اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ دین اور عبادات کے معاملے میں دو چیزیں دیکھنی ضروری ہیں‘ جبکہ عام طور پر لوگوں کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ صرف ایک چیز پر نگاہ ڈال لیتے ہیں کہ یہ چیز حضور اکرمﷺ سے ثابت ہے. لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کتنی ثابت ہے. یہ دوسری بات بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے. اُسوئہ رسول ﷺ کے مجموعی نقشہ میںاس نسبت و تناسب کی بہت اہمیت ہے کہ کس چیز کی کتنی اہمیت ہے اور کون سی چیز کس درجے میں مطلوب ہے. یہ چیز بھی حضورﷺ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے‘ لیکن اگر آپ نے تولے کی چیز کو سیر کر دیا یا سیر کو تولہ کر دیا تو معاملہ حقیقت کے برعکس ہو جائے گا. مثال کے طور پر ایک نسخے کے تین اجزاء ہیں‘ ایک ماشہ بھر ہے‘ ایک تولہ بھر ہے ‘ ایک چھٹانک بھر ہے . اگر آپ نے اس تناسب کو الٹا کر دیا ‘بایں طور کہ ماشے والے کو تولہ کر دیا اور تولے کو چھٹانک کر دیا تو اب وہ نسخہ شفاء نہیں رہے گا‘ بلکہ ہوسکتا ہے کہ نسخہ ہلاکت بن جائے.
اس اعتبار سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سنت رسولؐ اور اُسوۂ رسولؐ بحیثیت مجموعی کیا ہے اور پھر اس میںنسبت و تناسبت کیا ہے. اول دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ آیا وہ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب الترغیب فی النکاح. حضوراکرمﷺ سے ثابت ہے ؟اس لیے کہ اگر ثابت نہیں ہے تب تو وہ بدعت ہو جائے گی. اوردوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ جو چیزیں آپﷺ سے ثابت ہیں وہ کتنی ثابت ہیں‘ اس کو سامنے رکھ کر انسان فیصلہ کرے . امرواقعہ یہ ہے کہ فرض نماز اصل اہمیت کی حامل ہے‘ لیکن ہمارے ہاں عام طور پر مذہبی حلقوں میں اور خاص طور پر جو ذرا متصوفانہ انداز کے لوگ ہوتے ہیں‘ وہ فرض کو تو بس ایسے ادا کرتے ہیں جیسے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے. بلکہ بعض لوگ وہ بھی ہیں جن کاسارا زور فرضوں کے بجائے نوافل پر ہے.وہ فرض کے معاملے میں تو کوتاہی برتتے ہیں‘ مگر رات کی نماز میں تسلسل کوٹوٹنے نہیں دیتے. ہم نے بالفعل ایسے لوگ دیکھے ہیں. یہ تمام چیزیں درحقیقت انسان کوراہِ نبوت سے ہٹا دینے والی ہیں.
نوافل کے بارے میں شریعت سے ثابت ہے کہ یہ لازم نہیں ہیں. اسی طرح رات کا قیام یعنی تہجد بھی صرف حضورﷺ کے لیے لازم تھی‘ جبکہ دوسرے لوگوں کے لیے لازم نہیں ہے. البتہ یہ ضرور ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی بہت تشویق و ترغیب دلائی گئی ہے. وہ خاص ایک مہینہ ہے جس میں دن کے اوقات میں کھانا پینا حرام کیا گیا ہے اور رات کو دو تہائی رات‘ یا کم سے کم ایک تہائی رات اللہ کی کتاب قرآن مجید کے ساتھ جاگنے کی ترغیب دی گئی ہے .درحقیقت فرائض اور نوافل کے معاملے میں یہ توازن بہت ضروری ہے.