دوسری اہم اور بنیادی بات جو اُس مذہبی جذبے کے بارے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے جو پاکستان کے بقاء و استحکام کے لیے ٹھوس بنیاد بن سکے، یہ ہے کہ وہ اسلام کی کسی جدید دانشورانہ تعبیر کے ذریعے پیدا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اُس کے لیے اسلام کی صرف وہی تعبیر مؤثر اور کارگر ہو گی جو صدیوں کے تعامل اور ’’روایت‘‘ کی بناء پر مسلمانوں کے ’’اجتماعی شعور‘‘ (Collective Consciousness) کا جزو لاینفک بن چکی ہے، اور جسے اُن علماء کرام کی تصدیق حاصل ہے جن پر دین و مذہب کے معاملے میں مسلمان عوام کی عظیم اکثریت اعتماد کرتی ہے. اس لیے کہ موضوع زیر بحث کے اعتبار سے ہم ایک ایسے جذبے کی بات کر رہے ہیں، جو عوام میں ذہنی، فکری اور جذباتی ہم آہنگی پیدا کرے اور اُن کو محنت و مشقت اور ایثار و قربانی پر آمادہ (Motivate) کر سکے اور ظاہر ہے کہ یہ مقصد کسی جدید تعبیر کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا. اِس لیے کہ جدید تعبیرات اور دانشورانہ تصورات تو زیادہ سے زیادہ ذہین اقلیت (Intellectual Minority) ، بلکہ اُس کے بھی ایک حصے ہی کو متاثر کر سکتے ہیں، عوام کے قلوب واذہان کو بڑے پیمانے پر مسخر نہیں کر سکتے ____ اور جب تک جذبہ و امنگ کا عوامی سطح پر ظہور نہ ہو ہمارا مقصود، یعنی پاکستان کے مسلمانوں کا ایک بنیانِ مرصوص بن کر ناقابل تسخیر قوت کی صورت اختیار کر لینا، حاصل نہیں ہو سکتا.
اِس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ بہت سے بدنما داغوں اور دھبوں کے باوجود بالکل ’’تاریک‘‘ نہیں ہے، اور اس کے دَوران سیاسی مدوجذر اور حکومتی سطح پر ردّ وبدل، تھوڑ پھوڑ اور آمد و رفت کے باوصف ایک تہذیبی اور ثقافتی تسلسل موجود رہا ہے، جس میں اصل عمل دخل دو طبقوں کے اثر و نفوذ کو حاصل رہا ہے: ایک علماء کرام اور دوسرے صوفیاء عظام. اور خواہ مسلمانوں کے جسموں پر حکومت امراء و سلاطین کی رہی ہو اُن کے قلوب و اذہان اور احساسات و جذبات پر علماء اور صوفیاء ہی کی سیادت و قیادت کا سکہ چلتا رہا ہے، اور اجتماعیات و عمرانیات پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہ کیفیت پورے عالم اسلام کی بہ نسبت مسلمانانِ برصغیر میں شدید ترین صورت میں موجود ہے. اور یہاں کا مسلمان خواہ کسی خارجی جبر کے باعث یا نفس امارہ کے داخلی دبائو کے تحت خود اس اسلام پر پوری طرح عمل پیرا اور کاربند نہ ہو جو علماء کرام پیش کرتے ہیں لیکن دل کی گہرائیوں سے قائل اُسی کا ہے .اور یہ صرف چودھویں صدی ہجری کے نصف کے بعد ہوا کہ مسلمانوں کی عوامی سیاست کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو دین ومذہب سے کوئی گہرا عملی لگاؤ نہیں رکھتے تھے، تاہم اِس سلسلے میں بھی یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ اس قیادت کو عملاً عوامی پذیرائی اُس وقت حاصل ہوئی جب اُسے مسلمہ حیثیت کے حامل مشائخ اور علماء کی معتدبہ تعداد کی تصدیق اور سند حاصل ہو گئی____ بنابریں وہ مذہبی جذبہ جو پاکستان کے بقا و دوام اور ترقی و استحکام کا ضامن بن سکتا ہے، نہ دین و مذہب کی کسی جدید تعبیر کی بنیاد پر پیدا ہو سکتا ہے، نہ کسی نئے دانشورانہ تصور کی اساس پر. بلکہ اس کی پیدائش و افزائش کا کوئی امکان اگر ہے تو دین و مذہب کے صرف اور صرف اُن تصورات اور تعبیرات کی بناء پر ہے جن کی ’’اسلامیت‘‘ نہ صرف یہ کہ مسلمان عوام کے اجتماعی شعور کے نزدیک مسلم اور قابل قبول ہو بلکہ اُن کے تحت الشعور میں رچی بسی ہو، حتیٰ کہ اُن کے لاشعور تک میں نفوذ کیے ہوئے ہو. اور اس میں ہرگز کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ تعبیرات اور تصورات وہی ہو سکتے ہیں جنہیں علماء کی تصدیق حاصل ہو.
اس سلسلے میں اِس خیال کو بھی دل سے نکال دیا جائے کہ علماء تو خود آپس میں دست و گریباں ہیں اور اُن کے درمیان اتنے شدید اختلافات موجود ہیں کہ خود جمع نہیں ہو سکتے تو اُن کے مصدقہ تصورات قوم کو کیسے جمع کر دیں گے؟ اِس لیے کہ اگرچہ اس حقیقت سے توکلی انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے یہاں جہاں علمائے حق معتدبہ تعداد میں موجود ہیں، وہاں ایسے ’’علماءِ سوء‘‘ کی بھی یقینا کمی نہیں ہے جو خالصتاً ’’بغیاً بَیْنَھُمْ‘‘ کی بناء پر (۱) یعنی آپس کی ضدم ضدا اور ایک د وسرے پر برتری اورفوقیت کے حصول کے لیے مسلمانوں کے فروعی اختلافات کو اُبھارتے ہیں اور اُنہیں آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، تاہم پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ کے دَوران بحیثیت مجموعی علماء کرام کا کردار مثبت اور منفی دونوں اعتبارات سے یعنی مثبت طور پاکستان میں اسلامی دستور و قانون کے نفاذ و اجراء اور منفی اعتبار سے اسلام کے مسلمہ اعتقادات و تعلیمات کے خلاف اُٹھنے والے فتنوں کے سدّباب دونوں پہلوؤں سے ہرگز مایوس کن نہیں بلکہ بحمد اللہ نہایت روشن اور تابناک رہا ہے. چنانچہ ایک جانب جب دستور سازی کے ضمن میں ایوانِ اقتدار سے یہ شوشہ چھوڑ گیا کہ پاکستان میں کس کا اسلام نافذ کیا جائے، شیعہ یا سنی کا؟ اہل حدیث کا یا حنفی کا؟ اور بریلوی کا یا دیو بندی کا؟ تو اس چیلنج کے جواب میں جملہ مکاتب فکر کے ۳۱سربرآوردہ علماءِ کرام نے کامل اتفاق رائے کے ساتھ ۲۲ نکاتی فارمولا پیش کر کے وہ حجت قاطع قائم کر دی تھی جو اَب تک قائم ہے اور جس کا جواب بعد میں کسی سے بھی بن نہیں آیا____اِسی طرح عقیدۂ ختم نبوت کی فصیل میں نقب لگانے والوں کے خلاف ۱۸۵۳ء اور ۱۹۷۴ء میں دوبار جملہ مسلکوں اور فرقوں کے علماء کرام نے جس اتحاد واتفاق کا ثبوت دیا وہ بھی ہماری تاریخ کا نہایت تابندہ و درخشندہ باب ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بالکل یہی کیفیت ہمارے یہاں فتنۂ انکارِ حدیث کے ضمن میں بھی پائی جاتی (۱) یہ الفاظ قرآنِ حکیم میں چار مقامات پر باہمی جنگ و جدال اور تشتت و انتشار کے اصل سبب کی تعیین کے ضمن میں وارد ہوئے ہیں(دیکھیے سورۂ بقرہ آیت نمبر۲۱۳، سورۂ آل عمران آیت نمبر۱۹، سورۂ شوریٰ آیت نمبر۱۴، اور سورۂ جاثیہ آیت نمبر ۱۷۰) ہے (۱) ____ایک اتنی ہی عظیم مثال یہ بھی ہے کہ ۱۹۶۱ء میں جب منکرین حدیث و سنت، دلدادگان اباحیت____اور قائلین نظریۂ مساوات مردوزن کے دباؤ کے تحت سابق صدر ایوب خان نے بدنام زمانہ عائلی قوانین نافذ کیے، تو ان کے خلاف شیعہ و سنی، اہل حدیث و حنفی، اور دیوبندی و بریلوی جملہ مکاتب فکر کے بارہ چوٹی کے علماء ومجتہدین کے علاوہ جماعت اسلامی کے سربراہ اور بعض دوسرے ملی رہنماؤں نے ایک طویل تنقیدی تحریر پر دستخط ثبت کر کے فرقہ وارانہ اختلافات کے غبارے میں سے ہوا نکال کر رکھ دی تھی.
____ اِس پر مستزاد ہیں یہ دو مثالیں کہ اوّلاً آج سے تین چار سال قبل جب راقم کے ایک اخباری انٹرویو میں سترو حجاب سے متعلق اسلام کے احکام بیان ہوئے اور اُس پر ملک بھر میں اباحیت پسند اور مغرب زدہ خواتین و حضرات نے طوفان برپا کر دیا تو بلالحاظِ مسلک و مشرب پاکستان کی ہر مسجد کے محراب و منبر سے میری تائید میں آواز بلند ہوئی. اور اگرچہ جدید دانشور حضرات و خواتین نے میرے خلاف مضامین کا طومار باندھ دیا جو قومی اخبارات کے رنگین صفحات میں جلی سرخیوں اور دیدہ زیب حاشیوں کے ساتھ شائع ہوئے، لیکن بالآخر خود اِسی حلقے کے ایک نمایاں دانشور اور صحافی (جناب صفدر میر) کو یہ کہنا پڑا کہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار نے حصولِ مقبولیت کے فن پر بہت کتابیں پڑھی ہیں، تو اِس سے قطع نظر کہ راقم نے زندگی بھر اِس موضوع پر کوئی کتاب پڑھنا تو کجا دیکھی بھی نہیں____اُن کے یہ الفاظ در حقیقت مظہر ہیں اُن کے اِس اعتراف کا کہ پاکستان کے مسلمان عوام خواہ خود اُس پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہوں، لیکن بہرحال قائل اُسی اسلام کے ہیں جسے علماء کرام کی تائید و توثیق حاصل ہے. ثانیاً جب ملک میں قانونِ شہادت اور قانون قصاص ودیت کی بحث چھڑی تو اُس کے ضمن میں پھر یہ بات الم نشرح ہو گئی کہ علماء کرام اپنے تمام تر اختلافات کے علی الرغم اسلامی قانون اور اُس کی فروعات تک کے ضمن میں بالکل متحد و متفق ہیں. حتیٰ کہ ایک خاص مکتب فکر کے چوٹی کے علماء نے ایک ایسے جدید دانشور کی تردید و تغلیظ میں بھی کوئی تامل نہیں کیا جو اپنے آپ کو خود اُنہی کی جانب منسوب کرتے ہیں! قصۂ مختصر یہ کہ پاکستان کے مسلمان عوام کی عظیم اکثریت کو آمادۂ عمل (Motivate) کر کے اُنہیں
(۱) ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو اِن دونوں فتنوں کے ڈانڈے باہم ملے ہوئے نظر آئیں گے. اِس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارک پر نبوت و رسالت کا خاتمہ و تکمیل اور اُس کے لازمی منطقی نتیجے کے طور پر اب ابدالآباد تک آپ ؐ کی سنت کی حجیت اور آپؐ کے اتباع کا لزوم ہی تجدد پسندی اور مغرب پرستی کی راہ کے اصل پتھر ہیں ، اور یہ دونوں فتنے در حقیقت ان ہی سے گلو خلاصی کی دو بظاہر قدرے مختلف صورتیں ہیں. ایک بنیانِ مرصوص اور ناقابلِ تسخیر قوت بنا دینے کی صلاحیت و استعداد صرف اُس مذہبی جذبہ میں ہے جو اسلام کے اُس تصور کی بنیاد پر اُبھرے جسے علماءِ کرام کی تصدیق و تصویب حاصل ہو.