عربی مقولے ’’تُعْرَفُ الْاَشْیَائُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ (چیزوں کی حقیقی معرفت اُن کی مخالف اور متضاد اشیاء کے حوالے سے حاصل ہوتی ہے) کے مطابق اپنی اس حالت کا موازنہ کیجئے بھارت کے ساتھ، جو پاکستان کا پیدائشی دشمن ہے. اس لیے کہ اُس نے ذہناً اور قلباً پاکستان کو ایک دن کے لیے بھی قبول نہیں کیا. کون نہیں جانتا کہ ہندوئوں کے نقطۂ نظر سے بھارت کی موجودہ تقسیم عارضی ہے اور اُن کے دِلوں میں اس اُمید کے چراغ روشن ہیں کہ وہ دن زیادہ دُور نہیں جب بھارت پھر ’’اکھنڈ‘‘ ہو جائے گا. اُن کے صحافی اور دانشور پاکستان آ کر برملا کہتے ہیں کہ ’’ہم نے پاکستان کوتو ضرور تسلیم کیا ہے، لیکن نظریۂ پاکستان کو ہر گز تسلیم نہیں کیا.‘‘ یہ گویا نہایت لطیف اور ڈپلومیٹک انداز ہے یہ کہنے کا کہ ہم پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے.
غور طلب امر ہے کہ بھارت بھی ہمارے ہی ساتھ____ بلکہ ہم سے ایک دن بعدآزاد ہواتھا لیکن اُس نے جھٹ پٹ دستور بنایا اور اس کی گاڑی ایمرجنسی کے ایک مختصر سے وقفے کے سوا چالیس سال ہونے کو آئے کہ کبھی اُس دستور کی پٹڑی سے نہیں اتری. حالانکہ وہ اگر ہم سے دس گنا بڑا ہے تو اُس کے مسائل ہم سے پچاس گنا زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر ہیں. چنانچہ تسلی و لسانی اور تہذیبی و ثقافتی تقسیم تو وہاں پاکستان کے مقابلے میں کم از کم دس گنا زیادہ ہے ہی، اس پر مستزاد ہے وہ مذہبی تقسیم جس نے وہاں کے مسائل کو مزید کئی گنا زیادہ کر دیا ہے. جب کہ ہمارے یہاں کم از کم اس ’’بچے کھچے پاکستان‘‘ (What Remains of Pakistan) میں یہ عامل نہ ہونے کے برابر ہے____الغرض معاملہوہی ہے کہ ؎
دیکھ کعبے میں شکست رشتہ تسبیح شیخ!
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ!
آئینی اور دستوری سطح پر بھارت کی اِس ’’پختہ زناری‘‘ کے ساتھ ساتھ ایک نظر ڈالیے اُ سکی صنعتی اور عسکری ترقی پر جس نے اُسے اِس علاقے کی چھوٹی سپر پاور کا درجہ دے دیا ہے. اور غور کیجئے اِس واقعی صورت حال پر کہ دونوں عالمی طاقتیں اُس کی خوشنودی کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں. چنانچہ جناب آغا شاہی جو غالباً پاکستان کی تاریخ میںطویل ترین عرصے تک پاکستان کے وزیر خارجہ رہے ہیں، اپنی ایک تحریر میں صاف لکھ چکے ہیں کہ راجیو گاندھی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر یہ طے پا گیا ہے کہ امریکہ بھارت کو جنوبی ایشیا کی منی سپر پاور(Mini Super Power) تسلیم کرتا ہے اور اُس کی حیثیت کو کسی بھی اعتبار سے نہ چیلنج کرے گا نہ مجروح کرنے کی کوشش کرے گا. چنانچہ وہ وقت قریب ہے کہ امریکہ پاکستان کو مجبور کرے گا کہ وہ بھارت کے ساتھ اُس کی شرائط پر صلح کرے. الغرض! بھارت کا یہ ’’استحکام‘‘ بھی پاکستان کے ’’عدم استحکام‘‘ کے ضمن میں ایک تقویتی عامل کی حیثیت رکھتا ہے.