کسی ملک کو تقویت دینے والا دوسرا عامل جغرافیائی ہے. سب جانتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی سرحدیں فطری جغرافیائی حدود (Natural Geographical Boundaries) کی صورت میں ہوں تو اِس سے بھی اُس ملک کو ایک گونہ حفاظت حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقویت کی موجب اور اُس کے دفاع میں ممدومعاون ہوتی ہے. کلام اقبال کے پہلے اُردو مجموعے کی پہلی نظم کے پہلے شعر میں یہ حقیقت بڑی خوبصورتی کے ساتھ سامنے آتی ہے. یعنی ؎
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں!
چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ موجودہ ساری سائنسی اور تکنیکی ترقی کے باوجود کوہِ ہمالیہ کی حیثیت بھارت کے شمال میں ایک فصیل کی سی ہے. اور اگرچہ تقسیم ہند کے بعد ہمالیہ کے انتہائی مشرقی حصے میں چین اور بھارت کے مابین ایک خونریز جھڑپ ہو چکی ہے، جو نتائج کے اعتبار سے بھارت کے لیے نہایت ذلت آمیز اور رُسواکن ثابت ہوئی تھی. تاہم اس سے پہلے کی پوری تاریخ ایسے کسی واقعے سے بالکل خالی ہے اور اب بھی بھارت کو اِس جانب سے اندیشہ بہت کم ہے.
اسی طرح ۶۵ء کی جنگ کے ضمن میں ہمیں خود یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ کس طرح ایک وقتی سے جوش اور جذبے کے تحت وجود میں آنے والی بی آر بی کینال بھارت کے بھر پور حملے کے مقابلے میں لاہور کی حفاظت کا ذریعہ بن گئی تھی.
اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو ۴۷ء میں قائم ہونے والا اصل پاکستان تو واقعتا تاریخ کا ایک انوکھا تجربہ نظر آتا ہے، اِس لیے کہ وہ ایسے دو خطوں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر واقع تھے اور اُن کے درمیان سمندر نہیں تھا، بلکہ وہ ملک تھا جس کی مستقل حیثیت ’’دشمن کے علاقے‘‘ (Hostile Territory) کی تھی. اور غریب مشرقی پاکستان تو تین اطراف سے اُس دشمن کے علاقے میں اِس طرح گھرا ہوا تھا کہ کسی جانب بھی کسی فطری و طبعی آڑ (Natural Barrier) کا وجود نہ تھاـ.
مشرقی پاکستان کے مسئلے کو علیحدہ رکھتے ہوئے، موجودہ پاکستان کا حال بھی یہ ہے کہ اِسے کسی طبعی اور فطری سرحدوں کا تحفظ کسی درجے میں حاصل ہے بھی تو وہ شمال، جنوب اور مغرب میں ہے. یعنی شمال میں وہی کوہِ ہمالیہ اور کوہ قراقرم، جنوب میں سمندر اور مغرب میں کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ، جہاں تک اس کی طویل ترین مشرقی سرحد کا تعلق ہے، جدھر سے اِسے سب سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے اُدھر کسی فطری و طبعی سرحد کا نشان تک موجود نہیں، چنانچہ پنجاب کا میدان اِس طرح کاٹا گیا ہے جیسے کیک کاٹا جاتا ہے، اور اگر خار دار تاروں کی کوئی باڑ موجود نہ ہو تو معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ کہاں ایک ملک ختم ہو گیا اور دوسرا شروع ہو گیا. رہا سابق ریاست بہاولپور اور پھر سندھ کے ریگزار اور صحرا کا تعلق تو اُس کے ٹیلے تو خود ہی اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتے جاتے رہتے ہیں، وہ کیا نشان بنیں گے اور کیا حفاظت کریں گے. ؏ اوخویشتن گم است کرا رہبری کند
الغرض! جغرافیہ بھی ہمارا پشت پناہ نہیں ہے بلکہ ہمارے خلاف ہے.