جہاد فی سبیل اللہ کی دوسری منزل باطل عقائد و نظریات کے خلاف جہادہے. انسان ایک متمدن حیوان ہے اور ایک معاشرے میں رہتا ہے. جب ایک شخص کو اللہ و آخرت پر پختہ یقین حاصل ہو گیا اور اس نے اپنے آپ کو شریعت کے احکام پر کاربند کر لیا تو یہاں سے بات بالکل فطری طورپر باہر نکلے گی. اس لیے کہ اگر آپ نے اندر کے جہاد کا مرحلہ طے کر لیا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ آپ کی شخصیت سے یہ جہاد خارج میں نہ نکلے. اگر یہ باہر نہیں نکل رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اندر کہیں فساد ہے. اگر آپ کو آگ نظر آ رہی ہے لیکن اس کے پاس بیٹھنے سے آپ کو تپش محسوس نہیں ہو رہی تو یقینا وہ آگ نہیں‘ صرف آگ کی شکل ہے. جیسے آج کل ایسے الیکٹرک ہیٹرز ہوتے ہیں کہ ان میں دہکتے ہوئے انگارے نظر آتے ہیں لیکن وہ انگارے نہیں ہوتے‘ حرارت تو کہیں اور سے آ رہی ہوتی ہے. اسی طرح انسانی شخصیت کے اندر سے اثرات کا اپنے ماحول میں سرایت کرنا یقینی ہے. اس کے لیے ہمارے پاس چار شواہد ہیں:
(۱) یہ قانون طبعی کے تحت لازم ہے. آگ کی بھٹی میں سے حرارت کا برآمد ہونا ایک طبعی امر ہے. لہٰذا اگر آپ کے اندر ایمانی حرارت کی بھٹی دہک گئی ہے تو اس حرارتِ ایمانی کے اثرات آپ کی شخصیت سے لازماً باہر نکلیں گے.
(۲) یہ انسان کی مروّت اور شرافت کا تقاضا ہے جیسے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبَّ لِنَفْسِہٖ (۱۰) ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے.‘‘
لہذا اللہ تعالیٰ نے ایمان کی جو نعمت عظمیٰ تمہیں عطا فرمائی ہے اسے اپنے بھائی بند‘ اعزہ و اقارب ‘ اپنی قوم‘ قبیلہ‘ برادری اور پھر پوری نوعِ انسانی میں بانٹو اور اسے لوگوں کے ساتھ share کرو‘ کیونکہ یہ آپ کی شرافت اور مروّت کا تقاضا ہے.
(۳) یہ آپ کی غیرت کا بھی تقاضا ہے کہ جس شے کو آپ نے حق سمجھا ہے اگر اس کے خلاف باطل کا غلبہ ہے تو آپ اس کے خلاف جہاد کریں اور اس کے لیے دعوت کا آغاز کریں. دعوت و تبلیغ نظریاتی سطح پر جہاد کا پہلا مرحلہ ہے. یہاں وہ لرزا دینے والی حدیث ملاحظہ کر لیجیے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرَائِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا‘ قَالَ فَقَالَ : اِنَّ فِیْھَا عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ‘ قَالَ فَقَالَ : اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ (۱۱)
’’اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ فلاں فلاں شہروں کو اُن کے رہنے والوں سمیت اُلٹ دو. اس پر جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے اللہ! اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی. (جبرئیل علیہ السلام کے ان الفاظ سے اُس شخص کے تقویٰ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ اور یہ بھی نوٹ کیجیے کہ اس کے تقویٰ کی گواہی دینے والا کوئی کرائے کا وکیل نہیں ہے‘ بلکہ جبرائیل ہیں‘ اور وہ اُس بارگاہ میں گواہی دے رہے ہیں جہاں ابوجہل بھی جھوٹ نہیں بول سکتا.) اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ الٹو اس بستی کو پہلے اُس پر اور پھر دوسروں پر‘ اس لیے کہ اس کا چہرہ میری غیرت و حمیت میں کبھی متغیر نہیں ہوا.‘‘
آپ غور کیجیے کہ اگر کوئی آپ کو ماں کی گالی دے تو اس پر آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ اگر آپ کے جسم میں جان ہے تو کیا آپ اسے یونہی جانے دیں گے؟ ہرگز نہیں! فرض کیجیے آپ کمزور ہیں تو بھی کم سے کم آپ کے پورے جسم کا خون آپ کے چہرے پر سمٹ آئے گا اور آپ کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھے گا. لیکن اگر اللہ کے احکام ٹوٹ رہے ہوں‘ ان کی دھجیاں بکھر رہی ہوں‘ باطل کا ڈنکا بج رہا ہو‘ طاغوت کا بول بالا ہو اور بندۂ مؤمن فقط ’’اللہ اللہ‘‘ کرنے میں لگا ہوا ہو تو اس سے بڑھ کر اور کوئی مجرم نہیں. یہی تو ابلیس چاہتا ہے کہ ع
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!
اس عابد و زاہد شخص پر اللہ تعالیٰ کا غضب خاص طور پر اس لیے نازل ہوا کہ دوسرے لوگ تو غافل تھے‘ انہیں اللہ سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ ان کا اللہ سے کوئی تعارف نہیں ہوا اور حق ان پر منکشف نہیں ہوا تھا. یہ عبادت گزار‘ طاعت گزار‘ عابد و زاہد شخص اور اس نے اللہ کے معاملے میں اس قدر بے حسی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی اللہ کی غیرت میں متغیر نہیں ہوا! آپ اگر اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو اس کے لیے آپ کے اندر غیرت ہونی چاہیے. آپ دین کو مانتے ہیں تو آپ کے اندر دینی حمیت ہونی چاہیے.