۲۸ /فروری ۲۰۰۸ء کا خطابِ جمعہ
خطبہ ٔمسنونہ کے بعد
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ (الفاتحۃ)
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱﴾ (التغابن)
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾ (الحدید)
فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾ (الانشراح)
عَنْ اَبِی الْعَبَّاسِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ ﷺ یَوْمًا ‘ فَقَالَ :
یَا غُلَامُ! اِنِّیْ اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ : احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ، احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ، اِذَا سَاَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ، وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ، وَاعْلَمْ اَنَّ الْاُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی اَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ اِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَـبَہُ اللّٰہُ لَکَ، وَاِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی اَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ اِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ، رُفِعَتِ الْاَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ (۱)
رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح، وفی روایۃ غیر الترمذی :
احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ اَمَامَکَ، تَعَرَّفْ اِلَی اللّٰہِ فِی الرَّخَائِ یَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ، وَاعْلَمْ اَنَّ مَا اَخْطَأَکَ لَمْ یَـکُنْ لِیُصِیْبَکَ، وَمَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَاعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَاَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْـکَرْبِ، وَاَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا
سیدنا ابوالعباس‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ایک روز میں نبی اکرمﷺ کے پیچھے سوارتھا تو آپؐ نے فرمایا:
’’اے لڑکے! میں تمہیں چند (مفید) باتیں بتاتا ہوں. تو اللہ تعالیٰ (کے احکام) کی حفاظت کر (اس کے احکام کی پابندی کر) وہ تیری حفاظت کرے گا. تو اللہ تعالیٰ (کے احکام) کی حفاظت کر‘ تواسے اپنے سامنے پائے گا.جب تو سوال کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے سوال کر. جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ. یاد رکھ! ساری دنیا جمع ہو کر تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ تجھے کسی بات کا فائدہ اور نفع نہیں دے سکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر رکھا ہے‘ اور اگر سارے لوگ مل کر تجھے کوئی نقصان پہنچا نا چاہیں تو وہ تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے سوائے اس نقصان کے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہو. قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں.‘‘ (ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے)
ترمذی کے علاوہ دوسرے محدثین کی روایت میں یوں ہے
’’تو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر‘ تو اسے اپنے سامنے پائے گا. تو خوشحالی میں اس کی طرف رجوع کر‘ وہ تنگ دستی کے وقت تیری مدد فرمائے گا. یاد رکھو! جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ تمہیں مل ہی نہیں سکتی تھی اور جو کچھ تجھے مل گیا اس سے تو محروم نہیں رہ سکتا تھا. یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی مدد صبر سے وابستہ ہے. اور تکالیف و مصائب کے بعد کشادگی اور فراخی آتی ہے. اور تنگی کے بعد آسانی بھی ہوتی ہے.‘‘ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع‘باب منہ.
معزز سامعین کرام!
امام یحییٰ بن شرف الدین النووی رحمہ اللہ علیہ کے شہرۂ آفاق مجموعہ ٔ احادیث ’’اربعین ‘‘ کے سلسلہ وار مطالعہ کے ضمن میں آج ہمارے زیر مطالعہ حدیث نمبر۱۹ہے. یہ حدیث روحِ دین کے اعتبار سے ایک بہت ہی اہم سرے سے بحث کرتی ہے اس کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماہیں‘ جن کی کنیت اَبُوالْعَبَّاس ہے. یعنی ان کے والد کا نام بھی عباس ہے اور ان کے بیٹے کا نام بھی عباس ہے اس حدیث کا لب لباب ہے: ’’استعانت باللہ‘‘ یعنی مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مانگو. یہ دین کی روح کا ایک بہت اہم مسئلہ ہے. میں نے اسی لیے شروع میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی تاکہ آپ کو اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے. سورۃ الفاتحہ جو ہماری نماز کا جزوِ لازم ہے‘ اس کے بارے میں حدیث نبوی ہے
لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ (۱)
’’جس نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے.‘‘
چنانچہ ہم ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہیں. یہ دوسری بات ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق نماز باجماعت میں صرف امام پڑھتا ہے اورامام کے پڑھنے سے گویا پوری جماعت کی طرف سے ادائیگی ہو جاتی ہے. بہرحال اس پر اتفاق ہے کہ سورۃ الفاتحہ ہی اصل نماز ہے.