زیر مطالعہ حدیث کا واقعاتی پس منظراُس طویل حدیث میںمذکور ہے. اس وقت میں پوری حدیث کا متن تو نہیں پڑھ سکتا‘ البتہ اس کا مفہوم میں آپ کوبتا دیتا ہوں اس حدیث کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ یہ حدیث مجھے اس اعتبار سے بہت پیاری معلوم ہوتی ہے کہ اس میں دورِ نبوی
ؐ کا ایک واقعہ ایسے بیان کیا گیا ہے جیسے ہم خود اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں. اسے تصویر لفظی کہا جاتا ہے کہ لفظوں میں کسی چیز کا نقشہ کھینچ دینا‘ تصویر کھینچ دینا‘اس طور سے کہ انسان اپنے آپ کو اس تصویر میں محسوس کرے روایت کا پس منظر یہ ہے کہ نبی اکرم
ﷺ جب اپنے لشکر کو لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو آپ
ؐ رات بھر سفر کرتے تھے ‘اس لیے کہ شدید گرمی کا موسم تھا اور اس موسم میں رات ہی کوسفرممکن تھا.دن کے اوقات میں تو گرمی میں سخت تمازت ہوتی تھی اور صورتِ حال کچھ یوںتھی کہ صحرانیچے سے آگ اُگل رہا ہوتاتھا اور سورج اوپر سے آگ برسا رہا ہوتاتھا‘ لہٰذا دن کے اوقات میںسفر کرنا ممکن نہیں تھا.چنانچہ رات بھر سفر کرنے کے بعد آپ
ﷺ نے فجر کے وقت پڑاؤ کیا اور فجر کی نماز باجماعت پڑھائی. نمازِ فجر اداکرنے کے بعد سب لوگ جلد ازجلد اپنی سواریوں پر سوار ہو گئے تاکہ سورج کے تیز ہو جانے تک مزید کچھ سفر کر لیں‘ کیونکہ جب دھوپ تیز اور تمازت شدیدہو جائے گی تو مجبوراً رکنا پڑے گا.
اب یہ ہوا کہ ساری رات کے جاگے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی سواریوں پر اونگھنے لگے فجر کا وقت خاص طور پر ایسا ہوتا ہے کہ نسیم سحری انسان کو تھپک تھپک کر سلادیتی ہے. عام طور پر مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی مریض کسی درد میں مبتلا ہواور وہ ساری رات جاگتا رہے تو صبح کے وقت اسے کچھ نہ کچھ سکون حاصل ہوجاتا ہے اور وہ تھوڑی دیر سو لیتا ہے . چنانچہ تمام صحابہ کرام
ؓ اپنی سواریوں پر بیٹھے ہوئے اونگھنے لگے.ان کی اونٹنیوں کو آزادی مل گئی اور وہ چلتے چلتے اِدھر اُدھر جہاں کوئی کیکر کا درخت دیکھتیں تو اس پر منہ مار لیتیں. اس سے یہ ہوا کہ سارا لشکر وادی کی پوری چوڑائی میں پھیل گیا. لیکن حضرت معاذ
ؓ جاگتے رہے اور اپنی اونٹنی کو حضور
ﷺ کی اونٹنی کے ساتھ ساتھ چلاتے رہے.اچانک حضرت معاذ
ؓ کی اونٹنی کسی چیز سے ٹھوکر کھاکر بدک گئی‘ اس کی وجہ سے اس کے قریب حضور
ﷺ کی اونٹنی بھی بدک گئی.اس موقع پر حضور
ﷺ نے اپنے ہودج کا پردہ اٹھایا تو دیکھا کہ سوائے معاذ کے آس پاس کوئی نہیں ہے. تمام صحابہ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے ہیں. آپ
ؐ نے آواز دی:
یَا مُعَاذُ انہوں نے عرض کیا:
لَـبَّـیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ’’حضور
ؐ میں حاضر ہوں‘‘. آپ
ﷺ نے فرمایا:
اُدْنُ دُوْنَکَ ’’نزدیک آجاؤ ‘ اور نزدیک آ جاؤ‘‘.تو وہ قریب ہو گئے‘یہاں تک کہ دونوں کی اونٹنیاں ایک دوسرے سے مس کرنے لگیں. تب حضور
ﷺ نے فرمایا:
مَا کُنْتُ اَحْسِبُ النَّاسَ مِنَّا کَمَکَانِھِمْ مِنَ الْـبُـعْدِ ’’میرا گمان نہیں تھا کہ لوگ مجھ سے اتنے فاصلے پر ہوں گے‘‘.ظاہر بات ہے کہ دشمن ‘ خاص طور پر منافقین جو بظاہر اپنے ہیں‘ہر وقت حضور
ﷺ کی تاک میں تھے تبوک سے واپسی کے دوران یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ کچھ منافقین ایک تنگ گھاٹی ‘ جس میں بیک وقت ایک ہی اونٹ گزر سکتاتھا ‘ میں چھپ کر بیٹھ گئے کہ حضور
ﷺ کا اونٹ جب یہاں سے گزرے گا تو ہم حملہ کر کے حضور
ﷺ کو قتل کر دیں گے‘ معاذ اللہ! اس وقت اس واقعہ کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب
ﷺ کو کیسے بچایا چنانچہ حضور
ﷺ کو تعجب ہوا کہ لوگ مجھ سے اتنے فاصلے پر ہیں. گویا انہیں خیال ہی نہیں ہے کہ وہ میری حفاظت کے لیے میرے آس پاس رہیں.
اس وقت اگرہم میں سے کوئی ہوتا تو وہ اپنے نمبر بنانے کے لیے دوسروں پر تنقید کرتا کہ حضور!یہ لوگ تو پروا ہی نہیں کرتے‘جبکہ مجھے دیکھئے کہ مجھے آپ کی کتنی پروا ہے اور میں تو آپ
ؐ کی سواری کے ساتھ‘ اپنی سواری کو جوڑے چلا آ رہا ہوں. لیکن حضرت معاذ
ؓ نے لوگوں کی طرف سے معذرت پیش کی کہ لوگ رات بھر کی بے خوابی کی وجہ سے اونگھ رہے تھے تو ان کی سواریاں انہیں لے کر اِدھر اُدھر متفرق ہو گئیں.اس جواب پر حضوراکرم
ﷺ نے فرمایا :
وَاَنَا کُنْتُ نَاعِسًا ’’ہاں میں بھی اونگھ رہا تھا‘‘.دیکھئے رسول اللہ
ﷺ نے اپنے آپ کو کوئی مافوق الفطرت انسان کے طور پر پیش نہیں کیا‘بلکہ آپ
ؐ نے اپنی بات بھی بتا دی کہ ٹھیک ہے یہ بشری تقاضے ہیں ‘جو میرے ساتھ بھی لگے ہوئے ہیں اور مجھے بھی اونگھ آگئی تھی. اس سے آگے سوال و جواب کا ایک سلسلہ ہے‘ جہاں سے آج کی زیر مطالعہ حدیث شرو ع ہو رہی ہے.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات کافی عرصے سے تھی کہ جب بھی حضور اکرمﷺ کی خلوت میسر آئے گی تو میں آپؐ سے ایک خاص سوال کروں گا. جب انہوں نے دیکھا کہ اس وقت حضورﷺ کے ساتھ خلوت بھی میسر آ گئی ہے‘ اور حضورﷺ خاص طور پر مجھ سے اس وقت خوش بھی ہیں کہ میرا یہ ساتھی جاگتا ہوا میرے ساتھ چلتا آ رہا ہے تو اس وقت انہوں نے سوال کیا.
یہ سارا پس منظر میں نے اس طویل حدیث سے بیان کیا ہے جو اگرچہ اربعین نوویؒ میں شامل نہیں ہے‘ لیکن مجھے بہت پیاری ہے اور میں نے اس حدیث کو اس مجموعہ حدیث کے آخر میں ’’حکمت ِ دین کا عظیم خزانہ‘‘ کے عنوان سے درج کیا ہے. حدیث ِجبریل کے مطالعہ کے بعد اس حدیث کے مطالعہ میں ہم نے دو جمعے صرف کیے تھے.