اُمت مسلمہ اپنی چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران جس طرح دو بار عروج سے ہمکنار ہو چکی ہے اور دو ہی بار زوال سے دو چار ہو چکی ہے، اُس کا ذکر ؎

خوشترآں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید اور حدیث دیگراں!‘‘

کے مصداق سابقہ اُمت کی تاریخ کے حوالے سے نہایت وضاحت کے ساتھ ہو چکا ہے. اب اس سے قبل کہ ہم اُس تیسرے عروج کی جانب پیش قدمی کا جائزہ لیں، جس کا آغاز ہمارے مشاہدے کے مطابق تقریباً نصف صدی قبل ہوگیا تھا، آیئے کہ ایک طائرانہ نگاہ اسلام میں کارتجدید کی اہمیت و نوعیت اور خاص طور پر امت مسلمہ کی تاریخ کے دوسرے ہزار سالہ دور (الف ِثانی) میں تجدید و احیاء کے اس عمل کے بالکلیہ برصغیر پاک و ہند میں ارتکاز پر ڈال لیں. تاکہ اس تاریخی تناظر میں پاکستان کے کردار 
(Role) کی اہمیت پورے طور پر واضح ہو جائے. 

ختم نبوت سے پیدا شدہ خلا اور اُس کی تلافی کا اہتمام

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر نبوت و رسالت کے درجۂ کمال کو پہنچ کر اختتام پذیر ہوجانے سے جو خلا پیدا ہوا اُسے حکمت ِ خداوندی نے اِس طرح پُر فرمایا کہ:
اوّلاً____ ’’الہدیٰ‘‘یعنی قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کو کامل فرما دیا، یا یوں کہہ لیں کہ: 

وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ 
(سورۂ صف آیت نمبر : ۸
’’اللہ اپنے نور کا اِتمام فرما کر رہے گا.‘‘
کے مصداق نورِ ہدایت کا اِتمام فرما دیا اور پھر اُس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لے لیا. بفحوائے الفاظِ قرآنی: 
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَm (سورۂ حجر،آیت : ۹
’’ہم نے ہی اس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم خود ہی اس کے محافظ ہیں.‘‘

گویااب کسی نئی وحی یا نئے نبی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں رہی، بلکہ صرف اُس ’’نوعِ انسان را پیام آخریں!‘‘ یعنی قرآنِ حکیم کی دعوت و اشاعت اور تبلیغ و تعلیم کا کام رہ گیا جس کی ذمہ داری تا قیام قیامت اُمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دی گئی. چنانچہ اِس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب و تشویق کی انتہا کا مظہر تو آپؐ کا یہ قول مبارک ہے کہ: 

خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ 

’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں.‘‘ 
(۱

اورتاکید کی انتہا آپؐ کے اِس فرمان سے ظاہر ہے کہ: 

بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْاٰیَۃً 

’’پہنچائو میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت.‘‘ 
(۲

ثانیاً____ لگ بھگ ایک ایک صدی کے وقفہ سے ایسے عظیم مجد دین کا سلسلہ جاری فرما دیا جو درمیانی وقفے کے دوران پیدہ شدہ من گھڑت خیالات و عقائد اور نئی ایجاد شدہ بدعات و رسومات کا قلع قمع کر کے دین حق کی اصل تعلیمات کو از سر نو نکھار کو لوگوں کی نگاہوں کے سامنے لاتے رہیں، تاکہ ہدایت ربانی کے روئے انور پر جمع ہو جانے والا گرد و غبار وقتاً فوقتاً صاف ہوتا رہے اور وہ خلق خدا کے سامنے اپنی اصل شان کے ساتھ جلوہ آرا ہوتا رہے اور اِس طرح ہدایت کے طالب اور حق کے متلاشی لوگوں کو دین کی حقیقی تعلیمات اور فلاح و سعادتِ دارین سے ہمکنار کرنے والے ’’صراط مستقیم‘‘ تک رسائی میں دقت نہ ہو____!

اِسی کے ذیل میں ایک اضافی ضمانت اِس امر کی بھی دے دی گئی کہ دنیا اہل حق سے کبھی بالکل خالی ہو گی اور اُمت محمدؐ میں ہمیشہ کم از کم ایک گروہ یا جماعت لازماً حق پر قائم رہے گی. (ان دونوں کے باہمی ربط سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہو گا کہ ہر دَور کی تجدیدی و اصلاحی مساعی سے ایک 
(۱) رواہ البخاری ؒ عن عثمان ؓ ابن عفان (۲) رواہ البخاری ؒ عن عبداللہ ؓ ابن عمر ؓ جماعت اہل حق کی وجود میں آتی رہے گی جو لگ بھگ ایک صدی تک خلق خدا کی صحیح راستے کی جانب رہنمائی کرتی رہے گی____ تاآنکہ اِس عرصے میں وہ خود زوال سے دو چار ہو کر ایک ’’فرقہ‘‘ بن جائے اور پھر اللہ کسی اور صاحب دعوت و عزیمت کو اصلاح و تجدید کی توفیق عطا فرما کر کھڑا کر دے، واللہ اعلم.

کار تجدید اور سلسلہ مجددین کے ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظِ مبارکہ سنن ابی داؤد ؒ میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہیں وہ یہ ہیں: 

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِأتَہِ عَامٍ مَنْ یُجَدِّدُلَھَا دِیْنَھَا 

’’اللہ تعالیٰ اِس اُمت میں ہر صدی کے سرے پر ایسے لوگوں کو اُٹھاتا رہے گا جو اُس کے لیے اُس کے دین کو از سر نو تازہ کرتے رہیں گے.‘‘

اِس حدیث کی شرح و تفسیر میں دو امور پر علمائے اُمت کا تقریباً اجماع ہے: ایک یہ کہ سو سال سے مراد لازماً یہی مدت نہیں ہے، بلکہ یہ الفاظ صرف وقتاً فوقتاً کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بطورِ محاورہ استعمال ہوئے ہیں. اور دوسرے یہ کہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک صدی میں کوئی ایک ہی مجدد ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں متعدد اصحابِ ہمت وعزیمت اِس کام کے کرنے والے موجود ہوں____ بایں ہمہ حدیث نبویؐ کے ظاہری الفاظ کی رعایت سے ہر صدی ہجری کے ضمن میں کسی ایسی اہم ترین اور عظیم ترین شخصیت کی تعیین کی کوششیں بھی عموماً ہوتی رہی ہیں جسے اُس صدی کا مجدد قرار دیا جا سکے. 


’’الف ثانی‘‘ کی تجدیدی مساعی

اس تحریر میں ہمیں نہ اُمت مسلمہ کی تاریخ کے پہلے ایک ہزار سال کے دوران کے مجددین و مصلحین کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے، نہ ’’الف ثانی‘‘ کے مجددین امت کی اصلاحی مساعی یا تجدیدی کارناموں کی تفصیل پیش کرنی ہے، بلکہ مقصود صرف اِس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے کہ گیارھویں صدی ہجری سے یہ کارِ تجدید و اصلاح بالکلیہ برصغیر پاک و ہند میں مرتکز ہو گیا ہے. اس کی ایک ظاہری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ صورت بھی صرف اِس صنم خانہ ہند ہی میں پیش آتی تھی کہ ؎

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر 
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق!

کے مصداق مغلِ اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر علیہ ما علیہ نے کچھ اپنی سیاسی اور حکومتی مصلحتوں کی بناء پر اور کچھ سرکاری علماء اور درباری دانشوروں کے سکھانے پڑھانے پر یہ دعویٰ کر دیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین صرف ایک ہزار سال کے لیے تھا، لہٰذا اب اُس کی مدت ختم ہو چکی ہے اور ’’الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار سال کے لیے ایک نیا دین درکار ہے. چنانچہ اُس نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے وہ نیا مذہب ایجاد بھی کر لیا اور اُسے حکومت کی قوت و اختیار کے بل پر پھیلانا اور رائج کرنا بھی شروع کر دیا. اس پر ؏ ’’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا!‘‘

کے عام قاعدۂ کلیہ کے تحت رحمت الٰہی جوش میں آئی اور ؎

’’خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ ؑ طلسم سامری!‘‘

کے مصداق جلال فاروقی ؓ ، شیخ احمد سرہندیؒ کی صورت میں ظاہر ہوا (واضح رہے کہ حضرت مجددؒ حضر ت عمرؓ کی اولاد سے تھے.) جنہوں نے ’’دین الٰہی‘‘ کے فتنے کا قلع قمع کر دیا اور اصل دین محمدیؐ کی از سر نو تجدید کا کارنامہ سر انجام دیا. چنانچہ پورے عالم اسلام میں وہ معروف ہی اپنے اصل نام سے زیادہ ’’امام ربانی مجدد الف ثانی‘‘ کے لقب سے ہو گئے بالکل اُسی طرح جس طرح غزوۂ بدر کے لیے ابوجہل کے پیشگی طور پر استعمال کیے ہوئے لفظ 
’’یَوْمَ الْفَرْقَان‘‘ کو وحی ربانی نے اُسی کے منہ پر دے مارا تھا اور ’’یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَان‘‘ کو واقعتہً یوم الفرقان ہی بنا دیا تھا . (سورۂ انفال: آیت نمبر:۴۱چنانچہ اب قیامت تک یوم بدر یوم فرقان ہی کی نام سے موسوم رہے گا.

گیارہویں صدی ہجری میں حضرت مجد دالف ثانی ؒ کے ساتھ ایک دوسری اہم صاحب ہمت و عزیمت شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کی ہے____ اوراس صدی کے دوران پورے عالم اسلام میں ان دونوں کی ٹکر کی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی.

بارہویں صدی میں البتہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ساتھ ساتھ شیخ محمد ابن عبدالوہاب نجدیؒ کی شخصیت بھی نظر آتی ہے اور انہیں اِس بناء پر شہرت بھی زیادہ حاصل ہوئی کہ اُن 
کی تائید اور تعاون سے آل سعود نے نجد میں ایک مضبوط حکومت قائم کی جس کا حیطۂ اقتدار جزیرہ نمائے عرب میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا، تاآنکہ حجازِ مقدس بھی اُن کے زیر تسلط آ گیا. تاہم واقعہ یہ ہے کہ کارِ تجدید کی وسعت اور گہرائی دونوں کے اعتبار سے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا پلڑا اُن کے مقابلے میں بہت بھاری ہے. اِس لیے کہ اگرچہ شیخ محمد ابن عبدالوہاب ؒ نے مشرکانہ اوہام کا ازالہ اور بدعات و رُسومات کا قلع قمع تو خوب کیا اور دین کو اس کے ظاہری پہلوؤں کے اعتبار سے یقینا جملہ آلائشوں سے پاک کر کے بالکل ’’خالص‘‘ کر دیا، لیکن چونکہ انہیں منطق اور فلسفے سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی لہٰذا دین حق کے حکمت و معرفت کے غامض اور عمیق پہلو خود اُن کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئے____ اُن کے مقابلے میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ نہایت جامع شخصیت کے حامل تھے. چنانچہ تفسیر و حدیث اور اصول و فقہ کے ساتھ ساتھ تاریخ و ادب، منطق و فلسفہ اور تصوف و سلوک میں بھی درک کامل رکھتے تھے. اور راقم الحروف اپنے اِس احساس کے بیان میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا کہ قرونِ اولیٰ کے بعد کی پوری اسلامی تاریخ میں اُن کی سی جامعیت کبریٰ کی حامل کوئی اور شخصیت نظر نہیں آتی____ ان سب پر مستزادیہ کہ شاہ صاحبؒ کو جدید عمرانیات کا موجد اوّل قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے ضمن میں انہوں نے نے علامہ ابن خلدون کے برعکس جنہوں نے سیاست اور حکومت کے معاملات و مسائل کو زیادہ پیش نظر رکھا تھا، عہدِ حاضر کے تقاضوں کی مناسبت سے اصل توجہ ’’فلسفۂ ارتفاقات‘‘ کے عنوان کے تحت معاشیات واقتصادیات پر مرتکز کی ہے!____ بہرحال کم از کم ان سطور کے عاجز و ناچیز راقم کے نزدیک اِس میں ہر گز کوئی شک نہیں ہے کہ بارہویں صدی ہجری کے مجدد اور دورِ جدید کے ’’فاتح‘‘ (افتتاح کرنے والے) حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ہیں. (اور عجب حسنِ اتفاق ہے کہ یہ ہندی نژاد بھی فاروقی النسب تھا!)

تیرہویں صدی ہجری میں صنم خانہ ہند سے پھر ایک ایسی عظیم شخصیت اُبھری جس کی کوئی نظیر دورِ صحابہ jکے بعد نہیں ملتی. ہماری مراد ہے مجاہد کبیر اور شہید عظیم سید احمد بریلویؒ سے، جنہوں نے سر زمین ہند میں پہلی بار خالص نبوی ؐ نہج پر تحریک جہاد بر پاکی اور ایک بار دیکھنے والی نگاہوں کے سامنے دورِ صحابہ رضی jکا عکس پیش کر دیا. کارِ تجدید کے منطقی تسلسل کے مظہر کے طور پر اُنہیں تمام تر تعاون اور سر پرستی خانوادۂ ولی اللّٰہی ہی سے حاصل ہوئی. چنانچہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے دو فرزندانِ گرامی شاہ عبدالعزیز ؒ اور شاہ عبدالقادر ؒ نے اُن کی ’’حنا بندی‘‘ کی، اور شاہ صاحب کے پوتے شاہ اسماعیل ؒ شہید نے اپنی تمام تر 
خاندانی وجاہت اور مسلمہ علمی برتری کے باوجود اُن کے رفیق کار اور دست راست بننے کی سعادت حاصل کی اور آخر دم تک اُن کا ساتھ بلا تشبیہہ اُسی شان سے دیا جس شان سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا تھا.
چودہویں صدی ہجری میں بھی واقعہ یہ ہے کہ جتنے عظیم اربابِ ہمت و عزیمت اور شہسوارانِ میدان تجدید و اصلاح برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہوئے اُن کی مثال پورا عالم اسلام نہ کمیت 
(Quantity)کے اعتبار سے دے سکتا ہے نہ کیفیت (Quality) کے اعتبار سے.

اِس صدی کے دَوران چونکہ عالم اسلام میں مغربی سامراج کے باعث تعلیم و تربیت کے دو مستقل دھارے جدا جدا بہہ نکلے تھے لہٰذا ان دونوں نے اپنا اپنا حق علیحدہعلیحدہ ادا کیا. چنانچہ دینی تعلیم و تربیت کے قدیم نظام سے فیضیاب ہونے والوں میں سے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ ایسی عظیم اور جامع شخصیت بھی یہیں پیدا ہوئی، اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جدید نظام تعلیم سے مستفید ہونے والوں میں سے علامہ اقبال مرحوم جیسا نابالغہ وقت اور رُومی ثانی بھی اسی خاک سے اُٹھا.

اِس پر مستزادیہ کہ علماء کے حلقے سے ایک عظیم حرکت ’’تبلیغ‘‘ کے عنوان سے اِسی خاک ہند سے ایسی اُٹھی جس نے اس وقت پورے عالم اسلام ہی نہیں، الحمد للہ کہ بہت سے دیارِ کفر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور دوسری جانب زیادہ ترجدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حلقے سے قوت پا کر اُبھری ایک دوسری عظیم تحریک____ تحریک جماعت اسلامی____ جس نے پورے عالم اسلام پر اثر ڈالا، یہاں تک کہ عالم عرب کی عظیم تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ کو بھی فکری غذا فراہم کی اور اس وقت اس تحریک کے زیر اثر متحرک اور فعال لوگوں کی ایک کثیر تعداد پورے عالم ارضی میں پھیلی ہوئی ہے. 

’’غور کا مقام ہے کہ کیا یہ سب کچھ محض اتفاقات کا کرشمہ ہے یا اس سے فطرت کی کوئی مشیت اور قدرت کا کوئی ارادہ ظاہر ہو رہا ہے؟‘‘ 

کیا ’’الف ثانی‘‘ کے مجدد اوّل شیخ احمد سرہندی ؒ کا سرزمین ہند سے متعلق ہونا ایک بالکل اتفاقی امر ہے، جن کے سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ کا جال نہ صرف پورے برصغیر بلکہ افغانستان اور ترکی تک پھیلا ہوا ہے اور جس کے زیر اثر خود رُوس کے زیر تسلط مسلم علاقوں میں ؏ ’’ہر قبا ہونے کو ہے اُس کے جنوں سے تارتار!‘‘
کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے؟ اِسی طرح کیا جملہ علومِ اسلامی کے مجدد اعظم اور تمدنِ انسان 
ی دورِ جدید کے فاتح شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا ہندی نژاد ہونا بھی بالکل اتفاقی امر ہے؟ اور کیا اُن کی عظیم تصانیف کے ذریعے ہونے والی ’’تجدید علم اسلامی‘‘ کے وہ وسیع اور ہمہ گیر اثرات جو پورے برصغیر کے طول و عرض میں مختلف سلاسل اور مسالک سے منسلک علماء کی صورت میں پھیلے ہوئے ہیں رائیگاں جانے والے ہیں؟ اِسی طرح کیا تحریک شہیدینؒ سے وابستہ سینکڑوں مجاہدوں کے مقدس خون کا ارضِ پاکستان میں جذب ہونا بالکل بے نتیجہ رہے گا؟ پھر کیا جماعت شیخ الہند ؒ کی سو سالہ خدمات کوئی عظیم اور پائیدار نتیجہ پیدا نہ کر سکیں گی؟ اِسی طرح کیا اُس ’’حکیم الامت‘‘ ترجمان القرآن اور مصورِ پاکستان کا سر زمین لاہور میں طویل قیام اور ابدی استراحت بالکل بے معنی ہے، جس نے ’’کافر ہندی‘‘ اور ’’برہمن زادہ‘‘ ہونے کے باوجود ’’فلسفہ خودی‘‘ کے عنوان سے ’’روحِ ایمان‘‘ کی بھی از سر نو صحیح ترین تعبیر کی، اور معاشرت و معیشت اور سیاست و ریاست کے ضمن میں اسلام کی ہدایات اور تعلیمات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق صحیح ترین انداز میں پیش کیا؟ پھر کیا اُسی مردِ قلندر کا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کو جنوبی ہند سے شمالی ہند کو ’’ہجرت‘‘ اور یہاں سے اپنی دعوت کے آغاز پر آمادہ کرنا کوئی لا اُبالیانہ معاملہ تھا؟

ہمارے نزدیک یہ تمام واقعات اور اُن کا حیرتناک تسلسل ایک خاص سمت میں اشارہ کر رہا ہے اور وہ یہ کہ مشیت ایزدی نے اسلام کے عالمی غلبے کے نقطۂ آغاز کے طور پر سر زمین پاکستان کو منتخب فرما لیا ہے اور اگر ہمارا گمان صحیح ہے تو ؏ ’’یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے!!‘‘ 

دعوتِ رجوع الی القرآن

اِس سے قبل سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۹ کے حوالے سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ دین حق کی تجدید،اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور اُمت مسلمہ کے عالمی غلبے کی عملی جدوجہد کا مرکز و محور قرآن حکیم ہے ، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کے مطابق قرآن ہی ایک جانب ’’ذکر حکیم‘‘ ہے تو دوسری جانب ’’صراط مستقیم‘‘ ہے اور تیسری جانب ’’حبل اللہ المتین‘‘ (اللہ کی مضبوط رسی) (۱ہے. (۱ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ. (رواہ الترمذی ؒ والدارمی ؒ عن علیؓ ) اور آپ ؐ کے ایک دوسرے فرمان مبارک کی رُو سے ’’یقینا اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت قوموں کو عروج عطا فرمائے گا اور اِسی کے سبب سے ذلیل و خوار کر دے گا.‘‘ (۱چنانچہ اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا ہے علامہ اقبال مرحوم نے کہ: ؎

خوار از مہجوری قرآں شدی شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم برزمیں اُفتندۂٖ در بغل داری کتاب زندۂٖ

اِس پس منظر میں غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ’’رجوع الی القرآن‘‘ کی تحریک بھی جس شدت وقوت اور جس گہرائی و گیرائی اور جس وسعت اور ہمہ گیری کے ساتھ گذشتہ دو سو سال سے برصغیر پاک و ہند میں چل رہی ہے اُس کی بھی کوئی نظیر پورے عالم اسلام میں نہیں ملتی.

واضح رہے کہ یہ تحریک جو اٹھارویں صدی عیسویں کے آواخر اور انیسیویں صدی کے اوائل میں شاہ ولی اللہ ؒ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ اور فارسی ترجمۂ قرآن اور اُن کے صاحبزادوں شاہ عبدالقادرؒ اور شاہ رفیع الدینؒ کے اُردو تراجم سے شروع ہوئی تھی، اور انیسویں صدی کے اواخر میں سر سید احمد خان مرحوم اور آنجہانی غلام احمد قادیانی کی غلط اور گمراہ کن تاویلات کے مخالفانہ رد عمل سے ؎

’’تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے!‘‘

کے مصداق مزید جذبہ اور اضافی قوت حاصل کر کے بیسیویں صدی کے آغاز میں مولانا ابوالکلام آزادؔ مرحوم کے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے ایک ’’دھماکہ‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوئی. اور اِس کے بعد اُس نے ایک جانب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ’’بیان القرآن‘‘ اور حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمہ اورحواشی اور بعد ازاں دیو بندی، بریلوی اور اہلحدیث مکاتب فکر کے بیسیوں علماء کے تراجم و تفاسیر کی صورت میں پیش قدمی کی، تو دوسری جانب یہ علامہ اقبال مرحوم ایسے ’’رومی ثانی‘‘ کے کلام میں نہایت پرشکوہ اور دلآویز انداز اور جدید تعبیرات کے لباس میں جلوہ گر ہوئی____ اوراِن دو انتہائوں کے بین بین اس نے ایک جانب مولانا آزاد مرحوم کے معنوی جانشین مولانا مودودی مرحوم کی ’’تفہیم القرآن‘‘ کی صورت میں ظہور کیا، جس نے بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو غلبۂ اسلام کی 
(۱) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَّیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ (رواہ مسلم ؒ عن عمر ؓ ابن عملی جدوجہد کے لیے آمادۂ عمل ( Motivate) کیا، تو دوسری طرف امام حمید الدین فراہیؒ کے جانشین مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ کی صورت میں بہت سے تشنگان علم قرآن کی آسودگی کا سامان فراہم کیا.

واضح رہے کہ یہاں برصغیر پاک و ہند میں گذشتہ ایک سو سال کے دوران پید اہونے والے تفسیری لٹریچر کی تفصیل نہ مطلوب ہے نہ ممکن، بلکہ وضاحت صرف اس امر کی درکار ہے کہ اِس عرصہ میں دعوت الی القرآن اور تفسیر قرآن کا کام جس وسعت اور شدت کے ساتھ یہاں ہوا ہے اور کہیں نہیں ہوا. چنانچہ کم از کم اِس دور کی حد تک وہ بات جو عام طور پر صرف ایک دلچسپ مقولے کی حیثیت سے بیان ہوتی ہے غلط نہیں ہے کہ ’’قرآن نازل حجاز میں ہوا لیکن اُس کی قرأت کا حق ادا کیا اہل مصر نے، اور اس کی کتابت میں کمال دکھایا ترکوں نے اور اسے سمجھنے کا حق ادا کیا ہندیوں نے‘‘____ علامہ اقبال مرحوم نے بھی کچھ اسی انداز میں فرمایا ہے کہ :

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی!

بہرحال، برصغیر کے طول و عرض میں رجوع الی القرآن کی اِس تحریک نے جو اثرات پیدا کیے، ہر شخص جانتا ہے کہ اب حالات نے اُن کو سمیٹ کر ارضِ پاکستان میں مرکوز کر دیا ہے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کے ساتھ ذوق و شوق اور شغل و شغف کے علاوہ ’’دعوت رجوع الی القرآن، کا جو ہمہمہ اور غلغلہ اِس وقت سر زمین پاکستان میں ہے وہ اور کہیں موجود نہیں ہے. 

یہاں ایک بار پھر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ بھی محض اتفاق کا کرشمہ ہے؟ یا کیا قرآن حکیم ایسی ہی غیر موثر شے ہے کہ رجوع الی القرآن کی یہ عظیم مساعی بے نتیجہ اور لا حاصل رہیں؟

اِن سوالات کا جو جواب ہر صاحب ایمان کے قلب کی گہرائیوں سے بے اختیار نکلے گا وہ یہ کہ ہرگز نہیں! محمد  کا یہ عظیم ترین معجزہ تو عصائے موسیٰ ؑسے کہیں اعلیٰ وارفع اور زیادہ کارگر اور مؤثر ہے.چنانچہ جملہ باطل عقائد و خیالات اور گمراہ کن فلسفوں اور نظریوں کو یہ بالکل اُسی طرح ختم کر سکتا ہے جیسے عصاء موسیٰ ؑنے ساحرانِ مصر کے سانپوں اور اژدہوں کو ہڑپ کر لیا تھا 
، اور اُمت مسلمہ کے لیے یہ ہر دور اور ہر زمانے میں، مشکل ترین حالات اور ناموافق ترین کیفیات میں ویسے ہی راستہ بنا سکتا ہے جیسے عصاء موسیٰ ؑنے سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کے لیے بنایا تھا! چنانچہ یہ ایک اضافی شہادت ہے اِس امر کی کہ ارضِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بڑے منصوبے کی تکمیل کے لیے چن لیا ہے. 

تحریک آزادی میں مذہبی جذبے کی آمیزش

اُمت مسلمہ کی اپنے دوسرے دورِ زوال سے نکل کر اُس تیسرے اور آخری عروج کی جانب پیش قدمی کا پہلا مرحلہ، جو ان شاء اللہ العزیز اسلام کے عالمی غلبے پر منتج ہو گی، آزادی کی اُن تحریکوں پر مشتمل ہے جو تقریباً تمام مسلمان ممالک میں بیسیویں صدی عیسوی کے ثلث اوّل کے بعد سے چلنی شروع ہوئیں اور صدی کے وسط کے لگ بھگ یکے بعد دیگرے کامیابی سے ہمکنار ہوتی چلی گئیں، تاآنکہ اب رُوئے ارضی پر مسلم اکثریت کے علاقوں میں سے صرف چند ہی ایسے رہ گئے ہیں جو اغیار کے براہِ راست عسکری تسلط میں ہوں (اگرچہ مغرب کی ذہنی و فکری۱علمی وفنی، معاشی وا قتصادی اورتہذیبی ثقافتی غلامی تا حال برقرارہے).

حصولِ آزادی کی ان تحریکوں کے بارے میں ایک بات تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے اعتبار سے یہ نہ دینی و مذہبی تھیں نہ اصلاحی و تجدیدی، بلکہ خالص قومی اور سیاسی تھیں اور ان سب کا تعلق اصلاً ’’تیسری دنیا‘‘ کے ایک مشترک معاملے 
(Third World Pheno Menon) سے ہے جس کا مذہب سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے____ تاہم اِن کے ذریعے احیاء اسلام کی تمنا اور غلبۂ دین کی آرزو کو یقینا تقویت حاصل ہوئی ہے اور اِن کے ذریعے حاصل شدہ آزادی اِن شاء اللہ العزیز اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا پیش خیمہ اور اسلام کے عالمی غلبے کا مقدمہ ثابت ہو گی.

دوسری اور موضوعِ زیر بحث کے اعتبار سے اہم تر بات یہ ہے کہ ان تحریکوں میں کہیں بھی نہ اسلام کا نعرہ لگانہ ہی مذہبی جذبے کو اُبھارنے (یعنی 
(Invoke) کرنے) کی کوشش ہوئی، بلکہ اکثر و بیشتر یا تو صرف جذبہ حریت کو للکارا گیا یا کسی نسلی یا لسانی عصبیت کا سہارا لیا گیا، سوائے تحریک پاکستان کے کہ یہاں اصل نعرہ ہی یہ تھا کہ: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ!‘‘ 
یہی وجہ ہے کہ علماء مشائخ کی ایک بڑی تعداد نے اس میں بھرپور حصہ لیا اور وقتی طور پر پورا مسلم انڈیا مذہبی جذبے سے سرشار ہو گیا. اور جیسا کہ ہم اس سے قبل تفصیل سے عرض کر چکے ہیں، یہ اِسی کا نتیجہ تھا کہ قیام پاکستان کا ’’معجزہ‘‘ صادر ہو گیا.

علامہ شبلی نعمانی مرحوم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخ ساز اور ولولہ انگیز انقلاب کے بارے میں کسی نظم میں یہ اشعار کہے ہیں: ؎

یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بچے
کھیلنے جاتے تھے ایواں گہ کسریٰ میں شکار

اور ؎

یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے رہزن 
فاش کرنے لگے جبریل امیں ؑ کے اسرار!

بالکل اسی طرح یہ بھی تحریک پاکستان میں اسی زور دار مذہبی جذبہ کی آمیزش کا کرشمہ تھا کہ بیسیویں صدی کے عین وسط میں جب کہ پورے کرہ ارضی پر الحاد اور مادہ پرستی کی گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور دین و مذہب کی بنیادیں تک منہدم ہوچکی تھیں، دس کروڑ سے زائد افراد کی ایک قوم نے دستوری اور قانونی سطح پر اپنی قومی و اجتماعی زبان یعنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعہ کلمۂ شہادت ادا کیا اور ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کے ذریعے حق حاکمیت کو بالکلیہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کر کے اپنے جملہ اختیارات کو اُس ہی کی معین کردہ حدود کے اندر اندر استعمال کرنے کا عہد کیا. چنانچہ اِس سے جہاں ؏ ’’نعرہ زد عشق کی خونی جگرے پیدا شد!‘‘

کی کیفیت پیدا ہوئی وہاں(بادنیٰ تصرف) ؏ ’’کفر لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد!‘‘
کا نقشہ بھی سامنے آیا. چنانچہ اسی اسمبلی کے کچھ اراکین نے ؎

’’رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں 
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں!‘‘

کے مصداق برملا کہا کہ ’’آج یہاں جو قرار داد پاس ہوئی ہے اس کی وجہ سے ہم شرم کے مارے دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے.‘‘

اور یہ بھی اِسی کا کرشمہ ہے کہ پاکستان میں آج تک جتنے دستوری مسودے مرتب ہوئے، اُن سب میں بلا استثناء وہ دفعہ موجود رہی ہے جو سورۂ حجرات کی پہلی آیت کی دستورِ ملکی کی سطح پر بہترین اور صحیح ترین ترجمانی کرتی ہے اور اسلامی ریاست میں قانون سازی کی گنجائش 
(Scope) کی بھرپور تعیین کرتی ہے، یعنی یہ کہ ’’یہاں کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ کے منافی کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکے گی.‘‘یہ دوسری بات ہے کہ ہم آج تک اِس دفعہ کو پوری طرح نافذ العمل نہیں کر سکے! (۱

بہرحال! ایک تیسری مرتبہ پھر اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیا دل مانتا ہے کہ یہ سب کچھ کار عبث اور دفتر بے معنی (Exercise in Futility) ہے؟ اور کیا ہمارا حال اور مستقبل اتنے طویل ماضی سے بالکل منقطع ہو جائے گا؟ 

جہاں تک ان سطور کے عاجز و ناچیز راقم کا تعلق ہے، اُس کے نزدیک اس معاملے میں تاخیر اور تعویق تو ممکن ہے اور یہ بھی ممکن ہی نہیں عین متوقع ہے کہ اس راہ میں ہماری طویل کوتاہیوں اور موجودہ خامیوں کے باعث کچھ نقصانات 
(Setbacks) اور وقتی ناکامیوں (Failures) اور عارضی شکستوں (Temporary Reversals) کا سامنا ہو، لیکن پاکستان کا اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا گہوارہ اور اسلام کے عالمی غلبے کا نقطۂ آغاز بننا وہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹالی نہیں جا سکتی____ اور یہی ہے ہمارے قومی و ملی وجود کی تصویر کا واحد روشن رُخ جو کبھی، جب توجہ اسی طور پر مرتکز ہو جاتی ہے تو میرے اُفق ذہن و قلب پر مہر درخشاں کے مانند چمکنے لگتا ہے اور کبھی، جب توجہ زیادہ تر پاکستان کے موجود الوقت دینی، اخلاقی اور سیاسی حالات پر مرکوز ہو جاتی ہے تو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی صرف ایک مختصر اور لرزتی ہوئی کرن کا رُوپ دھار لیتا ہے____ چنانچہ اِسی اُمید و بیم کی کیفیت میں جو کچھ بن آتا ہے کیے جا رہا ہوں، اور غالباً ایک حدیث نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں وارد شدہ الفاظ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَائِ کا تقاضا بھی یہی ہے. واللہ اعلم. 

======== ٭ ٭ ٭ ٭========
(۱) سورۃ الحجرات کی پہلی آیت اور اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: 

یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ 

’’اے اہل ایمان! امت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسولؐ سے، اور اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رکھو (اس لیے کہ) یقینا اللہ سب کچھ سننے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے.‘‘