اور یقینا علامہ اقبال مرحوم نے بھی ؎
’’آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب!‘‘
کے مصداق باطن کی آنکھ سے اُسی ’’آنے والے دَور کی دھندلی سی اک تصویر‘‘ دیکھ لی تھی، جب یہ فرمایا تھا کہ: ؎
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
(۱) وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ۱اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دِلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے