آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں بطور تمہیدعرض کرتی ہیں جن کی حیثیت ’’ذاتی وضاحتوں، (Points of Personal Explanation) کی ہے:

پہلی یہ کہ میرے بارے میں یہ بات عام طو رپر بھی مشہور ہے اور خود میں نے بھی اس کا بارہا اظہار کیا ہے کہ میں معروف معنی اور مروجہ مفہوم کے اعتبار سے ہرگز ایک سیاسی آدمی نہیں ہوں. چنانچہ میں نے جو دو تنظیمی ہئیتیں قائم کی ہیں اُن میں سے ایک یعنی انجمن خدام القرآن کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں کہ وہ ایک خالص علمی و تعلیمی اور تدریسی و تربیتی ادارہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس تعلیم و تدریس اور نشر واشاعت کے ضمن میں بھی اُس کا کل مرکز و محور قرآنِ حکیم ہے. پھر اس کا نام خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت تو کیا سرے سے جماعت ہی نہیں ہے بلکہ محض ایک انجمن 
(Society) ہے اور اس کی سرگرمیوں کا مظہر اتم ’’قرآن اکیڈمی‘‘ ہے، جو معروف معنی میں صرف ایک ’’ادارہ‘‘ (Institution) ہے. اسی طرح ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے میں نے جو’’ جماعت‘‘ قائم کی ہے وہ اگرچہ محدود معنی میں انجمن یا ادارہ نہیں ہے بلکہ باضابطہ ’’جماعت ‘‘ ہے، لیکن اُس کا بھی یہ پختہ فیصلہ ہے کہ وہ کبھی ملکی انتخاباتمیں حصہ نہیں لے گی. لہٰذا یہ بھی مروجہ مفہوم کے اعتبار سے سیاسی جماعت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مارشل لاء کے ساڑھے آٹھ سالہ دور میں نہ اس پر کوئی پابندی لگی، نہ اس کی سرگرمیوں پر کوئی روک ٹوک ہوئی.

اِس پس منظر میں جب پیش نظر تحریر میں بعض سیاسی اُمور پر تفصیلی گفتگو لوگوں کے سامنے آئے گی تو اِس سے ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو ’’تضاد‘‘ (Contradiction) کا احساس ہو.
اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ’’سیاست‘‘ اگرچہ فی الاصل ایک نہایت وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح 
ہے، لیکن پوری دنیا میں بالعموم اور ہمارے یہاں بالخصو ص اس کا ایک ہی محدود مفہوم رائج ہے. یعنی انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کے حصول یا اُس پر اثر انداز ہونے کی کوشش. چنانچہ اس کے باوجود کہ پوری دنیا میں یہ امر مسلم ہے کہ صحافت سیاست کا اہم ترین شعبہ ہے. اس لیے کہ یہ رائے عامہ کو ایک خاص رُخ پر ہموار کرتی ہے جس کا براہِ راست اثر انتخابات پر پڑتا ہے، تاہم مروّجہ معنی میں صحافیوں کو سیاسی آدمی کہیں بھی قرار نہیں دیا جاتا. اِس اشکال کو اس طرح بآسانی حل کیا جا سکتا ہے کہ سیاست کو دو شعبوں میں منقسم سمجھا جائے. ایک نظری یا بالواسط سیاست اور دوسرے عملی یا براہِ راست سیاست، اِن میں جہاں تک مؤخر الذکر یعنی عملی سیاست کا تعلق ہے اس نے عہد حاضر اور بالخصوص مغربی ممالک میں ایک پیشہ (Profession) کی حیثیت اختیار کر لی ہے، لہٰذا یہ ہر شخص کے کرنے کا کام نہیں ہے بلکہ صرف پیشہ و ر سیاستدانوں کی جولانگاہ ہے. لیکن جہاں تک مقدم الذکر یعنی نظری سیاست کا تعلق ہے تو کم از کم نظری اعتبار سے یہ ہر باشعور انسان کے لیے لازمی ہے، اس لیے کہ ملک اور قوم کے معاملات پر غور و فکر اور ان کو در پیش مسائل کے لیے سوچ بچار اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے دامے، درمے، سخنے کوشش ہر باشعور شہری کا فرضِ عین ہے اور اس سے اغماض و اعراض یقینا ملک اور قوم سے بدعہدی اور بے وفائی کے مترادف ہے. یہ نظری یا بالواسطہ سیاست کس قدر اہم اور مؤثر بلکہ فیصلہ کن ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ ماضی قریب میں یورپ کے ممالک اور زمانہ(حال میں امریکہ میں یہودیوں کے عمل دخل سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اپنی تعداد کی قلت کے باعث وہ براہِ راست عملی سیاست میں دخیل نہیں ہو سکتے، لیکن ذرائع ابلاغ پر اپنے قبضہ و تسلط کے ذریعے وہ امریکہ جیسے عظیم ملک کی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں. یہاں تک کہ بقول اقبال ؏ 

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!

مزید غور کیا جائے تو ’’عملی سیاست‘‘ کے بھی دو مختلف انداز ممکن ہیں: ایک کو ’’انتخابی سیاست‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور دوسرے کو ’’انقلابی سیاست‘‘ سے. ان دونوں کے مابین حد فاصل اِس طرح قائم ہوتی ہے کہ اگر کسی انسان کے نزدیک اُس کے ملک میں قائم معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام 
(Politico-Socio-Economic System) بحیثیت مجموعی اور اپنی جڑ بنیاد کے اعتبار سے صحیح ہے تو ملک و قوم کی بہتری کے ضمن میں صرف ایک کام باقی رہ جاتا ہے کہ اُس نظام کو چلانے کے لیے بہتر سے بہتر ہاتھ فراہم کیے جائیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ کچھ جزوی اور فروعی پالیسیوں کے ضمن میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، اِس صورت میں ضرورت صرف اس کی ہو گی کہ ’’انتخابی سیاست‘‘ میں حصہ لے کر صرف ’’حکومت‘‘ کی تبدیلی کی کوشش کی جائے. اس کے برعکس اگر کسی کے نزدیک ملک میں بالفعل قائم ورائج نظام بحیثیت مجموعی غلط اور بلحاظ اساسِ نظری باطل (False) اور باعتبار تشکیل عملی مبنی بر امتیازات (Discriminative) ہے، یا ظالمانہ اور متشددانہ (Unjust and Suppressive) ہے، یا استحصالی (Exploitative) ہے،تو اس کے لیے مسئلہ صرف ’’حکومت‘‘ کی تبدیلی کا نہیں ہو گا بلکہ پورے نظام کی تبدیلی کا ہو گا، جس کے لیے انتخابی سیاست قطعاً غیر مفید اور بالکل لا حاصل ہے. اس کے لیے اصلاً ایک انقلابی عمل درکار ہو گا جسے ہم ’’انقلابی سیاست‘‘ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں.

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران بہت سے اربابِ دانش اور اصحاب قلم کی کاوش و محنت کے نتیجے میں یہ حقیقت تو کم از کم تعلیم یافتہ لوگوں کے سامنے بالکل نگھر کر آ چکی ہے کہ اسلام صرف ایک ’’مذہب‘‘نہیں بلکہ ایک کامل ’’دین‘‘ ہے اوراس میں جہاں ’’مذہب‘‘ کے جملہ معروف اجزاء یعنی ’’عقائد‘‘ عبادات اور بعض معاشرتی رسومات موجود ہیں، وہاں انسان کی اجتماعی زندگی کے وہ تینوں گوشے بھی شامل ہیں جن کو موجودہ دنیا میں عام طور پر حیاتِ انسانی کے ’’لادینی میدان‘‘ (Secular Field) سے تعبیر کر دیاجاتا ہے یعنی ایک مکمل اور متوازن معاشرتی نظام، ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشی نظام اور ایک مساویانہ اور حریت پر اور سیاسی نظام. اب اگر واقعہ یہ ہے کہ سیاست اسلام کا جزو ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی باشعور مسلمان خالص غیر سیاسی ہو.

علامہ اقبال مرحوم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا عجدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی راقم کے نزدیک ان الفاظ میں بھی، غالباً وزن و بحر کی مجبوریوں کے باعث، حقیقت کی تعبیر میں کسر رہ گئی ہے. اس لیے کہ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاست کوئی بالا تر اور عظیم تر حقیقت ہے اور دین اس کا ایک جزو، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ کم از کم اسلام کی حد تک اصل بالا و برتر اور جامع و غالب حقیقت ’’دین‘‘ ہے اور ’’سیاست‘‘ محض اس کا ایک شعبہ اور جزو ہے جو تمام تر دین کے ’’تابع‘‘ ہے. البتہ اسلام کے نقطۂ نظر سے یہ شعبہ یا جزو بھی ہرگز نہ غیر اہم ہے نہ حقیر. اس لیے کہ ایک حدیث 
نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کے مطابق سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل میں سیاست کی پوری ذمہ داری خود انبیاء کرامf کے کندھوں پر رہی. کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائِ (رواہ مسلم). اور خود نبی اکرم  کے بارے میں مغربی مفکرین اور مصنفین میں سے بعض نے فی الواقع تحسین و ستائش کے انداز میں اور بعض بدبختوں نے ہجوملیح کے انداز میں تسلیم کیا ہے کہ آپ ؐ نہایت ماہر اور عظیم سیاستدان (Statesman) تھے. چنانچہ عہد حاضر کے مشہور ترین عالم فلسفہ تاریخ ٹائن بی (Tyonbee) نے تو آنحضور صلی اللہ علہ وسلم کی کامیابی کا سہرا ہی تمام تر آپؐکی سیاستدانی (Statesmanship) کے سرباندھا، ہے (نقل کفر کفر نہ باشد. ورنہ اُس کے نزدیک بحیثیت نبی تو آپؐ ناکام ہو گئے تھے). (۱اسی طرح پروفیسر منٹگمری واٹ نے بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سیاستدانی، امورِ حکومت کی واقفیت و مہارت، معاملہ فہمی و موقع شناسی، دور اندیشی و پیش بندی، انتظام و انصرام او رپیشگی اہتمام اور بروقت اقدام کو شاندار خراجِ تحسین ادا کیا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس ضمن میں تحسین و ستائش کا کوئی لفظ اور اسلوب ایسا نہیں رہا، جو اُس نے استعمال نہ کر لیا ہو. اگرچہ اُس نے بھی نہایت لطیف (Subtle) انداز میں ’’مکہ والے محمدؐ ، (Mohammad At Makkah) اور ’’مدینہ والے محمدؐ ‘‘ (Mohammad At Madina) کے مابین تضاد (Contrast) پیدا کر کے ایک ہجو ملیح کی صورت پیدا کی ہے. اس ضمن میں غالباًسب سے زیادہ سچائی اور راست بازی کے ساتھ اور سب سے بڑھ کر جامع اور حقیقت سے نزدیک ترین انداز ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا ہے، جو انہوں نے اپنی تالیف ’’ 100‘‘ میں اختیار کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نسل آدم کی عظیم ترین شخصیت قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ’’ آپ ؐ نسل انسانی کی واحد شخصیت ہیں جو بیک وقت مذہب اور سیاست کے دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب ہیں.‘‘ (۲(1) Mohammad Failed as a PROPHET But Succeeded as a Statesman
(2)My Choice of Mohmmand to Lead The World`s Most Influential Persons May Surprise Some Readers and May be Questioned by Others, but he was THE ONLY man in history Who was supremely Successful on both the religious and secular Levels.
(The 100: Page.33) 
بنابریں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ’’باشعور اُمتی‘‘ کے لیے یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ وہ خالص ’’غیر سیاسی‘‘ انسان ہو. چنانچہ الحمد للہ کہ شعوری زندگی کے آغازسے لے کر آج تک راقم کی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جو خالص غیر سیاسی حالت میں گذرا ہو. ایک ہائی سکول کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے اپنی بساط کے مطابق تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا، پھر ۴۷ء تا ۵۷ء جماعت اسلامی کی تحریک سے عملاً منسلک رہا، جب کہ جماعت مروجہ معنی کے اعتبار سے بھی ایک سیاسی جماعت قرار پا چکی تھی. اُس سے علیحدگی اختیار کی تو اِس بنیاد پر کہ پاکستان میں اسلام ’’انتخابی سیاست‘‘ کے ذریعے نہیں بلکہ صرف ’’انقلابی عمل‘‘ کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے. اور وہ دن اور آج کا دن میری توانائیوں اور صلاحیتوں حتیٰ کہ میرے اوقات کا بھی بہتر اور بیشتر حصہ ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے اساسی لوازم (Basic Prerequisites) کی تکمیل کی سعی وجہد میں صرف ہو اہے. اور اس دوران میں بھی میں نے کم از کم نظری وفکری سطح پر وقتی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا ہے. چنانچہ تحریر اور تقریر دونوں کے ذریعے امکانی حد تک قوم اور ملک کو درپیش مسائل کے ضمن میں اپنی رائے کے اظہار میں کبھی کوتاہی نہیں کی.

قصہ مختصر یہ کہ میں ’’خالص غیر سیاسی‘‘ آدمی کبھی نہیں رہا، اگرچہ مروجہ انتخابی سیاست کے میدان سے ضرور کوسوں دُور بھاگتا ہوں.

دوسری تمہیدی وضاحت یہ کہ میرے بارے میں یہ بات بھی بالعموم معلوم و مشہور ہے کہ ماضی میں میرا نہایت گہرا تعلق جماعت اسلامی کے ساتھ رہا ہے. چنانچہ خود میں نے بھی نہ صرف یہ کہ کبھی اسے چھپایا نہیں بلکہ بارہا اِس کا ڈنکے کی چوٹ اور علیٰ رؤس الاشہاد اعتراف و اعلان کیا ہے کہ اگرچہ میرے شعور کی سب سے زیریں اور تحتانی سطح پر تو نقش ہیں علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی ملی شاعری کے اثرات، تاہم میرے ذہن اور فکر کی تفصیلی تشکیل میں سب سے زیادہ دخل جماعت اسلامی کے دینی فکر اور مولانا مودودی مرحوم و مغفور اور مولانا امین احسن اصلاحی کی تصانیف کو حاصل ہے. اُدھر جماعت اسلامی کا تحریک پاکستان سے تعلق ایک اختلافی اور نزاعی مسئلہ ہے اور اگرچہ جماعت کے زعماء و عمائدین بہت زور دے کر کہتے ہیں کہ جماعت کبھی پاکستان کی مخالف نہیں رہی، بلکہ بعض سادہ لوح بزرگ تو اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کر گزرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے بڑھ کر حصہ مولانا مودودی کا ہے. 
لیکن عام طور پر یہ بات تسلیم نہیں کی جاتی اور ان دعوئوں کی یا تو شدت کے ساتھ تردید کی جاتی ہے، یا کم از کم انہیں مسکرا کر یا ہنس کر ٹال دیا جاتا ہے.

اس ضمن میں فی الوقت میں اس بحث کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ اصل معاملہ کیا ہے، بلکہ صرف یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ تقسیم ہند سے قبل میرا جماعت اسلامی کے ساتھ کوئی عملی تعلق نہیں تھا، بلکہ میں اپنی عمر اور بساط کے مطابق عملاً تحریک پاکستان ہی کا ایک ادنیٰ کا رکن اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ورکر اور عہدیدار تھا. اور اگرچہ میں اُس وقت بھی اپنے محدود فہم کی حد تک جماعت اسلامی کی تحریک اور مولانا مودودی کے فکر سے متعارف ہو چکا تھا، اور مجھے اُس کے ساتھ ایک گونہ اتفاق اور کسی قدر ہمدردی بھی تھی. چنانچہ جب مسلم لیگ اور فیڈریشن کے حلقوں میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی پر تنقید ہوتی تھی تو میں اُن کی جانب سی اپنے امکان بھر مدافعت بھی کرتا تھا، تاہم میرا عملی تعلق کل کا کل تحریک مسلم لیگ اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ تھا.

اِس سلسلے میں میں بعض واقعات کو ریکارڈ پر لے آنا مناسب سمجھتا ہوں. میرا بچپن مشرقی پنجاب (اور اب بھارت کے صوبہ ہریانہ) کے ایک ضلع ’’حصار‘‘ میں گزرا ہے، جو متحدہ پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے تھا. اور جس کا اکثر و بیشتر حصہ کچھ عرصہ قبل دریائے گھگھر کے خشک ہو جانے کے بعد صحرا کی صورت اختیار کر چکا تھا اور میری یادداشت کے مطابق پورا ضلع اکثر قحط وخشک سالی کا شکار رہتا تھا اور اس کی بنا پر آفت زدہ علاقہ 
(Calamity Stricken Area) قرار دیا جاتا تھا.چنانچہ حکومت کی طرف سے تقاوی قرضوں کی صورت میں کاشتکاروں کی مدد کا سلسلہ عموماً جاری رہتا تھا. تعلیمی اعتبار سے بھی پورے ضلع کی پسماندگی کا عالم یہ تھاکہ اُس کے طول و عرض میں کالج صرف ایک تھا اور وہ بھی قصبہ بھوانی کے مالدار بنیوں کا قائم کردہ ہندو قومی کالج. پورے ضلع میں ہائی سکول بھی میرے اندازے کے مطابق آٹھ دس سے زیادہ نہیں ہوں گے، جن میں دو تین ہندوئوں کے قومی سکول تھے بقیہ سب گورنمنٹ سکول تھے. چنانچہ حصار ڈسٹرکٹ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی کل کی کل ہائی سکول کے طلبہ پر مشتمل تھی اور میں نویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے اُس کا جنرل سیکرٹری تھا، اور نہ صرف یہ کہ اپنے قصبے یعنی حصار میں اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا، بلکہ اکثر سرسہ اور ہانسی کے قصبات کے دوروں پر بھی جاتا رہتا تھا. اس ضمن میں اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ ۴۶ء میں اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبیہ ہال میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جو تاریخی جلسہ منعقد ہوا تھا جس سے قائداعظم مرحوم نے خطاب فرمایا تھا، اس میں ضلع حصار کے دو مندوبین میں سے ایک میں تھا (دوسرے دسویں جماعت کے طالب علم عبدالواحد تھے، جن کے بارے میں اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں) مجھے خوب یاد ہے کہ اس موقع پر ہمارے قیام کا انتظام میکلوڈ روڈ کے لکشمی چوک سے متصل ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا جس کے اور میکلوڈ روڈ کے مابین ایک خالی پلاٹ تھا جس میں بانسوں کا بہت بڑا سٹاک تھا. اگر فیڈریشن کا اُس دور کا ریکارڈ کہیں محفوظ ہو تو اس میں اُس اجلاس کے ضلعی مندوبین کی حیثیت سے شرکت کرنے والے طلبہ کے پاسپورٹ سائز کے فوٹو، جو پہلے ہی طلب کر لیے گئے تھے ضرور موجود ہوں گے اور اُن میں ایک تصویر اس خاکسار کی بھی ہو گی.

قصہ مختصر یہ کہ قبل از آزادیٔ ہند جماعت اسلامی کا تحریک پاکستان کے ساتھ تعلق مثبت تھایا منفی، اس سے قطع نظر راقم کو ا س پر فخر ہے کہ تحریک پاکستان کے ننھے کارکنوں میں اس کا نام بھی شامل ہے اور یہ کیسے نہ ہوتا جب کہ راقم کے شعور کی سب سے زیریں اور تحتانی سطح پر، جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے، سب سے گہرے اور انمٹ نقوش ثبت تھے مصورِ پاکستان علامہ اقبال مرحوم کی ملی شاعری کے. ساتھ ہی یہ عرض کر دوں کہ پاکستان میں آزادی کے بعد سے اب تک جو حالات رُونما ہوئے اُن کی بناء پر کبھی کبھی مایوسی کی شدت کے عالم میں دوسرے بہت سے لوگوں کی مانند میرے ذہن و شعور کے سامنے بھی یہ سوالیہ نشان اُبھرا کہ پاکستان کا قیام دُرست اقدام تھا بھی کہ نہیں؟ لیکن الحمد للہ کہ ہمیشہ صورت یہ رہی کہ جب بھیمیں نے از سرِ نو صغریٰ کبریٰ جوڑ کر حساب لگایا نتیجہ یہی برآمد ہوا کہ پاکستان کا قیام صحیح اور درست تھا. یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں ہم سے اجتماعی سطح پر کوتاہی کا صدور ہوا جس کی سزا ہمیں پہلے بھی بھگتنی پڑی اور تاحال بھی بھگتنی پڑ رہی ہے.
اِس ضمن میں ’’یادش بخیر‘‘ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم و مغفور کی مثال بہت اہم ہے. سب جانتے ہیں کہ وہ علامہ اقبال کے مصاحبین اور تحریک پاکستان کے شعلہ بیان مقررین میں نہایت اہم مرتبہ و مقام کے حامل تھے اور خود اُن کے قول کے مطابق قائداعظم سے اُن کا قریبی تعلق تھا، اور اُن کے اور متعدد مسلمان والیانِ ریاست کے مابین نجی پیغام رسانی اور چندوں کی رقوم کی ترسیل کا ذریعہ وہ تھے. اِسی طرح ازپشاور تا پونا جہاں بھی کبھی کوئی انتخابی معرکہ گرم ہوتا تھا اُن کو طلب کیا جاتا تھا. اُن کی ’’لیگیت‘‘ کی شدت کا اندازہ اِس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو خود انہوں نے بیان فرمایا کہ ایک موقع پر سیالکوٹ کے کسی دینی جلسے 
میں وہ بھی بحیثیت مقرر مدعو تھے اور مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ بھی. اور اتفاقاً دونوں کا قیام کسی ایک ہی مکان میں تھا. مولانا مدنی ؒ کو جب معلوم ہوا کہ چشتی صاحب بھی وہیں پر مقیم ہیں تو انہوں نے چشتی صاحب کو پیغام بھجوایا کہ وہ اُن سے ملاقات کے خواہشمند ہیں، لیکن اس پر چشتی صاحب کا جواب یہ تھا کہ میرے اور آپ کے راستے بالکل جدا بلکہ متضاد سمت میں ہیں، لہٰذا میں آپ سے ملاقات میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا. لیکن یہی پروفیسر یوسف سلیم چشتی پاکستان میں پیش آمدہ حالات و واقعات سے اس درجہ مایوس اور دل گرفتہ ہوئے کہ ۶۶ء کے بعد سے تو میں خود گواہ ہوں کہ اپنے انتقال کے وقت تک وہ برملا اِس رائے کا اظہار کرتے رہے کہ ؏ 

مری تعمیر میں مضمر تھی ایک صورت خرابی کیکے مصداق پاکستان کا قیام ہی غلط تھا. اور یہ کہ ’’ہم نے مسلم لیگ کا ساتھ دے کر جھک ماری اور بھاڑ جھونکا.‘‘ میرا چونکہ پروفیسر صاحب مرحوم کے ساتھ بھی گہری نیاز مندی کا تعلق رہا ہے، بلکہ منظر عام سے ایک طویل عرصہ کی ’’غیبوبت‘‘ کے بعد پبلک پلیٹ فارم پر اُن کا ظہور میری ہی قائم کردہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سالانہ کانفرنسوں کے ذریعے ہوا تھا اور مجھے اس اعتراف میں بھی کوئی باک نہیں ہے کہ میں نے اُن کے علم و فضل اور خصوصاً اُن کے وسیع خزانۂ معلومات سے بہت استفادہ کیا، اور اُن کے لیے میرے دل میں آج بھی ادب اور احترام بلکہ احسان مندی کے جذبات پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں. تاہم قیام پاکستان کے ضمن میں اُن کی رائے کی تبدیلی اور اُس میں اس قدر شدت میری دانست میں ہر گز درست نہیں تھی، بلکہ اُن کے مزاج کی اسی جذباتیت اور حساسیت کا مظہر تھی جو بالعموم شدت اخلاص کا نتیجہ ہوتی ہے. البتہ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی شان میں اپنے مزاج کی اسی جذباتیت کے باعث جن گستاخیوں کا ارتکاب اُن سے مسلم لیگ کے ساتھ عملی وابستگی کے دَوران ہو گیا تھا اُن پر اُن کی پشیمانی اور توبہ و استغفار یقینا درست تھا. اس لیے کہ محض سیاسی اختلاف پر کسی کے خلوص و اخلاص پر حملہ کرنا بالخصوص مولانا مدنی ؒ ایسی عظیم دینی و روحانی شخصیت کی شان میں گستاخی کا ارتکاب یقینا بہت بڑی غلطی تھی. چنانچہ اس موضوع پر اُن کی ایک طویل تحریر جسے مولانا مدنی ؒ کے حلقہ ارادت سے تعلق رکھنے والے جرائد بھی شائع کرنے میں متامل و متردد تھے، اولاً میں نے ہی ’’میثاق‘‘ (شمارہ جنوری ۷۲ئ) میں شائع کی تھی.
پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب پر تو قیام پاکستان کے بعد کے حالات و واقعات کی بناء پر مایوسانہ ردّ عمل کی کیفیت مستقل طورپر قائم ہو گئی تھی. تحریک پاکستان کے مخلص اور بے لوث کارکنوں میں ایسی 
اور بھی بہت سی مثالیں لازماً موجود ہوں گی، لیکن جہاں تک مختلف مواقع پر عارضی مایوسی اور بددلی کا تعلق ہے تو اس کی مثالیں تو بے شمار ہیں. چنانچہ پاکستان کے پہلے اور آخری شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ سے بھی بہت سے مایوسانہ اقوال منسوب کیے جاتے ہیں، اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کے عہد حکومت میں فروری ۶۸ء میں عید کے چاند کے ضمن میں جو اختلاف اور اس سے پیدا شدہ ہنگامۂ دار و گیر برپا ہوا تھا، اُس کے موقع پر خود راقم نے مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم ایسے کٹر مسلم لیگی کی زبان سے یہ الفاظ جامعہ اشرفیہ لاہور کے ایک اجتماع میں سنے تھے کہ ’’اب جو حالات پیش آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر تو خیال ہوتا ہے کہ غالباً اُن علماء کرام کی رائے زیادہ درست اور صائب تھی جو قیام پاکستان کے خلاف تھے.‘‘

اِس ضمن میں ہر اعتبار سے ’’آخری‘‘ مثال پروفیسر مرزا محمد منور کی ہے جو ازسرتاپا از ظاہر تا باطن اور از اوّل تا آخر خالص مسلم لیگی او رپاکستانی ہیں. ۶۹/۷۰ء میں جو حالات و واقعات پاکستان میں رونما ہوئے اُن سے وہ بھی وقتی طور پر اِس درجہ مایوس اور دلگیر ہوئے کہ انہوں نے ایک فارسی غزل لکھی جس کا عنوان ہی یہ تھا کہ ؏ 

کہ رہو ارِ یقین مابہ صحرائے گماں گم شد

اس غزل کو راقم نے اوّلاً اگست ۷۰ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا تھا اور بطور قند مکرر دوبارہ ۸۲ء میں یعنی ٹھیک بارہ سال بعد شائع کیا. اپنی اس غزل پر ایک تعارفی نوٹ بھی مرزا صاحب نے خود اپنے قلم سے تحریر فرمایا تھا. ملاحظہ ہو:

’’غزل کا پس منظر سیاسی ہے. برصغیر تقسیم ہوا. بڑی نیک خواہشات کے ساتھ مسلم قوم نے تقسیم کی تحریک کے ساتھ تعاون کیا تھا، مگر بوجوہ نتائج حسب تمنا برآمد نہ ہوئے. جب بھی کوئی بہتری کی صور ت پیدا ہوتی ساتھ ہی ساتھ کوئی خرابی بھی در آتی. اے کاش! قائداعظم کی طرح کا کوئی ’’مردامین‘‘ پھر مل جاتا. منور.‘‘

غزل خاصی طویل تھی لیکن اُس کا لُب لباب ان اشعار میں سامنے آ جاتا ہے کہ ؎

’’چہ دارد سعی ما سُودے نمی یا بیم مقصودے
کہ برگ و خس بیاور دیم و شاخ آشیاں گم شد
خنک روزے بود یا بیم اگر خضر ہدایت را
کہ رہوار یقین مابہ صحرائے گماں گم شد!!‘‘
(۱

الغرض! ملت اسلامیہ پاکستان گزشتہ ۳۸،۳۹ سالوں کے دوران ’’صحرائے تیہہ‘‘ میں بھٹکنے کی جس کیفیت سے دو چار رہی ہے اُسی کی بناء پر بہت سے مخلص لوگوں کے دلوں میں تو مایوسی کے شدید اندھیارے مستقل طور پر مسلط ہو گئے جس کے نتیجے میں وہ شدید ردّ عمل کا شکار ہو کر رہ گئے اور بہت سے دوسرے لوگوں کے دِلوں پر مختلف مواقع پر عارضی طور پر بددلی کی کیفیت طاری ہوتی رہی جس کے منحوس اثرات سے وہ اپنے آپ کو بدقت تمام ہی بچا سکے. اور ان مؤخر الذکر لوگوں میں ان سطور کا عاجز و حقیر راقم بھی شامل ہے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ کبھی تو ملت اسلامیہ پاکستان ہی نہیں موجودہ پوری عالمی اُمت مسلمہ کے مستقبل سے شدید مایوسی ہو جاتی ہے اور ایسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید سات آٹھ صدیوں بعد تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے والی ہے اور ؎

ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سےپاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کے مصداق قدرت ایک بار پھر پوری موجودہ امت مسلمہ کو ’’رد‘‘ کر کے اسلام کا جھنڈا کسی نئی قوم کے ہاتھوں میں تھمانے والی ہے. کبھی پھر اُمید کا دامن ہاتھ میں آ جاتا ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے بہتری کی توقع قائم ہو جاتی ہے. اب بھی حقیقت یہ ہے کہ جب بھی نگاہ حالات و واقعات کی جانب اُٹھتی ہے مایوسی اور نا اُمیدی کی شدت کے باعث اُمید کا دامن ہاتھ سے بالکل ؏ 

’’کہ دامانِ خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے!‘‘

کی سی کیفیت کے ساتھ چھوٹتا محسوس ہوتا ہے. لیکن جب ذہن ارادہ و مشیت ایزدی کے مظہر خرقِ عادت واقعات کی ایک مسلسل زنجیر کی جانب منتقل ہوتا ہے تو امید کے نئے چراغ دل میں روشن ہو جاتے ہیں اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ پاکستان کا ظہور اسلام کے ا ُس عالمی غلبے کی خدائی تدبیر کے طویل المیعاد سلسلے کی اہم کڑی ہے، جس کی خبر جناب صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی! 
(۱) ہماری سعی و کوشش کا کیا حاصل! کہ پوری کوشش کے باوجود ہم اپنے مقصود کو حاصل نہیں کر پاتے. صورتِ حال یہ ہے کہ ہم آشیانہ بنانے کے لیے تنکے او رپتے جمع کرتے ہیں تو اس شاخ ہی کو گم پاتے ہیں جس پر آشیانہ تعمیر کرنا تھا. وہ دن کتنا دلفریب ہو گا جب ہمیں کوئی خضر ہدایت میسر آئے گا ،کیونکہ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ ہمارے یقین کار ہوا ر صحرائے گماں میں گم ہو چکا ہے. گویا اِن سطور کو ناچیز راقم اپنے شعور کے بالکل آغاز ہی سے ’’پاکستانی‘‘ ہے اور عارضی اور وقتی طور پر پے در پے مایوسیوں اور ناامیدیوں سے دو چار ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے تابناک مستقبل اور شاندار تقدیر (Destiny) پر یقین رکھتا ہے. اگرچہ ظاہر ہے کہ اُس منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان اور بالخصوص اُس کی نوجوان نسل کو شدید محنت و مشقت او رپیہم جدوجہد کرنی ہو گی اور سخت ابتلا و امتحان اور ایثار و قربانی کے مراحل طے کرنے ہوں گے. بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ ؎

’’بقدر الکد تکتب المعالی ومن طلب العلٰی سھر اللیالی
ومن طلب العلٰی من غیر کدٍّ اضاع العُمُرَ فی طلب المحال‘‘