اوّلاًیہاں نوٹ کیجیے کہ قربِ الٰہی کے دوذرائع ہیں:تقرب بالفرائض اورتقرب بالنوافل . ظاہر ہے تقرب بالنوافل کا مرحلہ فرائض کی ادائیگی کے بعد آئے گا.ہم جانتے ہیں کہ فرض نماز افضل ہے نفل نماز سے. کوئی شخص فرض نہ پڑھتا ہو اور سارا دن نفل پڑھتا رہے تواسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا. ساری رات نوافل میں کھڑے رہے‘ فجر میں سو گئے تو زیرو. نوافل کا معاملہ فرائض کی ادائیگی کے بعد آتا ہے اور فرائض کا تصور میں نے کئی بار بیان کیا ہے کہ جہاں نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ فرض ہے وہاں دین کی دعوت اور اقامت دین کی جدوجہد بھی فرض ہے. اس فرض کی ادائیگی کی طرف آپ کی طرف توجہ نہیں ہے اور نوافل پر آپ نے اپنا پورا زور لگایاہوا ہے تو یہ طرزِعمل درست نہیں. نمازیں نفلی‘ روزے نفلی‘ حج نفلی‘ عمرے پر عمرے ‘ ہر سال عمرہ‘ رمضان کا عمرہ‘ کیا ہے یہ؟ آپ نے فرض ترک کیا ہوا ہے تو فرض کو چھوڑ کر نوافل‘چہ معنی دارد؟
اس حوالے سے اصول یہ ہے کہ پہلے یہ فرض ادا ہو جائے‘اللہ کا دین قائم ہو جائے تب آپ دوسرے درجے یعنی تقرب بالنوافل کی طرف آ سکتے ہیں. اس لیے کہ جب نظامِ خلافت قائم ہو گیا تو اب دین کی مزید دعوت اور دین کو بقیہ دنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد اس نظام کے ذمہ ہے. اب انفرادی طور پر لوگ بری ہو جائیں گے.البتہ کسی موقع پر اس نظامِ خلافت کی طرف سے مطالبہ آجائے کہ فلاں محاذکے لیے دس ہزار آدمی فوراً چاہئیں تودس ہزار اگرنکل آئے توباقی آرام سے گھروں میں سوئیں‘ رات بھر قیام کریں‘ علمی کام میں لگے رہیں‘ روحانی جدوجہدمیں لگے رہیں توسب جائز ہے. لیکن یہ سب نفلی کام اُس وقت ہیں جب دین قائم ہو چکا ہو. یہ ہے کانٹے کی بات. یہ تقرب بالفرائض اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے.