اِس کتاب کے مقدمے میں اُس حدیث نبویؐ کا ذکر آ چکا ہے جسے امام ترمذی ؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور جس کی رُو سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’میری اُمت پر بھی وہ تمام احوال لازماً وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے، بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہہ ہوتی ہے.‘‘ اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں غور فرمایئے سورہ ٔبنی اسرائیل کی آیات ۴ تا۱۰ پر، جو درج ذیل ہیں:
وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا ﴿۵﴾ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا ﴿۶﴾اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ﴿۷﴾عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو (اپنی) کتاب میں (پہلے ہی) متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی کامظاہرہ کرو گے! تو جب آن پہنچا اُن دو مواقع میں سے پہلے کا وقت تو مسلط کر دیتے ہم نے تم پر اپنے نہایت جنگجو بندے جو گھس گئے ہر جانب تمہاری آبادیوں میں، اِس طرح وہ اٹل وعدہ پورا ہو کر رہا. پھر ہم نے لوٹائی تمہاری باری اُن پر اور مدد کی تمہاری اموال و اولاد سے اور کر دی تمہاری تعداد بہت کثیر، اگر تم نے بھلا کیا تو اپنے ہی لیے کیا اور اگر برا کیا تو بھی اپنے ہی لیے. پھر جب آن پہنچا دوسرے وعدہ کا وقت (تو ہم نے پھر کسی قوم کو تم پر مسلط کیا)، تاکہ وہ بگاڑ دیں تمہارے حلیے اور گھس جائیں مسجد (ہیکل سلیمانی) میں جیسے گھسے تھے پہلی بار، اور تہس نہس کر ڈالیں ہر اُس چیز کو جس پر اُن کو قابو حاصل ہو جائے. (اب بھی) بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے، لیکن اگر تم پھر وہی روش اختیار کرو گے جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا اِنَّ ہٰذَا اْلُقْراٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرً کَبِیْرًا ۴وَاَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا تو ہم بھی دوبارہ پہلی سی سزا دیں گے، (رہی آخرت تو اُس میں تو) ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہی ہوا ہے. یقینا یہ قرآن رہنمائی فرماتا ہے سب سے سیدھی راہ کی جانب اور بشارت دیتا ہے اُن ایمان لانے والوں کو جو نیک اعمال (بھی) کریں کہ اُن کے لیے ہے بہت بڑا اجر و ثواب اور یقینا جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب مہیا کیا ہے.‘‘
ان آیاتِ مبارکہ سے تاریخ بنی اسرائیل کے ضمن میں حسب ذیل حقائق واضح ہوتے ہیں:
۱) قرآنِ حکیم کے نزول کے زمانے تک بنی اسرائیل پر چار دور گذر چکے تھے: دو دور عروج کے جن کے دَوران اُن کا طرزِ عمل بھی دینی و اخلاقی اعتبار سی درست رہا اور انہیں دنیا میں عزت و سر بلندی بھی حاصل رہی اور وہ کثرت اموال و اولاد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھی بہرہ ور رہے____ اوردو دور زوال کے جن کے دوران انہوں نے نفس پرستی اور بغاوت کی روش اختیار کی، نتیجتاً اُن پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور غیر اقوام کے ہاتھوں خوہ کود بھی ذلیل و خوار اور مفتوح و مغلوب ہوئے اور اُن کے دینی و روحانی مرکز یعنی ہیکل سلیمانی کی حرمت بھی پامال ہوئی.
۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآنِ حکیم کے نزول کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے ایک تیسرے عروج کا موقع عنایت فرمایا کہ ان کا دامن تھام کر اللہ کی رحمت کے سائے میں آ جائیں، ساتھ ہی یہ وعید بھی سنا دی گئی کہ اگر اس سے اعراض و انکار کی روش اختیار کریں گے تو عذابِ الٰہی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا.
قرآن حکیم کے اِن اشارات کی روشنی میں تاریخ بنی اسرائیل کا جائزہ لیا جائے تو حسب ذیل چار ادوار اُبھر کر نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں:
۱) اُن کے پہلے دورِ عروج کا آغاز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اوّل حضرت یوشع بن نون ؒ کی قیادت میں فلسطین کی فتح سے ہوا اور تقریباً تین سو سال تک نشیب و فراز کے مراحل طے کرتا ہوا یہ دورِ سعادت حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے عہد حکومت میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا، جو تاریخ بنی اسرائیل کے عہد زریں کی حیثیت رکھتا ہے.
۲) حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی اُن کے پہلے دورِ زوال کا آغاز ہو گیا، اِس لیے کہ فوراً ہی اُن کی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہو گئی. بہرحال تقریباً تین سو سال ہی میں یہ عہد زوال بھی اپنے نقطۂ عروج (Climax) کو پہنچا. چنانچہ اس کے دوران اوّلاً شمال سے آشوریوں نے شمالی سلطنت ’’اسرائیل‘‘ کو تاخت و تاراج کیا اور بالآخر ۵۸۷ء قبل مسیح علیہ السلام میں مشرق (عراق) سے آنے والے بنو قد نضر کے حملے نے نہ صرف یہ کہ پوری جنوبی سلطنت ’’یہودیہ‘‘ کو تہس نہس کر کے رکھ دیا بلکہ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، لاکھوں افراد کو قتل کیا، چھ لاکھ یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں کی طرح ہانکتا ہوا بابل لے گیا____ اورسب سے بڑھ کر یہ ہیکل سلیمانی کو کلیتہً مسمار کر دیا، حتیٰ کہ اُس کی بنیادیں تک کھود ڈالیں____ بابل کی لگ بھگ سو سالہ اسیری (Captivity) کا دَور بنی اسرائیل کی ذلت و رسوائی کا شدید ترین زمانہ ہے.
۳ ) بنی اسرائیل کے دوسرے دورِ عروج کا آغاز بابل کی اسیری سے شہنشاہ فارس سائرس یا کیخورس یا ذوالقرنین کے ہاتھوں نجات کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل حضرت عزیر علیہ السلام کی تجدیدی و اصلاح مساعی سے ہوا اور دوسری خوشحالی یا سر بلندی کا یہ دور بھی لگ بھگ تین سو سال جاری رہا اور اِس کا مظہر اعظم وہ مکابی سلطنت تھی، جو تقریباً ۱۷۰ ق م سے ۶۷ ق م تک نہایت دبدبہ اور شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی اور جس نے ایک بار پھر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دَور کی یاد تازہ کر دی.
۴ ) بنی اسرائیل کا دوسرا دورِ زوال ۶۳ ق م میں رومی فاتح پومپئی کے ہاتھوں یروشلم کی فتح سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے. اِس کے دوران اوّلاً حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت سے اعراض و انکار اور اُن کی شدید دشمنی اور مخالفت کی سزا ۷۰ء میں رومی جرنیل ٹائیٹس کے ذریعے ملی، جس نے دوبارہ یروشلم شہر اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کیا اور ایک دن میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار یہودیوں کو تہہ تیغ کیا اور ۶۷ہزار کو غلام بنا لیا____ اِس کے بعد وقتاً فوقتاً اُن پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برستے رہے جن میں تازہ ترین جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں اُن کا قتل عام ہے، جس کی یاد وہ (Holocaust) نامی پکچر کے ذریعے وقتاً فوقتاً تازہ کرتے رہتے ہیں.
۵) حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ یہود کے طرزِ عمل کی بناء پر جو مستقل ذلت و مسکنت اُن پر مسلط کر دی گئی تھی اُس سے رستگاری حاصل کرنے کا جو موقع اُنہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنّ اللّٰہِ (۱) کے مطابق جناب رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دامانِ رحمت کے سائے میں آ جانے اور رحمان کی رحمانیت کے مظہر اتم اور حبل اللہ المتین کے مصداق کامل قرآن کو مضبوطی سے تھام لینے کی صورت میں ملا تھا اُسے تو انہوں نے اپنے تکبر وغرور کی بناء پر کھو دیا تھا____ اب بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں حَبْلٍ مِّنَ النَّاس کے مطابق مغربی سامراج کے سہارے اُن کی جو سلطنت قائم ہوئی ہے، قرآنِ حکیم کے اشارات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح پیشینگوئیوں پر یقین رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اُس کی اصل حیثیت گل ہونے والے شعلے کی آخری بھڑک اور قریب المرگ مریض کے آخری سنبھالے کے سوا کچھ نہیں. اور قدرتِ خداوندی نے موجودہ سلطنت اسرائیل کے ذریعے تمام یہودیوں کو رُوئے ارضی کے کونے کونے سے کھینچ کر ارض فلسطین میں جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے تاکہ اُن کا آخری استیصال (Final Extermination اور اجتماعی تدفین (Mass Burrial) ایک ہی مقام پر بسہولت ہو جائے. (۱) ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَاثُقِفُوْا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآئُ وْبِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الْمُسْکَنَۃُ۱ (سورۂ آل عمران آیت:۱۱۲)
’’جمادی گئی اُن پر ذلت جہاں کہیں بھی پائے جاویں گے مگر ہاں! ایک تو ایسے ذریعے سے جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعے سے جو آدمیوں کی طرف سے ہے اور مستحق ہو گئے غضب الٰہی کے اور جمادی گئی اُن پر پستی.‘‘