عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْاَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: اَرَاَیْتَ اِذَا صَلَّیْتُ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ، وَصُمْتُ رَمَضَانَ، وَاَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ، وَلَمْ اَزِدْ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا، اَاَدْخُلُ الْجَنَّۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ : وَاللّٰہِ لَا اَزِیْدُ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا (۱) (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان الایمان الذی یدخل بہ الجنۃ.
ابوعبداللہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ:
’’ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:ذرا غور فرمایئے ! اگر میں (صرف) فرض نمازیں ادا کروں‘ (صرف) رمضان کے روزے رکھوں‘ حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھوں اور اس پر کسی عمل کا اضافہ نہ کروں تو کیا میں جنت میں جا سکوں گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ اُس شخص نے کہا :اللہ کی قسم ‘میں اس پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کروں گا.‘‘
عَنْ اَبِیْ مَالِک الْحَارِثِ بْنِ عَاصِمٍ الْاَشْعَرِیِّ ص ‘ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ :
الطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَالصَّلَاۃُ نُوْرٌ ، وَالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِیَائٌ ، وَالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ ، کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ، فَـبَائِــعٌ نَفْسَہٗ ، فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا (۱)
سیدنا ابومالک حارث بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’پاکیزگی نصف ایمان ہے‘ الحمد للہ کا کلمہ ترازو کو بھر دے گا (یعنی نیکی کے پلڑے کو وزنی کرے گا) ‘سبحان اللہ اورالحمد للہ یہ دونوں کلمے زمین و آسمان کے مابین خلا کو پُر کردیتے ہیں.نماز (نمازی کے لیے) نور ہے‘ صدقہ (صدقہ کرنے والے کے لیے ایمان کی) دلیل ہے ‘ اور صبر (صبر کرنے والے کے لیے) روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف دلیل ہو گا. ہر شخص روزانہ اپنا سودا کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں یا تو خود کو (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے یا خود کو تباہ کر بیٹھتا ہے.‘‘
معزز سامعین کرام!
احادیث ِنبویہؐ کے بارے میں ‘ میں نے ایک بات اس سے پہلے بھی کہی تھی کہ اگر ہم اس بات کو پیش نظر نہ رکھیں کہ احادیث کس پس منظر میں اور کس سے مخاطب ہو کر کہی گئی ہیں اور کسی ایک حدیث کے اوپر اپنی نگاہ جما کر سارے کا سارا دین اسی سے اخذکرنے کی کوشش کریں تو معاملہ غلط ہو جائے گا اور بات گمراہی تک چلی جائے گی. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الطہارۃ‘ باب فضل الوضوء. مثلاً ایمان اور اسلام کی بحث میں ہم یہ حدیث پڑھ چکے ہیں : مَنْ قَالَ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (۱) ’’جس نے لا اِلٰہ اِلا اللہ کہا پس وہ جنت میں داخل ہوگیا‘‘.اب اگرصرف اس ایک حدیث پر نظر مرکوز کرلیں توپھرمحمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری نہ رہا اور کوئی عمل بھی ضروری نہ رہا‘ حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے . اس حدیث کا مفہوم اور حاصل یہ ہے کہ جو شخص خلوصِ نیت اور مکمل قلبی یقین کے ساتھ لا اِلٰہ اِلا اللہ کہہ رہا ہے‘ اس کے سارے تقاضوں کو مانتا بھی ہے اور پورا بھی کرتا ہے تو جنت اُس کا ٹھکانا ہو گی.