبیر کریں گے. اس کے ساتھ ہمیشہ against کا صلہ (preposition)استعمال کرتے ہیں‘ جبکہ to strive کے ساتھ for استعمال ہوتا ہے.گویا کہ جہد یکطرفہ عمل ہے‘ آپ کسی کام کے لیے کوشش کر رہے ہیں. لیکن جہاد وہ دو طرفہ کوشش ہے جبکہ کوئی مقابلے میں ہو‘ یعنی آپ بھی کوشش کر رہے ہیں تو کوئی دوسرا بھی کوشش کر رہا ہے. گویا کوشش کا کوشش سے مقابلہ ہو رہا ہے. کوشش کا کوشش سے تقابل ہو تو یہ جہاد ہے. بالکل اسی طرح قتل اور قتال کا معاملہ ہے. قتل بالکل یک طرفہ عمل ہے. ایک شخص جا رہا تھا کسی نے اس کو گولی مار دی‘ جبکہ اس کے سان گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ کوئی مجھے گولی مار دے گا. لیکن قتال یا مقاتلہ (باب مفاعلہ میں) کا مفہوم یہ ہو گا کہ دو فریق ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہیں‘ یا ایک فوج دوسری فوج کے مقابلے میں ہے. جہد اور قتل کے الفاظ تو اردو زبان میں عام مستعمل ہیں اور ان کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں.