عبادات کے دو پہلو ہیں ‘ایک ہے ان کا ظاہر اور رسم‘ جبکہ ایک ہے باطن او ر روح. مثلاً نماز کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ آپ نے اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا اور پھر ہاتھ باندھ دیے‘ ثنا پڑھی‘ فاتحہ پڑھی اور قرآن کا کچھ حصہ پڑھا ‘ رکوع میں گئے‘ تسبیحات پڑھیں ‘ پھر کھڑے ہو گئے‘ پھر سجدے میں گئے ‘ تسبیحات پڑھیں‘ پھر بیٹھے ‘ پھر سجدے میں گئے ‘پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر اگلی رکعت اسی طرح بغیر ثنا کے پڑھی. پھر قعدہ میں بیٹھے اور سلام پھیر دیا. یہ سارا عمل رسمِ نماز اور نماز کی ظاہری شکل ہے. نماز کا باطنی پہلو یہ ہے کہ نماز کو خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھا جائے‘ قراء ت کے وقت آیات پر غورکیا جائے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہ کیفیت تھی کہ قراء ت کے دوران جب جہنم یا عذابِ جہنم کا تذکرہ آتا تو آنکھیں بہہ پڑتیں‘ رقت طاری ہو جاتی دورانِ نماز اپنے اندر احسان کی کیفیت پیدا کی جائے جس کا ذکر حدیث جبریل میں بایں الفاظ ہوا ہے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ‘ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’(احسان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ‘اور اگر یہ مقام حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ خیال تو رہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘اب ہوا یوں کہ جب سارا زور صرف عبادات پر آ گیا تو نماز کا باطنی اور روحانی پہلو تو ختم ہو گیا ‘بس رسم اور ظاہری پہلو باقی رہ گیا. بقول اقبال ؎

رہ گئی رسمِ اذاں ‘ روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا‘ تلقین ِغزالی نہ رہی!

جب روحِ دین اور روحِ عبادت سے توجہ ہٹ جائے گی تو دین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پراختلاف ہو گا اور ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ کی نوبت آ جائے گی. آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ آمین بالجہر اور ّبالسر ِکہنے والوں اور رفع یدین کرنے اور نہ کرنے والوں میں لڑائیاں ہو رہی ہیں . بعض جگہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھول کر دوسرے مکتبہ فکر کی مسجد میں چلا جائے تو اسے کہا جاتا ہے کہ ہماری مسجد میں کیوں آئے ہو؟ اگر آئندہ آئے تو ٹانگیں توڑ دیں گے. اللہ کی پناہ! کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر مسجد یں الگ بنا لیں ‘ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگئے‘ لیکن دین کے بڑے معاملات (سود‘ جھوٹ‘ حرام کمائی‘ ملاوٹ‘ دھوکہ دہی وغیرہ) کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بولتا‘ وہاں تو لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم والا معاملہ ہے. 

عبادات پر ساری توجہ مرتکزہونے کا ایک نتیجہ تو یہ اختلافات ہیں ‘جبکہ اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ رسومات زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جاتی ہیں. اس کی ایک مثال شادی بیاہ 
کا موقع ہے. ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے لیے اَن گنت رسمیں رائج ہو گئی ہیں. اس حوالے سے یاد رکھیں کہ شادی کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں کسی دعوتِ طعام کا ثبوت احادیث اور اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا. پوری شادی میں صرف ایک دعوتِ طعام ہے اور وہ لڑکے کی طرف سے دعوتِ ولیمہ ہے. اس کی بھی وجہ ظاہر ہے کہ اس کا گھر آباد ہوا ہے تو وہ خوشی منائے اور اپنے دوستوں کو اس خوشی میں شریک کرے دعوت ولیمہ نہ صرف ثابت ہے بلکہ اس کی تاکید بھی ہے. احادیث کی کتابوں میں ’’باب الولیمہ‘‘ کے عنوان سے پورا پورا باب موجود ہے ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ پہلے لڑکی دیکھنے کے لیے ایک پورا لشکر جاتا ہے اور لڑکی والوں کو بادلِ نخواستہ طعام کا اعلیٰ سے اعلیٰ انتظام کرنا پڑتا ہے ‘ پھر منگنی کی باری آتی ہے‘ پھر تاریخ مقرر کرنے کی ‘ پھر تیل اور مایوں کی‘ پھر مہندی کی. ان تمام رسومات میں سے اکثر کا بوجھ لڑکی والوں پر پڑتا ہے اور انہیں ہر تقریب میں دعوتِ طعام کا انتظام کرنا پڑتا ہے تاکہ لڑکی کو سسرال میں طعنے نہ سننے پڑیں.یہ سب تو وہ رسومات ہیں جو شادی کے دن سے پہلے کی ہیں. جب شادی کا دن آتا ہے توپہلے سہرا بندی ہوتی ہے‘ دولہے کو سلامیاں پیش کی جاتی ہیں‘پھر بارات کا لشکر لڑکی والوں کے ہاں جاتا ہے اور وہاں نکاح ہوتا ہے .وہاں بھی دولہا میاں سلامیاں وصول کرتے ہیں. نکاح کے بعد وہاں دعوتِ طعام کا عظیم الشان اہتمام ہوتا ہے جس میں اسراف کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے اور پھر بہت سا کھانا برباد بھی کر دیا جاتا ہے. 

جن لوگوں کے پاس روپے پیسے کے انبار ہیں وہ تواپنی دولت کے اظہار اور نمود و نمائش کے لیے یہ ساری رسومات ادا کرتے ہیں قرآن مجید کی اصطلاح میں اس کا نام تبذیر ہے: 
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ (بنی اسرائیل:۲۷’’اپنے نام و نمود کے لیے خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک غریب آدمی کو بھی دیکھا دیکھی یہ سب کرنا پڑتا ہے . اب یہ اس کادردِسر ہے کہ وہ اس کے لیے کہیں چوری کرے‘ ڈاکہ ڈالے یا رشوت لے‘ لیکن اسے ہرحال میں یہ کرنا ہے‘ ورنہ بیٹی کیا سوچے گی کہ میری شادی پر میرا باپ یہ بھی نہ کر سکا! یہی وہ خرافات ہیں جن کی وجہ سے ان لوگوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں جن کے ہاں چند بیٹیاں پیدا ہو جائیں. اس حوالے سے اسلام کا اصول یاد رکھیں کہ شادی میں لڑکی والوں کا ایک پیسہ بھی نہیں خرچ ہونا چاہیے. مہر‘ محفل نکاح میں منہ میٹھا کرانا اور پھر دعوتِ ولیمہ‘ یہ سب لڑکے والوں کی ذمہ داری ہے‘ لڑکی والوں کا تو سرے سے کوئی خرچ ہے ہی نہیں. جہیز کے حوالے سے بھی یہ نوٹ کر لیں کہ اس کا اسلام میں سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے‘ لیکن ہمارے ہاں سارا معاملہ الٹ ہے. اس کی وجہ ایک بار پھر نوٹ کرلیں کہ جہاں کوئی بدعت آجاتی ہے وہاں سے کوئی سنت غائب ہو جاتی ہے. نبی اکرم نے فرمایا: 

مَا اَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَۃً اِلاَّ رُفِعَ مِثْلُھَا مِنَ السُّنَّۃِ فَتَمَسُّکٌ بِسُنَّۃٍ خَیْرٌ مِنْ اِحْدَاثِ بِدْعَۃٍ 
(۱
’’جو قوم بھی کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس کی جگہ سے سنت اٹھالی جاتی ہے. پس سنت کو مضبوطی سے پکڑنا بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے.‘‘