آج ہمارے زیر مطالعہ اربعین نووی کی حدیث۲۲ ہے اور اس کے مضمون سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص فرد ہے جو حضوراکرمﷺ سے مخاطب ہے اور آپؐ اس کے احوال سے بھی بخوبی واقف ہیں آئیے اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں.
حضرت عبداللہ بن جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما یہ دونوں باپ بیٹاچونکہ صحابی ہیں ‘ اس لیے ہم ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہما‘‘ کہیں گے بیان کرتے ہیں: اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: ’’ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال کرتے ہوئے یہ عرض کیا :‘‘ اَرَاَیْتَ اِذَا صَلَّیْتُ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ ’’(اے نبیﷺ !) دیکھئے‘ جب میں فرض نمازیں ادا کردوں‘‘ وَصُمْتُ رَمَضَانَ ’’اوررمضان المبارک کے (فرض) روزے رکھوں‘‘ وَاَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ ’’اور حلال ہی پر قائم رہوں اور حرام سے مجتنب رہوں‘‘ وَلَمْ اَزِدْ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا ’’اور اس پر میں کسی چیز کا اضافہ نہ کروں‘‘اَاَدْخُلُ الْجَنَّۃَ؟ ’’تو کیا میں جنت میں داخل ہو جائوں گا؟‘‘ قَالَ: نَعَمْ حضورﷺ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ اس پر اُس شخص نے کہا: وَاللّٰہِ لَا اَزِیْدُ عَلٰی ذٰلِکَ شَیْئًا ’’اللہ کی قسم! میں اس پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کروں گا.‘‘
اس حدیث میں نہ تو ایمان زیر بحث ہے ‘ نہ جہاد فی سبیل اللہ کا تذکرہ ہے. ان (۱) صحیح ابن حبان‘ح:۱۵۱‘ عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللہ عنہ‘ ح:۱۶۹‘عن ابی ذر رضی اللہ عنہ. المعجم الاوسط للطبرانی:۳/۴۶و۳/۲۰۵ و ۲/۳۲۸. کے علاوہ عبادات میں سے زکوٰۃ اور حج بھی اس حدیث میں بیان نہیں ہوئے.اسی طرح اس میںشہادتین کا بھی ذکر نہیں اور یقین والے ایمان کی بھی تاکید نہیں. چنانچہ جیسا کہ میں قبل ازیں بتا چکا ہوں‘ اگر آپ صرف ایک حدیث پر نگاہ مرکوز کر کے اسے عمومی حیثیت دے دیں گے تو وہ گمراہی پر منتج ہوسکتی ہے. زیر مطالعہ حدیث کو یوں سمجھئے کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ایک معین فرد ہے‘ جو یہ سوال کر رہا ہے اور آپؐ جانتے ہیں کہ وہ صاحب ِایمان ہے ‘ اس کے دل میں بھی ایمان موجود ہے اوروہ کلمہ شہادت بھی ادا کرتا ہے حضورﷺ کی نگاہوں سے یہ معاملات پوشیدہ نہیں تھے‘ کسی کے باطن کی کیفیت بھی آپؐ پر عیاں ہو سکتی ہے پھرہوسکتا ہے کہ وہ نادار شخص ہو جس کے لیے زکوٰۃ اور حج کا سوال ہی نہیں ہے .وہ صاحب ِنصاب نہیں ہے ‘اس لیے بالفعل اس کے اوپر زکوٰۃ عائد نہیںہوتی اور نہ ہی اس کے لیے حج کا امکان ہے‘ اس لیے کہ وہ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا کے ذیل میں نہیں آتا. اس کے پاس اخراجاتِ سفر اور زادِ راہ کے لیے کوئی روپیہ پیسہ نہیں ہے.ایسا شخص سوال کر کے سمجھنا یہ چاہتا ہے کہ عبادات کے ضمن میں آیا یہ فرائض کفایت کر جائیں گے یا ان کے اوپر نوافل کا اضافہ لازمی ہے ؟