مسلمانانِ ہند پر انگریز کی دو سوسالہ غلامی کے اثرات

ان حقائق کی روشنی میں اب ذرا غور کیجئے مسلمانانِ ہند کی ماضی قریب کی تاریخ اور ملت اسلامیہ پاکستان کی موجودہ صورت ِحال پر!

صنم خانۂ ہند میں اسلام کا ورودِاوّل ۷۱۲ء میں ہوا اور اس وقت سے لے کر ۱۷۵۷ء تک یعنی ایک ہزار سال سے زائد عرصہ برصغیر پر مسلمانوں نے جزوی یا کلی طور پر حکومت کی! اس کے بعد لگ بھگ دو سو برس انگریز کی غلامی میں گزرے اور اس دو صد سالہ غلامی کے دَوران برصغیر کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی کم و بیش آٹھ اوربعض علاقوں میں لگ بھگ چھ نسلیں بیت گئیں اور کیسے ممکن تھا کہ اِس کے اثرات و نتائج کا ظہور نہ ہوتا.

یہ درست ہے کہ ان دو سو برسوں کے دوران انگریز کی جانب سے بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد، قتل و غارت اور لوٹ مار کا معاملہ تو ایک ہی بار ہوا یعنی ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد. اس سے قبل کے سو سالہ دَور میں یا میدانِ جنگ میں کھلے مقابلے کا معاملہ رہا یا میدانِ سیاست کے دجل و فریب، بدعہدی و بے وفائی اور مکاری و دسیسہ کاری کا. اور بعد کے نوے سالوں کے دوران بھی اگرچہ دینی حمیت اور جذبۂ حریت سے سرشار بے شمار مسلمان، بالخصوص علماء کرام ،قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے، جیل خانوں میں تعذیب و تشدد کا نشانہ بنتے، پھانسی کے پھندوں میں جھولتے یا حبس دوام لبعبور دریائے شور کی سزائیں پاتے نظر آتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ اُن کی کل تعداد ہندوستان کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بنتی. تاہم عہدحاضر کے اس بدترین استعمال نے ایک جانب مسلمانانِ برصغیر کی بحیثیت مجموعی غیرت و حمیت اور خودداری و عزت نفس کو کچلنے کے لیے وہ تمام حربے استعمال کیے جو ہمیشہ سے استعماری قوتوں کا معمول رہے ہیں. یعنی: 

اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ۚ 
(النمل : ۳۴
’’یقینا بادشاہ جب کسی بستی (یا ملک) میں (فاتحانہ) داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں اور اس کے باعزت لوگوں کو ذلیل کر ڈالتے ہیں.‘‘

جس کی بہترین تعبیر کی ہے علامہ اقبال مرحوم نے اپنے ان اشعار میں ؎

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیہ ’’اِنَّ الْمَلُوْکَ‘‘
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اِک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری!
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں سازِ دلبری!
از غلامی فطرتِ آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجۂ از برہمن کافر تری!

نتیجتاً ان دو سو سالوں کے دوران ؏ 
’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے!‘‘

کے مصداق اسلامیانِ ہند کا جو فردیا گروہ غیرت و حمیت اور عزت نسل کے اعتبار سے جتنا، ’’ہلکا‘‘ ہوتا چلا گیا اتنا ہی اُوپر اُٹھتا اور سرکار دربار میں ’’باعزتِ‘‘ بنتا چلا گیا اور جن کے قدموں میں غیرت و حمیت کی بیڑیاں رہ گئیں، وہ معاشرتی و معاشی اعتبار سے پست سے پست تر ہوتے چلے گئے. اور دوسری جانب عہد حاضر کے اس ’’فرعونِ جدید‘‘ نے 
’’یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآئَ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ‘‘ کی ایک نئی اور بظاہر بڑی معصوم اور بے ضرر لیکن حقیقتاً حد درجہ مؤثر اور تیربہدف صورت اختیار کی. یعنی ایک نئے نظامِ تعلیم کے ذریعے انگریزی زبان اور مغربی تہذیب و تمدن کی ترویج اور اس ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کے ذریعے نئی نسلوں کا اپنے ماضی سے کامل انقطاع جو قومی و ملی سطح پر قتل عام سے ہر گز کم نہیں اور گویا ’’یُقَتِلُوْنَ اَبْنَآئَ کُمْ‘‘ کی جدید اور مہذب صورت ہے. بقول اکبر الہ آبادی مرحوم ؎

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

قومی و اجتماعی سطح پر اِس ’’کردار کشی‘‘ کا جو نتیجہ نکلا اُسے کسی صاحب درد نے یوں بیان کیا کہ ؎

میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں اُلجھ کر اکثر
تم نے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دیئے!
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیئے!

اور اِس جلتی آگ پر تیل کا کام کیا ’’آزادی نسواں‘‘ کی اُس تحریک نے جس نے ہمارے عائلی و سماجی نظام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، خاندان کے مقدس ادارے کی چولیں ہلا دیں، شرم و حیا کا دیوالہ نکال دیا اور عصمت و عفت کے معیارات ختم کر دیئے اور اس طرح گویا 
’’وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ‘‘ کی ایک جدید تفسیر عملاً پیش کر دی.