قربِ الٰہی کے ضمن میں سورئہ بنی اسرائیل کی یہ آیت بڑی اہم ہے
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ﴿۵۷﴾ ’’وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے قرب کے متلاشی ہیں کہ ان میں سے کون (اُس کے) زیادہ قریب ہے اور وہ امیدوار ہیں اُس کی رحمت کے اور ڈرتے رہتے ہیں اُس کے عذاب سے.واقعتا آپ
ؐ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے.‘‘
یعنی جنہیں یہ پکار رہے ہیں‘ ان سے دعائیں کر رہے ہیں‘ وہ تو خود قربِ الٰہی کی منزلیں طے کر رہے ہیں اوراللہ کی رحمت کے امیدوار بھی ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے بھی رہتے ہیں. چاہے وہ انبیاء و رسل ہوں‘ یا اولیاء اللہ یا فرشتے‘ وہ تو عالم امر میں خود اللہ کی رضا جوئی کے لیے کوشاں اور اس کے قرب کے متلاشی ہیں.
اس حوالے سے آخری آیت میں سورۃ الزمر کی بیان کر رہا ہوں.یہاں مشرکین کا
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الصلاۃ‘ باب ما یقال فی الرکوع والسجود. قول نقل ہوا ہے کہ وہ غیر اللہ کو پوج رہے ہیں تو اس سے مقصود اللہ ہی کا قرب حاصل کرنا ہے:
مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی ؕ (آیت۲) ’’ہم ان کو نہیں پوجتے مگر صرف اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب سے قریب تر کرتے ہیں‘‘.یعنی ان کے نزدیک جن کو وہ پکار رہے تھے ‘دعائیں کر رہے تھے وہ ان کے لیے قربِ الٰہی کا ذریعہ ہیں.
یہاںایک بات نوٹ کر لیجیے کہ مشرکین جن چیزوں کی پرستش کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہیں: ایک تو مظاہر فطرت ہیں جو بے جان ہیں‘ مثلاً سورج ‘ چاند‘ ستارے‘ آگ‘ پانی وغیرہ. دوسرے یہ کہ وہ پوجتے ہیں فرشتوں کو‘ انبیاء کواور اولیاء اللہ کی ارواح کو.اب مشرکین کا یہ کہنا کہ ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب تر کر دیں تویہ بات چاند‘ سورج اور ستاروں کے بارے میں تو نہیں ہو سکتی‘ اصل میں یہ اس دوسری قبیل سے متعلق ہے ‘یعنی وہ جن جاندار چیزوں کو پوجتے تھے تو اس سے ان کا مقصد قربِ الٰہی ہوتا تھا.
مشرکین عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور جن سے اللہ کی بیٹیاں راضی ہو جائیں تواللہ بھی اُن سے راضی ہو جائے گا.بیٹیاں لاڈلی ہوتی ہیں اوران کی فرمائش کو رد کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے. آپ بیٹوں کو تو آسانی سے جھڑکسکتے ہیں‘مگر بیٹیوں کو نہیں جھڑک سکتے اگر آپ کے اندر شرافت ہے. مجھے جب یاد آتا ہے تو میں اپنے آنسو نہیں روک سکتاکہ کس جگر کے ساتھ اور کس مضبوط دل کے ساتھ حضور
ﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہاکی یہ درخواست رد کی ہو گی کہ حضور
ؐ ! اب تو سب لوگوں کے گھروں میں آسائش ہو گئی ہے‘معاشی حالات اچھے ہو گئے ہیں‘تومجھے بھی کوئی لونڈی یا خادمہ عطا کردیں.دیکھئے چکی پھیر پھیر کے میرے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں اور کندھوں پر پانی کے مشکیزے لاد کرلانے کی وجہ سے نشان پڑ گئے ہیں. حضور اکرم
ﷺ (فداہ آبائنا واُمّھاتنا) نے جواب دیا کہ بیٹی! یہ چیزیں تمہارے لیے نہیں ہیں. میں تمہیں اس سے بہتر شے بتاتا ہوں‘وہ یہ کہ ہر نماز کے بعد
۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ‘
۳۳ مرتبہ الحمد للہ‘
۳۳ (یا
۳۴) مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو (اس کو تسبیح فاطمہ
ؓ بھی کہا جاتا ہے). بہرحال میں عرض کر رہاتھا کہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر بت بنا لیے گئے. مشرکین کے تین بڑے بت لات ‘منات اور عزیٰ مؤنث تھے. لات مؤنث ہے الٰہ کا‘عزیٰ مؤنث ہے عزیز کا‘ منات بھی مؤنث ہے‘تو انہوں نے یہ دیویاں بنائی ہوئی تھیں. دراصل مشرکین عرب کا یہ تصور ایمان بالملائکہ کی بگڑی ہوئی صورت تھی.
فرشتے عالم ارواح میں موجود ہیں اور ان میں بھی اللہ سے قریب سے قریب تر ہونے کی جدوجہد جاری ہے. فرشتوں کے بھی درجات ہیں.پہلے نمبر پر ملائکہ مقربین ہیں جو اللہ ربّ العزت سے بہت ہی قریب ہیں. کچھ فرشتے وہ بھی ہیں جو اللہ کے عرشِ اعظم کواُٹھائے ہوئے ہیں.چنانچہ فرشتوں میں بھی قرب کی ایک خواہش پائی جاتی ہے.
دوسرے یہ کہ اولیاء اللہ اور انبیاء کرام علیہم السلام کے نام پر مجسمے بنا لیے گئے.حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بتوں کا ذکر سورۂ نوح میں آتا ہے . قوم کے سرداروں نے اپنی قوم سے کہا تھاکہ کہیں نوح کی باتوں میں آ کر اپنے ان معبودوں کو نہ چھوڑ دینا :
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمۡ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسۡرًا ﴿ۚ۲۳﴾ ’’وہ کہنے لگے : دیکھو نہ چھوڑ دینا اپنے معبودوں کو‘ہرگز مت چھوڑنا وَد کو‘ سواع کو ‘ یغوث کو‘ یعوق کو اور نسر کو‘‘.ان بتوں کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ اس قوم کے گزرے ہوئے اولیاء اللہ تھے اورقوم نے ان کے بت تراش لیے تھے. آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بھی اولیاء اللہ کی قبروں کو پوجتے ہیں‘ تو ان میں اور ہم میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے.
ایک بڑا تلخ واقعہ بتایا تھا غازی احمد صاحب
ؒ نے‘جنہوں نے کتاب لکھی تھی
’’مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘. یہ ہندو خاندان میں پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں مسلمان ہو گئے تھے اور بڑے مؤحد تھے.
۱۹۴۷ء میں ان کا سارا کنبہ انبالہ میں جا کر آباد ہو گیا.پھر کئی سال کے بعد اُن کے بھائی اُن سے ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے یہ بات کہی کہ بھائی جان! آپ نے خواہ مخواہ اپنا مذہب بدلا.ہم نے تو انبالہ میں جا کر دیکھ لیا ہے کہ مسلمان قبروں کو پوجتے ہیں‘تو ہم میں اور ان میںفرق کیا ہے؟ ہمیں تو کوئی فرق نظر نہیں آیا ‘بس یہی فرق ہے نا کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں اوریہ قبروں کو پوج لیتے ہیں!
بہرحال جو لوگ بھی فرشتوں ‘انبیاء کی ارواح یا اولیاء اللہ کی ارواح کو پکارتے تھے یا پکارتے ہیں اس سے ان کا مقصد قربِ الٰہی ہے. لیکن یہ پکارنا شرک کے زمرے میں آتا ہے. ظاہر بات ہے کہ ارواح تو حقیقت ہیں اور روحِ محمدیﷺ بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ عالم ارواح میں موجود ہے.اسی طرح یقینا اولیاء اللہ کی ارواح بھی موجود ہیں اور میں آپ کو شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا قول سنا چکا ہوں کہ اولیاء اللہ کے انتقال کے بعد ان کی ارواح کو بھی اللہ تعالیٰ ملائکہ اسفل میں شامل کر دیتے ہیں. یہ ملائکہ کا سب سے نچلا درجہ ہے جو اس دنیا کے انتظام پر مامور ہے. یہ سیکرٹ سول سروس ہے جو نظر نہیں آتی‘مگر اللہ کے احکام کی تنفیذ کرتی ہے. تو اولیاء اللہ کی ارواح بھی انہی میں شامل ہو جاتی ہیں‘ لیکن آپ کسی کو پکار نہیں سکتے. فرشتے آپ کے ساتھ موجود ہیں‘لیکن آپ انہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا یہ کام کرا دو!اسی طرح کسی روح کو بھی نہیں کہہ سکتے کہ میرا فلاں کام کرا دو.