جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘یہ مشکل ترین مسائل میں سے ہے . اس حوالے سے تین باتیں نوٹ کر لیجیے : (۱)یہ تقدیر کا مسئلہ سمجھ میں تو آ سکتا ہے ‘لیکن (۲)بیان میں نہیں آ سکتا. اور (۳)اگر اس پر بحث ہو جائے تو یہ الجھ جاتا ہے. ظاہر ہے کہ اگر یہ مسئلہ سمجھ میں ہی نہ آئے تو پھر ایمان بالقدر ہمارے ایمانیات میں شامل نہیں ہونا چاہیے ‘اس لیے کہ یہ تو تکلیف مالا یطاق ہو جائے گی کہ جس بات کو سمجھنے کی ہمارے اندر استطاعت نہیں ہے ‘اس کو ماننے کا ہمیں حکم دیاجا رہا ہے ایک ہے سمجھ میں آنا اور ایک ہے کسی چیز کی تفصیل‘ جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی تفاصیل. اللہ کی ذات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ‘اس لیے اس کے بارے میں تو ہمیں سوچنے سے بھی روک دیا گیا ہے‘ جبکہ اللہ کی صفات ہماری سمجھ میں آتی ہیں ‘اسی لیے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور کرو‘ لیکن ذاتِ خداوندی پر کبھی غور نہ کرنا‘ اس لیے کہ اس سے فتنوں میں مبتلا ہوجانے کا خدشہ ہے. 

ذاتِ باری تعالیٰ کے ضمن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مجذوبؒ کاایک بڑا خوبصورت شعر ہے : ؎

ُتو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے!

یعنی اللہ تعالیٰ دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا. اللہ کی ذات کو کون سمجھے گا؟ اگرکسی نے ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں عقل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیے تو گمراہی ہی گمراہی ہے. آپ اپنے تصور سے کوئی خدا بنا لو گے ‘حالانکہ وہ خدا تو نہیں ہے آپ کی قوتِ تصور کی تخلیق ہے. اس طرح اگر آپ اپنے بنائے ہوئے اس نقشے کو پوج رہے ہیں تو آپ اللہ کو نہیں ‘ کسی اور کو پوج رہے ہیں.